Topics
سوال: میرے والد اپنی جوانی سے آج سے بڑھاپے تک پانچ وقت نمازی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ان کے وظائف میں سورہ یاسین، سورہ فتح، سورہ رحمان، سورہ ملک، سورہ مزمل، دعائے جمیلہ، دعائے نور وغیرہ شروع سے ہی مستقل شامل ہیں۔ لیکن نماز، تلاوت اور وظائف کے باوجود ہمارا گھر مصیبت کدہ ہے۔ ہر کوئی کسی نہ کسی بیماری کی لپیٹ میں ہے ہر شخص طرح طرح کے مسائل کا شکار ہے۔ اپنے پرائے سب ہمیں نیچی نظروں سے دیکھتے ہیں۔ ہم بہن بھائیوں کی شادی تو درکنار کبھی کوئی رشتہ تک نہیں آیا۔ لوگوں کا جو دل چاہتا ہے کہہ دیتے ہیں اور ہم منہ تکتے رہ جاتے ہیں۔ اس لئے کہ ہم غریب ہیں اور ہمارا اپنا گھر بھی نہیں ہے۔ صبر کے علاوہ کر بھی کیا سکتے ہیں۔ سارا گھر غموں کی لپیٹ میں ہے اور ہمیں کبھی کوئی خوشی نصیب نہیں ہوتی۔ خدارا کوئی ایسا عمل بتائیں کہ ہمارے مسائل و مشکلات حل ہوں بیماریاں ختم ہوں اور ہمارا گھر خوشیوں کا گہوارہ بن جائے۔
اب میں اس آس پر بیٹھی ہوں کہ شاید کوئی رشتہ آ جائے۔ لیکن میری قسمت کے دروازے ایسے بند ہیں کہ کہیں سے امید نہیں ہے۔ میں ہر وقت کڑھتی رہتی ہوں اور اپنی تقدیر پر آنسو بہاتی رہتی ہوں۔ کوئی وظیفہ نہیں چھوڑا۔
ایک صاحب نے میری طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا اور انہوں نے بھی کہلا دیا کہ والدین میری شادی کہیں اور کرنا چاہتے ہیں۔ اس طرح وہاں سے بھی میں مایوس ہو گئی کہ پتہ نہیں خدا کو کیا منظور ہے۔ آپ یقین کریں دعا مانگتے وقت آنسو بہتے رہتے ہیں۔ پتہ نہیں اللہ تعالیٰ میری دعا کیوں نہیں قبول کرتا۔ میری دعا اوپر تک کیوں جاتی؟ آپ ہی بتائیں۔ میں اتنی پریشان ہوں اب مجھے ڈر ہے کہ کہیں میں پاگل نہ ہو جاؤں کیونکہ میرا ذہن اب جواب دے چکا ہے۔
میں آپ کو خدا کا واسطہ دے کر کہتی ہوں کہ میرا خط ضرور شائع کریں اور مجھے وظیفہ بتائیں جس کے کرنے سے میرا مسئلہ حل ہو جائے۔ میں نے اپنے بارے میں کسی سے پوچھا تھا۔ انہوں نے کہا کہ تمہاری شادی میں بہت رکاوٹ ہے۔ اگر اس دوران شادی ہو بھی گئی۔ تو وہ ناکام ہو گئی اس بات سے میں اور ڈر گئی اور اب میں بہت زیادہ پریشان رہنے لگی ہوں۔ اپنی بیٹی سمجھ کر مجھے کچھ پڑھنے کے لئے دیں تا کہ میری پریشانی دور ہو۔
جواب: میرا مشاہدہ ہے کہ اکثر لوگوں کے عبادات و ریاضات کا یہ عالم ہے کہ نماز باجماعت اس طرح پڑھتے ہیں کہ کبھی تکبیر اولیٰ قضا نہیں کی۔ اشراق، چاشت، تہجد کی نفلوں میں کئی کئی پاروں کی تلاوت، اوابین کی نفل کی ادائیگی، ذکر و اذکار اس کے علاوہ وظائف کی ایک لمبی فہرست، حسب توفیق حج و زیارت کی سعادت حاصل کرنا، اعمال حسنہ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا۔ الغرض جو کچھ بھی ان سے ممکن ہوتا ہے وہ کر گزرنے سے نہیں چوکتے لیکن دل کی دنیا کا یہ حال ہے کہ شک اور بے یقینی کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر موجزن ہے۔ ان کی گفتگو سوائے پریشانی اور مایوسی کے لاحاصل۔
یاد رکھئے۔۔۔۔۔۔زیادہ وظائف پڑھنے سے فائدہ کے بجائے الٹا نقصان ہوتا ہے مسائل حل ہونے کی بجائے اور پیدا ہونے لگتے ہیں۔ مشکلیں آسان ہونے کی بجائے اور پیدا ہونے لگتی ہیں۔ آسانیاں مشکلات کا روپ دھار لیتی ہیں۔ ذہنی پیچیدگیاں، انتشار، کشمکش اور خیالات کی یلغار سب مل کر بیک وقت انسان پر اس طرح حملہ آور ہوتی ہیں کہ وہ شک و شبہات میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ سب کو اپنے حفظ و امان میں رکھے۔ ایسے لوگ اللہ تعالیٰ (جو اپنے بندوں سے ستر ماؤں سے بھی زیادہ محبت فرماتے ہیں ایک ماں کا حال یہ ہے کہ بچے کی ذرا سی تکلیف دیکھی نہیں جاتی) کی رحمت سے مایوس ہو کر بالآخر مر جاتے ہیں۔ اللہ کی رحمت سے مایوس ہو کر بندہ دین اور دنیا دونوں کی طرف خسارے میں رہتا ہے۔
ہمارے پیارے حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے ہمیں زندگی گزارنے کا ایک پروگرام دیا ہے اس میں اعتدال ہے اور اگر اعتدال نہ ہو تو زندگی درہم برہم ہو جاتی ہے۔ اس پروگرام کی عملی مثال خود حضور اکرمﷺ کی سیرت طیبہ اور صحابہ اکرامؓ اور اللہ کے مقرب بندوں اولیاء کی زندگیاں ہیں۔ قرآن پاک کے قانون کے مطابق اللہ تعالیٰ سے قربت کی نشانی یہ ہے کہ بندہ خوف اورغم کی زندگی سے دور ہو جاتا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
ترجمہ:’’تحقیق اللہ کے دوستوں کو خوف ہوا ہے اور نہ وہ غمزدہ زندگی سے آشنا ہوتے ہیں۔‘‘ (قرآن)
اپنے والد سے کہئے کہ وہ بیک وقت سب کچھ پڑھنا چھوڑ دیں، صرف پانچ وقت نماز ادا کریں۔ آپ کے مسئلہ کا بظاہر اس کے علاوہ کوئی اور حل نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کا حامی و ناصر ہو۔ آمین
خواجہ شمس الدین عظیمی
جناب خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب نے کالم نویسی کاآغاز1969میں روزنامہ حریت سے کیا ۔پہلے طبیعیات کے اوپر مضامین شائع ہوتے رہے پھر نفسیات اور مابعد نفسیات کے مضمون زیر بحث آ گئے۔ روزنامہ حریت کے قارئین نے سائیکالوجی اور پیراسائیکالوجی کے ان مضامین کو نہ صرف پسند کیا بلکہ اپنے مسائل کے حل کے لئے خطوط لکھنے شروع کر دیئے۔ زیادہ تر خطوط خواب سے متعلق ہوتے تھے۔ شروع کے دنوں میں ہفتہ میں تین یا چار خط موصول ہوتے تھے اور پھر یہ سلسلہ ہر ہفتہ سینکڑوں خطوط پر پھیل گیا۔ حریت کے بعد روزنامہ جسارت، روزنامہ اعلان، روزنامہ مشرق اور پھر روزنامہ جنگ میں روحانی ڈاک کے عنوان پر یہ کالم اتنا زیادہ مقبول ہوا کہ خطوط کی تعداد ہزاروں تک پہنچ گئی۔ جب اخبار کا دامن اتنی بڑی ڈاک کا متحمل نہ ہو سکا تو پیارے اور محترم دوستوں کے مشوروں اور تعاون سے روحانی ڈائجسٹ کا اجراء ہوا اور آج بھی روحانی ڈاک کے عنوان سے یہ کالم روحانی ڈائجسٹ میں شائع ہو رہا ہے۔
آپ نے ان اخبارات وجرائد میں عوام کے ان گنت معاشی، معاشرتی، نفسیاتی مسائل اورالجھنوں کا حل پیش کیا ہے اورمظاہرقدرت کے پیچیدہ معموں سے متعلق سوالات کے جوابات دئیے ہیں۔خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کے لائق شاگرد جناب میاں مشتاق احمد عظیمی نے روحانی ڈاک میں شائع شدہ ان خطوط کو یکجا کیا اورترتیب وتدوین کے مراحل سے گزارکر چارجلدوں پر مشتمل کتاب روحانی ڈاک کو عوام الناس کی خدمت کے لئے شائع کردیا۔