Topics
سوال: میں ماں باپ کی ایک بیٹی تھی۔ دو بھائی ہیں۔ باپ کی عمر 40سال تھی اور امی ابا کی تیسری بیوی تھیں۔ شادی کے چار سال بعد ہی بڑی دعاؤں کے بعد میں پیدا ہوئی۔ ذرا بیمار ہوتی امی بوکھلا کر الٹی سیدھی دوائیں دے دیتیں عموماً مجھے ملیریا ، ٹائیفائیڈ ہوتا رہا۔ جب تیرہ سال کی ہوئی تو ٹی بی ہو گئی۔ کم عمر میں زبردستی شادی کر دی گئی۔ میرے خاوند میں خاندانی نقص ہے۔ سب اولاد مریض پیدا ہوئی۔ بڑے لڑکے کی آنکھوں میں نور بہت کم نہ ہونے کے برابر ہے۔ بس چلتا پھرتا ہے۔ دوسرے کے دل میں نقص ہے۔ تیسرے کے بچپن میں پیٹ میں کیڑے تھے۔ کیڑے مار دوائیں دے دے کر اس کی صحت آج تک ٹھیک نہیں ہوئی۔ چوتھی بیٹی ہسٹیریا کے مریض کی طرح ذرا سی تکلیف پر بے ہوش ہو جاتی ہے۔ 9سال کی عمر تک بستر پر پیشاب کرتی تھی۔ آخری بچی کے گلے ہر وقت خراب رہتے ہیں۔ دانتوں میں درد رہتا ہے۔ ڈاکٹر کہتے ہیں کہ سب داڑھیں خراب ہیں نکلوانی پڑیں گی۔ جبکہ اس کی عمر ابھی ساڑھے چار سال ہے۔ میں ہر وقت اخباریں بڑی بڑی مذہبی کتابیں، بہشتی زیور وغیرہ پڑھتی رہتی ہوں کہ گناہ صاف ہو جائیں۔ میرے پیر کامل ہیں۔ باریش بزرگ ہیں۔
نامی گرامی خاندان کے بڑے بڑے شرفاء نے مجھے حاصل کرنے کے لئے بازی لگائی ہوئی تھی۔ کیونکہ قدرت نے مجھے فیاضی کے ساتھ حسن عطا کیا تھا۔ مگر میرے سرپرستوں نے مجھے 14سال کی عمر میں ایک ایسے شخص کے ساتھ باندھ دیا جس کی طبیعت میں عیاری، مکاری اور ہلکا پن تھا۔ میں والدین کی عزت کی خاطر نباہ کرتی رہی اور یہ سوچتی رہی کہ کبھی تو میرے دن پھریں گے۔ مگر اب جب بڑھاپے کی دہلیز پر قدم رکھ چکی ہوں۔ بچوں کے چہرے باریش ہو گئے ہیں۔ خاوند کہتے ہیں کہ میں نے تیری زندگی برباد کر دی ہے۔ اب وہ دوسری شادی کے چکر میں ہیں۔ آپ ہی بتائیں کہ میں جاؤں تو کہاں جاؤں؟
جواب: تکیہ کا غلاف مخمل (VELVET) کے کپڑے کا سلوائیں یا خود ہی سی لیں۔ مخمل کا رنگ گہرا گلابی ہونا چاہئے۔ سوتے وقت یہی تکیہ سر کے نیچے رکھا کریں۔ حالات خراب ہونے کی ذمہ داری آپ کے شوہر پر نہیں ڈالی جا سکتی۔ آپ بھی برابر کی شریک ہیں۔ آپ نے خاوند کو مجبوری کے تحت قبول کیا ہے۔ خاوند کو وہ پیار نہیں ملا جس کا وہ حق دار تھا۔ بچوں کی بیماریوں کی وجہ یہ ہے کہ بچوں کو خاندانی بیماریوں کا ورثہ منتقل ہوا ہے۔ خاندان کے افراد میں ایسی طرز فکر عروج پر ہے کہ جو فطرت سے ہم آہنگ نہیں ہے۔ بے جا ضد، کبر و نخوت دوسروں کو کم تر سمجھنا خاندانی معمول نظر آتا ہے۔ آپ پہلے اپنی طرز فکر میں تبدیلی لائیں پھر تجویز کردہ علاج کریں۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت کے دروازے مخلوق کے لئے کھلے ہوئے ہیں۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
جناب خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب نے کالم نویسی کاآغاز1969میں روزنامہ حریت سے کیا ۔پہلے طبیعیات کے اوپر مضامین شائع ہوتے رہے پھر نفسیات اور مابعد نفسیات کے مضمون زیر بحث آ گئے۔ روزنامہ حریت کے قارئین نے سائیکالوجی اور پیراسائیکالوجی کے ان مضامین کو نہ صرف پسند کیا بلکہ اپنے مسائل کے حل کے لئے خطوط لکھنے شروع کر دیئے۔ زیادہ تر خطوط خواب سے متعلق ہوتے تھے۔ شروع کے دنوں میں ہفتہ میں تین یا چار خط موصول ہوتے تھے اور پھر یہ سلسلہ ہر ہفتہ سینکڑوں خطوط پر پھیل گیا۔ حریت کے بعد روزنامہ جسارت، روزنامہ اعلان، روزنامہ مشرق اور پھر روزنامہ جنگ میں روحانی ڈاک کے عنوان پر یہ کالم اتنا زیادہ مقبول ہوا کہ خطوط کی تعداد ہزاروں تک پہنچ گئی۔ جب اخبار کا دامن اتنی بڑی ڈاک کا متحمل نہ ہو سکا تو پیارے اور محترم دوستوں کے مشوروں اور تعاون سے روحانی ڈائجسٹ کا اجراء ہوا اور آج بھی روحانی ڈاک کے عنوان سے یہ کالم روحانی ڈائجسٹ میں شائع ہو رہا ہے۔
آپ نے ان اخبارات وجرائد میں عوام کے ان گنت معاشی، معاشرتی، نفسیاتی مسائل اورالجھنوں کا حل پیش کیا ہے اورمظاہرقدرت کے پیچیدہ معموں سے متعلق سوالات کے جوابات دئیے ہیں۔خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کے لائق شاگرد جناب میاں مشتاق احمد عظیمی نے روحانی ڈاک میں شائع شدہ ان خطوط کو یکجا کیا اورترتیب وتدوین کے مراحل سے گزارکر چارجلدوں پر مشتمل کتاب روحانی ڈاک کو عوام الناس کی خدمت کے لئے شائع کردیا۔