Topics

نروس نہیں

سوال: میں شدید احساس کمتری میں مبتلا ہوں۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر نروس ہو جاتا ہوں۔ چار آدمیوں میں بیٹھ کر بات کرنے سے معذور ہوں۔

جواب: جب تحت الشعور میں کوئی غیر معمولی امید مستحکم ہو جاتی ہے اور حالات ایسے ہوں کہ کوشش کام نہ آتی ہو اور دل میں امید زیادہ سے زیادہ قائم ہو چکی ہو اور امید سے دست بردار ہونا طبیعت کے منافی ہو تو ذہن اس امید پر مرکوز ہو جاتا ہے جب نہ صورت واقع ہو جاتی ہے تو اس ایک امید کے ارد گرد اور بہت سی امیدیں طواف کرنے لگتی ہیں۔ مثلاً زید چاہتا ہے کہ میری شادی فلاں لڑکی سے ہو جائے۔ اور یہ امید مستحکم ہو جاتی ہے تو زید کی ساری خوشیاں اسی ایک امید کے زیر اثر رقص کناں رہتی ہے۔ شادی ہونے پر گھر بس جائے گا۔ گھر میں آرام و سکون ملے گا۔ بچے ہونگے۔ مستقبل کے خوابوں کی تعبیر نکل آئے گی۔ شادی نہیں ہوئی تو میں برباد ہو جاؤں گی۔ زندگی میں اندھیرا چھا جائے گا۔ زیادہ شدت ہو تو یہ بھی خیال آنے لگتا ہے کہ میں خود کشی کر لوں وغیرہ وغیرہ۔

اگر کسی وجہ سے یہ مستحکم امید منقطع ہو جائے تو شعور پر ایسی ضرب پڑتی ہے کہ بعض اوقات انسان ہوش و حواس بھی کھو بیٹھتا ہے۔ انسان کے اندر دو شعور کام کرتے ہیں۔ ایک شعور دوسرا لا شعور۔ اگر شعور کے اوپر اتنی ضرب پڑ جائے کہ وہ اس کا متحمل نہ ہو سکے تو اس کے اندر ایک قسم کا تعطل پیدا ہو جاتا ہے۔ اس تعطل میں شعور کے اوپر لاشعوری تحریکات غلبہ حاصل کر لیتی ہیں۔ لاشعور میں چونکہ زمانی، مکانی حد بندیاں نہیں ہوتیں اس لئے شعور کوئی واضح فیصلہ نہیں کر سکتا اور اس پر ایسا جمود طاری ہو جاتا ہے جس کو وہ خود سمجھنے سے قاصر رہتا ہے مثلاً یہ کہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر نروس ہو جاتا ہے۔ ایک سے زائد آدمیوں کے سامنے جانے سے کتراتا ہے۔ 

بات کرنا چاہتا ہے مگر اس پر قدرت نہیں رہتی کہ بات کا صحیح جواب دے سکے۔ آپ کے مسئلے کا حل یہ ہے کہ شعوری تحریکات پر لاشعوری تحریکات کے غلبہ کو ختم کیا جائے۔ اس کا طریق یہ ہے کہ آپ چھ انچ لانبا اور چار انچ چوڑا سفید چمکدار کاغذ لے کر اس پر اوپر سے نیچے تک سیدھی سیدھی لائنوں میں پانچ کا ہندسہ (5) لکھیں۔ تعداد جتنی بھی ہو کاغذ کو فریم کرا لیں۔ فریم میں جو لکڑی استعمال ہو اس کا رنگ کالا ہونا چاہئے۔ یہ فریم کسی ایسی جگہ دیوار میں لٹکا دیں جہاں آپ کی نگاہ زیادہ سے زیادہ پڑ سکے۔ یہ فریم دن رات میں زیادہ سے زیادہ مرتبہ دیکھتے رہیں۔ انشاء اللہ اس طز عمل سے آپ کے اندر کام کرنے والے شعوری محرکات نارمل ہو جائیں گے۔


Topics


Roohani Daak (2)

خواجہ شمس الدین عظیمی

جناب خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب نے کالم نویسی کاآغاز1969میں روزنامہ حریت سے کیا ۔پہلے طبیعیات کے اوپر مضامین شائع ہوتے رہے پھر نفسیات اور مابعد نفسیات کے مضمون زیر بحث آ گئے۔ روزنامہ حریت کے قارئین نے سائیکالوجی اور پیراسائیکالوجی کے ان مضامین کو نہ صرف پسند کیا بلکہ اپنے مسائل کے حل کے لئے خطوط لکھنے شروع کر دیئے۔ زیادہ تر خطوط خواب سے متعلق ہوتے تھے۔ شروع کے دنوں میں ہفتہ میں تین یا چار خط موصول ہوتے تھے اور پھر یہ سلسلہ ہر ہفتہ سینکڑوں خطوط پر پھیل گیا۔ حریت کے بعد روزنامہ جسارت، روزنامہ اعلان، روزنامہ مشرق اور پھر روزنامہ جنگ میں روحانی ڈاک کے عنوان پر یہ کالم اتنا زیادہ مقبول ہوا کہ خطوط کی تعداد ہزاروں تک پہنچ گئی۔ جب اخبار کا دامن اتنی بڑی ڈاک کا متحمل نہ ہو سکا تو پیارے اور محترم دوستوں کے مشوروں اور تعاون سے روحانی ڈائجسٹ کا اجراء ہوا اور آج بھی روحانی ڈاک کے عنوان سے یہ کالم روحانی ڈائجسٹ میں شائع ہو رہا ہے۔

آپ نے ان اخبارات وجرائد میں عوام کے ان گنت معاشی، معاشرتی، نفسیاتی مسائل اورالجھنوں کا حل پیش کیا ہے اورمظاہرقدرت کے پیچیدہ معموں سے متعلق سوالات کے جوابات دئیے ہیں۔خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کے لائق شاگرد جناب میاں مشتاق احمد عظیمی نے روحانی ڈاک میں شائع شدہ ان خطوط کو یکجا کیا اورترتیب وتدوین کے مراحل سے گزارکر چارجلدوں پر مشتمل کتاب روحانی ڈاک کو عوام الناس کی خدمت کے لئے شائع کردیا۔