Topics
سوال: قرآن میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے کہا کہ میں آدم کو اپنا نائب بنانے والا ہوں تو فرشتوں نے کہا کہ وہ جو زمین پر فساد اور خون خرابہ کرے گا جب کہ ہم تیری تسبیح اور حمد کے لئے کافی ہیں تو اللہ نے فرمایا کہ جو میں جانتا ہوں وہ تم نہیں جانتے اور آدم کو علم الاسماء سکھا دیئے اور پھر فرشتوں کو آدم علیہ السلام کے سامنے سجدہ کرنے کا حکم دیا۔ عرض ہے کہ یہ علم الاسماء کیا ہوتے ہیں جن کی بنا پر آدم علیہ السلام کی حیثیت فرشتوں سے بھی بڑھ گئی۔
جواب: جب ہم زندگی کا تجزیہ کرتے ہیں تو ایک ہی بات سامنے آتی ہے کہ انسان کے اندر کوئی کمپیوٹر نصب ہے جو انسان کو زندگی کی اطلاعات فراہم کر رہا ہے کبھی وہ ایسی اطلاع دیتا ہے کہ آدمی رنجیدہ ہو جاتا ہے اور کبھی ایسی اطلاع دیتا ہے کہ وہ خوش ہو جاتا ہے اور کبھی ایسی اطلاع دیتا ہے اور انسان اس اطلاع پر عمل کرتا ہے اور کھانا کھاتا ہے کبھی پانی کی اطلاع دیتا ہے اور انسان پانی پی کر پیاس بجھاتا ہے۔ کبھی کمپیوٹر سے اطلاع دیتا ہے کہ اب اعصاب میں مزید عمل کرنے کی صلاحیت موجود نہیں سو جاؤ۔ پھر یہ اطلاع ملتی ہے کہ اب مزید چارپائی پر لیٹے رہنے اور شعوری حواس میں داخل نہ ہونے سے اعصاب مضمحل ہو جائیں گے اور آدمی اس اطلاع کو قبول کر کے بیدار ہو جاتا ہے۔ غرضیکہ جب تک دماغ کے اندر نصب شدہ کمپیوٹر کوئی اطلاع نہیں دیتا آدمی یا کوئی بھی ذی روح کوئی کام نہیں کر سکتا۔ ذی روح میں انسان بھیڑ، بکری، چرند، پرند، درند، نباتات، جمادات سب شامل ہیں۔ سب کے اندر یہ اطلاع دینے والی مشین نصب ہے یہ مشین وہی اطلاع فراہم کرتی ہے جس کی ضرورت ہوتی ہے۔
یہ کمپیوٹر آدمی کی روح ہے۔ موجودات میں جتنی ذی روح اور غیر ذی روح ہیں ان سب میں ایک ہی طرح کا کمپیوٹر نصب ہے یعنی ان کی زندگی کے لئے اطلاعات کا منبع ایک ہی ہے۔ کوئی مخلوق اس کمپیوٹر کے علم سے واقف نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے صرف انسان کو اس کمپیوٹر یعنی روح کا علم سکھایا ہے۔ یہی وہ علم ہے جس کو آدم اور فرشتوں کے قصے میں بیان کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’’میں زمین میں اپنا نائب بنانے والا ہوں۔ فرشتوں نے کہا۔ یہ تو فساد برپا کرے گا اور ہم آپ کی تسبیح اور تقدیس کے لئے کافی ہیں۔اللہ نے فرمایا۔ ہم جو جانتے ہیں وہ تم نہیں جانتے۔ ‘‘ فرشتوں کو یہ بات سمجھانے کے لئے آدم علیہ السلام کو علم الاسماء سکھا دیا اور آدم علیہ السلام سے کہا۔ ’’اس علم کو ظاہر کرو۔‘‘ اور فرشتوں سے کہا۔ ’’اگر تم سمجھتے ہو تو اس علم کے بارے میں بتاؤ۔‘‘ فرشتوں نے عرض کیا۔’’ہم تو صرف وہی جانتے ہیں جو آپ نے ہمیں سکھا دیا ہے۔‘‘
آدم علیہ السلام کی اولاد آدم ہے اور آدم علیہ السلام کی اولاد بحیثیت آدم کے اس بات کا مشاہدہ کرتی ہے جن مشاہدات سے آدم علیہ السلام گزرے ہیں اگر کوئی آدم زاد اس بات کا مشاہدہ نہ کر سکے جس حالت کا مشاہدہ آدم علیہ السلام نے کیا یعنی خود کو فرشتوں کو مسجود دیکھنا اللہ اور فرشتوں کے درمیان مکالمہ ہونا، اللہ کا یہ کہنا کہ ’’ہم نے آدم کو اپنی صفات کا علم سکھا دیا۔‘‘ اور فرشتوں کا یہ کہنا کہ ’’ہم صرف اس حد تک واقف ہیں جس حد تک آپ نے علم عطا فرما دیا ہے۔‘‘ تو وہ ہرگز آدم علیہ السلام کی اولاد کہلانے کی مستحق نہیں ہے۔ اس کی حیثیت اس آدم کی نہیں جس آدم علیہ السلام کے بارے میں اللہ نے فرمایا کہ یہ میرا نائب اور خلیفہ ہے۔
اس گفتگو کا اجمال یہ ہوا کہ آدم زاد اگر ازل میں دی گئی نیابت سے واقف نہیں ہے اور ان واقعات کو اگر اس نے دنیا کی زندگی میں نہیں دیکھا تو وہ آدم علیہ السلام کی باسعادت اولاد نہیں ہے۔ محض شکل و صورت کی بنا پر اس کو آدم زاد کہہ دیا جائے تو اس کو ناخلف اولاد سے زیادہ اہمیت نہیں دی جا سکتی۔ اس لئے کہ اگر کوئی بندہ اللہ کے اسماء کا علم نہیں جانتا تو وہ اللہ کا نائب نہیں ہے۔ آدم زاد کو دوسری مخلوقات پر صرف اس لئے شرف حاصل ہے کہ وہ اسمائے الٰہیہ کا علم رکھتا ہے۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
جناب خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب نے کالم نویسی کاآغاز1969میں روزنامہ حریت سے کیا ۔پہلے طبیعیات کے اوپر مضامین شائع ہوتے رہے پھر نفسیات اور مابعد نفسیات کے مضمون زیر بحث آ گئے۔ روزنامہ حریت کے قارئین نے سائیکالوجی اور پیراسائیکالوجی کے ان مضامین کو نہ صرف پسند کیا بلکہ اپنے مسائل کے حل کے لئے خطوط لکھنے شروع کر دیئے۔ زیادہ تر خطوط خواب سے متعلق ہوتے تھے۔ شروع کے دنوں میں ہفتہ میں تین یا چار خط موصول ہوتے تھے اور پھر یہ سلسلہ ہر ہفتہ سینکڑوں خطوط پر پھیل گیا۔ حریت کے بعد روزنامہ جسارت، روزنامہ اعلان، روزنامہ مشرق اور پھر روزنامہ جنگ میں روحانی ڈاک کے عنوان پر یہ کالم اتنا زیادہ مقبول ہوا کہ خطوط کی تعداد ہزاروں تک پہنچ گئی۔ جب اخبار کا دامن اتنی بڑی ڈاک کا متحمل نہ ہو سکا تو پیارے اور محترم دوستوں کے مشوروں اور تعاون سے روحانی ڈائجسٹ کا اجراء ہوا اور آج بھی روحانی ڈاک کے عنوان سے یہ کالم روحانی ڈائجسٹ میں شائع ہو رہا ہے۔
آپ نے ان اخبارات وجرائد میں عوام کے ان گنت معاشی، معاشرتی، نفسیاتی مسائل اورالجھنوں کا حل پیش کیا ہے اورمظاہرقدرت کے پیچیدہ معموں سے متعلق سوالات کے جوابات دئیے ہیں۔خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کے لائق شاگرد جناب میاں مشتاق احمد عظیمی نے روحانی ڈاک میں شائع شدہ ان خطوط کو یکجا کیا اورترتیب وتدوین کے مراحل سے گزارکر چارجلدوں پر مشتمل کتاب روحانی ڈاک کو عوام الناس کی خدمت کے لئے شائع کردیا۔