Topics
سوال: میری کیفیت یہ ہے کہ مجھے اپنی موجودگی کا احساس نہیں ہوتا۔ یوں لگتا ہے کہ میں ہوں ہی نہیں۔ میں جسمانی طور پر لوگوں میں موجود ضرور ہوں لیکن درحقیقت میں گم ہو چکی ہوں۔ آئینے میں اپنی صورت اجنبی لگتی ہے۔ یہ کیفیت 83ء میں ہوئی۔ میرے ساتھ میرا بھائی بھی ایف اے کا امتحان دے رہا تھا۔ مجھ میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ میرے نمبر اس سے زیادہ آئیں۔
لاشعوری طور پر میرے اندر یہ خواہش اپنی انتہا کو پہنچ گئی ہے کہ میرے نمبر زیادہ آئیں۔ اس خواہش کی شدت اتنی زیادہ ہو گئی کہ میری ذہنی حالت ابنارمل ABNORMALہو گئی۔ میں اس خواہش سے بچنا چاہتی تھی اور پڑھائی کی طرف توجہ رکھنے کی کوشش کرتی تھی لیکن بے سود۔ اس کے ساتھ ہی احساس جرم و گناہ نے میرے دل کو بری طرح گھیر لیا۔
ہوا یوں کہ میرا جو پرچہ اچھا نہ ہوتا تھا مجھے اس پر بے تحاشہ رونا آتا۔ میرے ذہن پر بوجھ سا رہنے لگا۔ اندر کی گھٹن دور کرنے کیلئے رونا ضروری تھا۔ میری حالت عجیب ہو گئی میں اگر دوستوں کے ساتھ کیفے ٹیریا جاتی تو جرم کا سا احساس ہوتا کہ میں نے فضول پیسے خرچ کر دیئے ہیں۔ اب خدا ناراض ہو جائے گا۔ اس کے بعد میں نے کتاب موت کا منظر پڑھی تو سخت خوفزدہ ہو گئی۔ موت اور قبر کا خوف میرے ذہن پر بری طرح سے مسلط ہو گیا اور اپنے گناہوں کا احساس شدت سے رہنے لگا۔ ذہن ماؤف سا رہنے لگا۔ مجھے موت سے بے حد ڈر لگنے لگا۔ میں لوگوں کو بتانا چاہتی تھی کہ مجھے ڈر لگتا ہے لیکن یہ ممکن نہیں ہوا۔ اکثر جب میری کوئی نماز قضا ہو جاتی ہے تو میری پریشانی اور احساس گناہ میں کئی گنا اضافہ ہو جاتا ہے۔ الغرض میں کئی سالوں سے گناہوں کے دو پاٹ میں پس گئی ہوں۔
خواجہ صاحب! آپ مجھے کوئی نجات کا راستہ بتایئے تا کہ میں ان خوف کی بھول بھلیوں سے آزاد ہو کر سکون سے آشنا ہو جاؤں۔
جواب: عقیدہ جب خراب ہو جائے تو انسان کے دماغ میں ایسے وسوسے اور خیالات آنے لگتے ہیں۔ جن میں خدا، رسول اور مذہب سے بیزاری پائی جاتی ہے۔ اور یہ بے زاری غیر اختیاری ہوتی ہے۔ عقیدہ کی خرابی اور ضمیر کی ملامت سے نظر نہ آنے والا ایک متعفن پھوڑا اس کے باطن میں پیدا ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے وہ بے چین رہتا ہے کہ اس کی مثال بڑی سے بڑی بیماری میں بھی نہیں ملتی۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو حفظ و امان میں رکھے۔ اس تکلیف دہ کیفیت سے نجات پانے کے لئے کورے یا دھلے ہوئے کھدر یا لٹھے کا ایک کرتا سلوایا جائے۔ یہ کرتا سارے جسم پر ایک ایک بالشت زائد ہو اور ٹخنوں تک نیچا ہو۔ آستین بھی ایک ایک بالشت کھلی ہوئی ہوں۔ کسی ایسے کمرے میں جس میں اندھیرا ہو(نہ ہو تو کر لیا جائے) یہ کرتا پہن کر پندرہ منٹ تک ٹہلئے اور ٹہلتے وقت:
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَoاَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِoمَالِکِ یَوْمِ الدِّیْنَo
پڑھتے رہئے۔ پندرہ منٹ کے بعد اندھیرے ہی میں کرتا اتار کر تہہ کر کے اسی کمرے میں کسی محفوظ جگہ رکھ دیں۔ مکمل صحت ہونے تک یہ عمل کیا جائے۔ اندھیرا شرط ہے۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
جناب خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب نے کالم نویسی کاآغاز1969میں روزنامہ حریت سے کیا ۔پہلے طبیعیات کے اوپر مضامین شائع ہوتے رہے پھر نفسیات اور مابعد نفسیات کے مضمون زیر بحث آ گئے۔ روزنامہ حریت کے قارئین نے سائیکالوجی اور پیراسائیکالوجی کے ان مضامین کو نہ صرف پسند کیا بلکہ اپنے مسائل کے حل کے لئے خطوط لکھنے شروع کر دیئے۔ زیادہ تر خطوط خواب سے متعلق ہوتے تھے۔ شروع کے دنوں میں ہفتہ میں تین یا چار خط موصول ہوتے تھے اور پھر یہ سلسلہ ہر ہفتہ سینکڑوں خطوط پر پھیل گیا۔ حریت کے بعد روزنامہ جسارت، روزنامہ اعلان، روزنامہ مشرق اور پھر روزنامہ جنگ میں روحانی ڈاک کے عنوان پر یہ کالم اتنا زیادہ مقبول ہوا کہ خطوط کی تعداد ہزاروں تک پہنچ گئی۔ جب اخبار کا دامن اتنی بڑی ڈاک کا متحمل نہ ہو سکا تو پیارے اور محترم دوستوں کے مشوروں اور تعاون سے روحانی ڈائجسٹ کا اجراء ہوا اور آج بھی روحانی ڈاک کے عنوان سے یہ کالم روحانی ڈائجسٹ میں شائع ہو رہا ہے۔
آپ نے ان اخبارات وجرائد میں عوام کے ان گنت معاشی، معاشرتی، نفسیاتی مسائل اورالجھنوں کا حل پیش کیا ہے اورمظاہرقدرت کے پیچیدہ معموں سے متعلق سوالات کے جوابات دئیے ہیں۔خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کے لائق شاگرد جناب میاں مشتاق احمد عظیمی نے روحانی ڈاک میں شائع شدہ ان خطوط کو یکجا کیا اورترتیب وتدوین کے مراحل سے گزارکر چارجلدوں پر مشتمل کتاب روحانی ڈاک کو عوام الناس کی خدمت کے لئے شائع کردیا۔