Topics
سوال: حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد عالی مقام ہے کہ قلم لکھ کر خشک ہو گیا۔ اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ جو کچھ ہونا تھا یا جو کچھ ہو رہا ہے۔ وہ پہلے سے لکھ دیا گیا ہے۔ جب ہم مجبوری کی حالت میں زندگی گزار رہے ہیں تو ہمارا اختیار کیوں زیر بحث آتا ہے؟
جواب: قلم لکھ کر خشک ہو گیا معانی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے ذہن میں ازل سے پہلے جو کچھ موجود تھا اللہ تعالیٰ نے کن کہہ کر اس کا مظاہرہ فرمایا۔ اس بات کو ہم موجودہ دور میں اس طرح بیان کر سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے ذہن میں جو کچھ ان کے ذہن میں تھا اس کی ایک فلم بن گئی اور یہ فلم مسلسل، متواتر اور بغیر کسی وقفے کے چل رہی ہے۔ دوسرے الفاظ میں ایک ہی فلم بار بار Displayہو رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر نوع اپنے خدوخال، مزاج و جذبات و احساسات کے اعتبار سے ایک ہی دائرے میں سفر کر رہی ہے۔ مثلاً گائے کی شکل و صورت مقرر ہے۔ آج سے کئی ہزار سال پہلے گائے کی جو شکل و صورت اور حیات تھیں وہی آج بھی ہیں۔ نوع انسانی کی جو شکل و صورت آج سے ہزاروں سال پہلے تھی وہی آج بھی ہے۔ اب سے سینکڑوں اور ہزاروں سال پہلے زندگی گزارنے کے جو تقاضے موجود تھے وہی آج بھی ہیں۔ مثلاً ہزاروں سال پہلے آدمی کو بھوک لگتی تھی، پیاس محسوس ہوتی تھی۔
اولاد کا تقاضہ اس کے اندر پیدا ہوتا تھا تو آج بھی یہ سب تقاضے اسی طرح موجود ہیں۔ سب کچھ عملاً وہی ہو رہا ہے جو ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے۔ فرق اگر ہے تو صرف اتنا ہے کہ جذبات میں کبھی تیزی آ جاتی ہے اور کبھی سست روی پیدا ہو جاتی ہے۔ اب ہم اسی بات کو اس طرح کہیں گے کہ ’’ماضی دہرایا جا رہا ہے‘‘ تہذیبی اور تمدنی نقطہ نظر سے بھی اگر غور کیا جائے تو یہی بات سامنے آتی ہے کہ ماضی دہرایا جاتا ہے۔ دس ہزار سال پہلے پتھر کا زمانہ تھا۔ پتھر کے زمانے سے ترقی کر کے انسان آج ایٹمی دور میں داخل ہو گیا ہے۔ لیکن پھر دس ہزار سال بعد وہ پتھر کے دور میں دخل ہو جائے گا۔ یعنی ایک زنجیر ہے جہاں جس میں آدمی حواس کے اعتبار سے بچپن میں ہوتا ہے اور پھر اس کا شعور ترقی کر کے بالغ ہو جاتا ہے۔ جب تصوربلوغت کے دور میں پہنچتا ہے تو آدمی اس کے اوپر اپنی عقل سے موت وارد کر دیتا ہے اور Chainپھر الٹ جاتی ہے۔
اس مختصر تمہید سے بتانا یہ مقصود ہے کہ ساری کائنات ہر لمحہ ہر آن پیدا ہو رہی ہے اور ہر لمحہ موت سے گزر رہا ہے۔ جب پہلے لمحے پر موت وارد ہوتی ہے تو دوسرا لمحہ پیدا ہوجاتا ہے۔ پیدا ہونے سے مراد یہ ہے کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ کے ذہن میں موجود ہے وہ اللہ تعالیٰ کی طرف پلٹ رہا ہے۔ اسی بات کو قرآن پاک میں اس طرح ارشاد فرمایاگیا ہے کہ ہر چیز اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور اللہ کی طرف لوٹ جائے گی۔ اس بات سے یہ مطلب نہیں نکلتا کہ آدمی کو اختیار حاصل نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسانی زندگی کا جو پروگرام بنایا ہے اور جو بار بار اپنا مظاہرہ کر رہا ہے اس کا ایک جزو وہ حدود(اختیار) بھی ہیں جو اس نے انسان کو عطا کی ہیں۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
جناب خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب نے کالم نویسی کاآغاز1969میں روزنامہ حریت سے کیا ۔پہلے طبیعیات کے اوپر مضامین شائع ہوتے رہے پھر نفسیات اور مابعد نفسیات کے مضمون زیر بحث آ گئے۔ روزنامہ حریت کے قارئین نے سائیکالوجی اور پیراسائیکالوجی کے ان مضامین کو نہ صرف پسند کیا بلکہ اپنے مسائل کے حل کے لئے خطوط لکھنے شروع کر دیئے۔ زیادہ تر خطوط خواب سے متعلق ہوتے تھے۔ شروع کے دنوں میں ہفتہ میں تین یا چار خط موصول ہوتے تھے اور پھر یہ سلسلہ ہر ہفتہ سینکڑوں خطوط پر پھیل گیا۔ حریت کے بعد روزنامہ جسارت، روزنامہ اعلان، روزنامہ مشرق اور پھر روزنامہ جنگ میں روحانی ڈاک کے عنوان پر یہ کالم اتنا زیادہ مقبول ہوا کہ خطوط کی تعداد ہزاروں تک پہنچ گئی۔ جب اخبار کا دامن اتنی بڑی ڈاک کا متحمل نہ ہو سکا تو پیارے اور محترم دوستوں کے مشوروں اور تعاون سے روحانی ڈائجسٹ کا اجراء ہوا اور آج بھی روحانی ڈاک کے عنوان سے یہ کالم روحانی ڈائجسٹ میں شائع ہو رہا ہے۔
آپ نے ان اخبارات وجرائد میں عوام کے ان گنت معاشی، معاشرتی، نفسیاتی مسائل اورالجھنوں کا حل پیش کیا ہے اورمظاہرقدرت کے پیچیدہ معموں سے متعلق سوالات کے جوابات دئیے ہیں۔خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کے لائق شاگرد جناب میاں مشتاق احمد عظیمی نے روحانی ڈاک میں شائع شدہ ان خطوط کو یکجا کیا اورترتیب وتدوین کے مراحل سے گزارکر چارجلدوں پر مشتمل کتاب روحانی ڈاک کو عوام الناس کی خدمت کے لئے شائع کردیا۔