Spiritual Healing
سوال: آپ لوگوں کے بے شمار مسائل روحانی طریقے سے حل کرتے رہتے ہیں۔ آپ نے لاکھوں لوگوں کو اپنے مشورے سے نوازا ہے اور ہزاروں لوگ آپ کے مشورے سے فائدہ اٹھا چکے ہیں۔
(1 حضور پاکﷺ نے فرمایا ہے کہ ماں کے پیروں تلے جنت ہے۔ اب پتہ نہیں کہ ایک مسلم ماں کے پاؤں تلے جنت ہے یا ہر ماں کے پیروں کے نیچے جنت ہے۔
(2 دوسرا اگر وظائف کا کثرت سے ورد کیا جائے تو فائدے کے بجائے لوگوں کو نقصان ہوتا ہے ایسا کیوں ہے؟
یہ دو ایسے مسئلے ہیں جن کی وجہ سے میں ہمیشہ نفسیاتی طور پر الجھا رہتا ہوں۔ آج تک ان باتوں کا کوئی ٹھوس اور تفصیلی جواب نہیں ملا کہ آپ نے جواب نہیں دیا تو میں سمجھوں گا کہ ان باتوں کا جواب کسی کے پاس نہیں ہے۔
جواب: اللہ تعالیٰ آپ کے علم میں وسعت اور حالات میں برکت عطا فرمائیں۔ آپ کے جواب میں عرض ہے کہ میں مولوی، مفتی یا عالم دین نہیں ہوں اور نہ ہی میرے سر پر فضیلت علم کی دستار ہے۔ سیدنا حضورﷺ کے دربار عالی مقام سے علم نبوت کے چند قطرے ضرور میرا مقدر بنے ہیں۔ اور یہ رسول اللہﷺ کی رحمت اور رب العزت کا کرم ہے کہ جس کا یہ فقیر جتنا شکر بجا لائے کم ہے۔ آپ نے جو سوالات اٹھائے ہیں ان کا جواب یہ ہے:
بے شک جو لوگ مسلمان ہوئے اور جو لوگ یہودی ہوئے اور نصرانی اور صائبین۔ جو ایمان لایا اللہ پر اور روز قیامت پر اور کام کئے نیک تو ان پر ان کے لئے اجر ہے۔ ان کے رب کے پاس اور نہیں ان پر کچھ خوف اور نہ وہ غمگین ہوں گے (سورہ بقرہ آیت 61)۔ اس آیت سے یہ بات پوری طرح واضح ہو جاتی ہے کہ اللہ کسی کے نیک کام کو ضائع نہیں کرتے ہر نیک کام کا اجر ضرور ملتا ہے۔ سیدنا حضور کا یہ ارشاد گرامی کہ ’’ماں کے پاؤں تلے جنت ہے۔‘‘ میں بڑی حکمت ہے۔ دنیا میں ماں وہ واحد ذات ہے جو اپنی اولاد کو اس طرح چاہتی ہے جس طرح اللہ اپنی مخلوق سے ستر ماؤں سے زیادہ محبت کرتا ہے۔ ماں بلاشک و شبہ ایسی ہستی ہے جس کے اوپر تخلیقی زمہ داریاں ہیں اور وہ اللہ کی طرف سے سپرد کی گئی ان ذمہ داریوں کو پورا کرتی ہے۔ اولاد جب ماں کی خدمت کرتی ہے، دراصل وہ اظہار تشکر ہے۔ اللہ تعالیٰ شکر کو پسند کرتے ہیں اور شکر گزار بندے سے خوش ہوتے ہیں۔ قرآن پاک میں اللہ کا ارشاد ہے۔’’اے آل داؤد شکر کو اپنا شعار بناؤ کہ شکر کرنے والے بندے بہت کم ہیں۔‘‘ جو بندہ اللہ کے لئے پسندیدہ ہے۔ وہی جنت کا حق دار ہے۔ ماں کی خدمت اظہار تشکر ہے اور شکر کرنا اللہ کو پسند ہے اور اللہ کے پسندیدہ شخص کے لئے ہی جنت ہے۔
2) اگر قرآن کو پہاڑ پر نازل کر دیتے تو پہاڑ ریزہ ریزہ ہو جاتا۔ اللہ کے اس فرمان سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ قرآن پاک کے الفاظ ایک نوری تحریر ہے۔ نور میں ایک طاقت ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔ایٹم روشنی کی انتہائی لطیف مقدار کا نام ہے۔ جب ایٹم کے ایک ذرہ سے لاکھوں جانیں تلف ہو سکتی ہیں تو وظائف سے جو روشنیوں سے مرکب ہیں۔ انسانی دماغ پر اثرات مرتب ہونا بھی ضروری ہے اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ قرآن پاک کی آیتیں تلاوت نہ کی جائیں۔ قرآن پاک کے ایک ایک لفظ میں حکمت کے سمندر چھپے ہوئے ہیں۔ قرآن میں تفکر کیا جائے ،سمجھ کر ان روشنیوں اور انوار سے فائدہ اٹھایا جائے۔ جن کے خول میں لفظ بند ہیں۔ یہ بات بھی بہت زیادہ غور طلب ہے کہ ہر آدمی کی صلاحیت یکساں نہیں ہوتی۔
ذہنی صلاحیت کے مطابق کوئی وظیفہ پڑھا جائے تو اس کے اثرات مثبت مرتب ہوتے ہیں۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
جناب خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب نے کالم نویسی کاآغاز1969میں روزنامہ حریت سے کیا ۔پہلے طبیعیات کے اوپر مضامین شائع ہوتے رہے پھر نفسیات اور مابعد نفسیات کے مضمون زیر بحث آ گئے۔ روزنامہ حریت کے قارئین نے سائیکالوجی اور پیراسائیکالوجی کے ان مضامین کو نہ صرف پسند کیا بلکہ اپنے مسائل کے حل کے لئے خطوط لکھنے شروع کر دیئے۔ زیادہ تر خطوط خواب سے متعلق ہوتے تھے۔ شروع کے دنوں میں ہفتہ میں تین یا چار خط موصول ہوتے تھے اور پھر یہ سلسلہ ہر ہفتہ سینکڑوں خطوط پر پھیل گیا۔ حریت کے بعد روزنامہ جسارت، روزنامہ اعلان، روزنامہ مشرق اور پھر روزنامہ جنگ میں روحانی ڈاک کے عنوان پر یہ کالم اتنا زیادہ مقبول ہوا کہ خطوط کی تعداد ہزاروں تک پہنچ گئی۔ جب اخبار کا دامن اتنی بڑی ڈاک کا متحمل نہ ہو سکا تو پیارے اور محترم دوستوں کے مشوروں اور تعاون سے روحانی ڈائجسٹ کا اجراء ہوا اور آج بھی روحانی ڈاک کے عنوان سے یہ کالم روحانی ڈائجسٹ میں شائع ہو رہا ہے۔
آپ نے ان اخبارات وجرائد میں عوام کے ان گنت معاشی، معاشرتی، نفسیاتی مسائل اورالجھنوں کا حل پیش کیا ہے اورمظاہرقدرت کے پیچیدہ معموں سے متعلق سوالات کے جوابات دئیے ہیں۔خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کے لائق شاگرد جناب میاں مشتاق احمد عظیمی نے روحانی ڈاک میں شائع شدہ ان خطوط کو یکجا کیا اورترتیب وتدوین کے مراحل سے گزارکر چارجلدوں پر مشتمل کتاب روحانی ڈاک کو عوام الناس کی خدمت کے لئے شائع کردیا۔