Topics

علم سینہ

سوال: روحانیت کے اوپر اب تک جتنی کتابیں لکھی گئی ہیں ان میں روحانی علوم کا تذکرہ تو کیا گیا ہے لیکن اس علم کو ایک اور ایک دو، دو اور دو چار کی طرح عام نہیں کیا گیا۔ بہت سی رموز و نکات بیان کئے گئے پھر بھی رموز و نکات پردے میں اس لئے ہیں کہ ان رموز و نکات کو وہی حضرات سمجھ سکتے ہیں جو منزل رسیدہ ہیں یا جو حضرات راہ سلوک میں سفر کر چکے ہیں۔ ہمارے اسلاف نے یہ بھی فرمایا کہ روحانی علوم چونکہ منتقل ہوتے ہیں اس لئے ان کو محفوظ رہنا چاہئے اور ان کی حفاظت کرنی چاہئے۔ یہی وجہ ہے کہ روحانی علوم کا نام ’’علم سینہ‘‘ رکھ دیا گیا۔ اسلاف نے تو یہاں تک فرما دیا کہ روحانی علوم حاصل ہونے کے بعد ان کے نتائج یعنی مافوق الفطرت باتوں کو چھپا لینا چاہئے۔ خواجہ صاحب! میں آپ سے پوچھنا چاہتی ہوں کہ ایسا کیوں ہوا؟ ازراہ شفقت میری پیاس بجھا دیں۔

جواب: اس سلسلہ میں جہاں تک میں تفکر کر پایا ہوں ایک ہی بات سمجھ میں آتی ہے کہ انسان کے اندر سوچنے سمجھنے اور علم حاصل کرنے کی صلاحیت اتنی نہیں تھی جتنی آج موجود ہیں۔ سائنس کے اس ترقی یافتہ دور سے پہلے چند لوگوں کا انتخاب کیا اور پھر ان کو وہ علوم منتقل کر دیئے لیکن آج کے دور میں انسان کی دماغی صلاحیت اور سکت فہم اور تفکر اتنا زیادہ طاقتور ہے کہ جو چیزیں پہلے کشف و کرامات کے دائرے میں آتی تھیں۔ آج وہی چیزیں انسانی کی عام زندگی میں داخل ہیں۔ جیسے جیسے علوم سے انسان کی سکت بڑھتی گئی، شعور طاقتور ہو گیا۔ ذہانت میں اضافہ ہوا، گہری باتوں کو سمجھنے اور جاننے کی سکت بڑھی، سائنس کی ترقی سے یہ بہت بڑا فائدہ ہوا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ جیسے جیسے شعور کی طاقت بڑھی ہے اسی مناسبت سے آدمی کے اندر یقین کی طاقت کمزور ہوتی چلی گئی۔ یقین کی طاقت کمزور ہونے کا مطلب یہ ہے کہ آدمی اللہ سے دور ہو گیا اور اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ سائنس کی ترقی کا مطمع نظر زیادہ تر دنیاوی آسائش و آرام کا حصول ہے چونکہ دنیا خود بے یقینی کا سمبل (SYMBOL) اور فکشن(FICTION) ہے اور مفروضہ حواس کے علاوہ کوئی حیثیت نہیں رکھتی اس لئے یہ ترقی بھی ہمارے لئے عذاب بن گئی۔ اگر اس ترقی کی بنیاد ظاہر اسباب کے ساتھ ماورائی صلاحیت کی تلاش ہوتی تو یقین کمزور ہونے کے بجائے طاقتور ہوتا لیکن اس کے باوجود سائنسی علوم کے پھیلاؤ سے بہرحال اتنا فائدہ ضرور ہوا ہے کہ ہمارے اندر ایسے علوم حاصل کرنے کی صلاحیت کا ذوق پیدا ہوا جو ہمیں روحانیت سے قریب کرتے ہیں۔ اب سے پچاس سال پہلے یا سو سال پہلے جو چیزیں پچاس، سو سو سال کی ریاضت کے بعد حاصل ہوتی تھیں اب وہی چیز ارادے کے اند ریقین مستحکم ہونے سے چند مہینوں اور چند سالوں میں حاصل ہو جاتی ہے۔


Topics


Roohani Daak (2)

خواجہ شمس الدین عظیمی

جناب خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب نے کالم نویسی کاآغاز1969میں روزنامہ حریت سے کیا ۔پہلے طبیعیات کے اوپر مضامین شائع ہوتے رہے پھر نفسیات اور مابعد نفسیات کے مضمون زیر بحث آ گئے۔ روزنامہ حریت کے قارئین نے سائیکالوجی اور پیراسائیکالوجی کے ان مضامین کو نہ صرف پسند کیا بلکہ اپنے مسائل کے حل کے لئے خطوط لکھنے شروع کر دیئے۔ زیادہ تر خطوط خواب سے متعلق ہوتے تھے۔ شروع کے دنوں میں ہفتہ میں تین یا چار خط موصول ہوتے تھے اور پھر یہ سلسلہ ہر ہفتہ سینکڑوں خطوط پر پھیل گیا۔ حریت کے بعد روزنامہ جسارت، روزنامہ اعلان، روزنامہ مشرق اور پھر روزنامہ جنگ میں روحانی ڈاک کے عنوان پر یہ کالم اتنا زیادہ مقبول ہوا کہ خطوط کی تعداد ہزاروں تک پہنچ گئی۔ جب اخبار کا دامن اتنی بڑی ڈاک کا متحمل نہ ہو سکا تو پیارے اور محترم دوستوں کے مشوروں اور تعاون سے روحانی ڈائجسٹ کا اجراء ہوا اور آج بھی روحانی ڈاک کے عنوان سے یہ کالم روحانی ڈائجسٹ میں شائع ہو رہا ہے۔

آپ نے ان اخبارات وجرائد میں عوام کے ان گنت معاشی، معاشرتی، نفسیاتی مسائل اورالجھنوں کا حل پیش کیا ہے اورمظاہرقدرت کے پیچیدہ معموں سے متعلق سوالات کے جوابات دئیے ہیں۔خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کے لائق شاگرد جناب میاں مشتاق احمد عظیمی نے روحانی ڈاک میں شائع شدہ ان خطوط کو یکجا کیا اورترتیب وتدوین کے مراحل سے گزارکر چارجلدوں پر مشتمل کتاب روحانی ڈاک کو عوام الناس کی خدمت کے لئے شائع کردیا۔