Topics
* رسالت مآب صلی اللہ
علیہ و سلم نے اپنا خواب بیان کیا:
’’میں کالی بکریوں کے
پیچھے جا رہا ہوں، پھر سفید بکریوں کے پیچھے چلنے لگا۔ اور کالی بکریاں اوجھل ہو
گئیں۔‘‘
یہ خواب سن کر صدیق اکبرؓ
نے فرمایا۔ ’’یا رسول اللہﷺ، کالی بکریاں عربی ہیں اور سفید بکریاں عجمی جو اپنی
کثرت تعداد کی وجہ سے عربی مسلمانوں سے بڑھ جائیں گی۔‘‘
* سیدنا علیہ الصلوٰۃ
والسلام نے خواب میں دیکھا:
’’میں ایک کنویں سے پانی
کھینچ رہا ہوں۔ اتنے میں کچھ سیاہ بکریاں میرے پاس آئیں اور ان کے بعد کچھ بکریاں
آئیں۔ ان کے سفید بالوں میں تھوڑی سی سرخی تھی۔‘‘
اس کی تعبیر بھی حضرت ابو
بکرؓ نے وہی بتائی جو اوپر مذکور ہے۔
* سیدنا علیہ الصلوٰۃ والسلام
نے اپنا خواب حضرت صدیق اکبرؓ کو سنایا کہ میں دوڑ میں تم سے ڈھائی ہاتھ آگے نکل
گیا۔ حضرت ابو بکر صدیقؓ نے تعبیر دیتے ہوئے فرمایا:’’یا رسول اللہﷺ! اللہ کریم آپ
کو اپنے رحمت و مغفرت میں بلائیں گے۔ آپﷺ کے بعد میں ڈھائی سال زندہ رہوں گا۔‘‘
* سیدنا علیہ الصلوٰۃ
والسلام نے فرمایا:
’’میں سو رہا تھا کیا
دیکھتا ہوں کہ لوگوں کو میرے سامنے لایا جا رہا ہے اور مجھ کو دکھایا جا رہا ہے۔
یہ سب لوگ کرتہ پہنے ہوئے تھے۔
جن میں بعض کے کرتے اتنے
تھے جو سینے تک پہنچتے تھے اور بعض کے اس سے نیچے۔ پھر میرے سامنے عمر بن خطاب کو
لایا گیا جو اتنا لمبار کرتا پہنے ہوئے تھے جو زمین پر گھسیٹتے ہوئے چلتے تھے۔‘‘
لوگوں نے پوچھا: ’’یا
رسول اللہﷺ! اس خواب کی تعبیر آپﷺ نے کیا قرار دی۔‘‘
آپﷺ نے
فرمایا۔۔۔۔۔۔’’دین‘‘
* سیدنا علیہ الصلوٰۃ
والسلام نے فرمایا:
’’میں سو رہا تھا کہ خواب
میں میرے پاس دودھ کا پیالہ لایا گیا۔ میں نے اس دودھ کو پی لیا۔ پھر میں نے اس
دودھ کی سیرابی کی حالت کو دیکھا کہ اس کا اثر میرے ناخنوں سے ظاہر ہو رہا تھا۔
پھر میں نے بچا ہوا دودھ عمرؓ بن خطاب کو دے دیا۔‘‘
لوگوں نے پوچھا۔ ’’اس
خواب کی تعبیر کیا ہے؟‘‘
آپ صلی اللہ علیہ و سلم
نے فرمایا۔۔۔۔۔۔’’علم‘‘
* سیدنا علیہ الصلوٰۃ
والسلام نے اپنا خواب بیان کرتے ہوئے فرمایا:
’’میں سو رہا تھا۔ میں نے
اپنے آپ کو ایک کنویں پر دیکھا، جس پر ڈول پڑا ہوا تھا۔ میں نے اس ڈول سے جس قدر
اللہ نے چاہا پانی کھینچا۔ پھر ابو بکرؓ نے ڈول لیا اور کنویں میں سے ایک یا دو
ڈول پانی کھینچا۔ ابو بکرؓ کے ڈول کھینچنے میں سستی اور کمزوری پائی جاتی تھی۔
اللہ کریم ابو بکرؓ کی
سستی اور کمزوری کو معاف فرمائے۔ پھر وہ ڈول چرس (بڑا ڈول) بن گیا اور عمرؓ بن
خطاب نے اس کو لے لیا اور میں نے کسی جوان، قوی اور مضبوط شخص کو ایسا نہ پایا جو
عمر کی طرح اس چرس کو کھینچتا ہو۔ یہاں تک کہ لوگوں نے اپنے اونٹوں کو سیراب کر
لیا اور پانی کی زیادتی کے سبب اس جگہ کو اونٹوں کے بیٹھنے کی جگہ بنالیا۔‘‘
* سیدنا علیہ الصلوٰۃ
والسلام نے فرمایا:
’’میں نے رات کو خواب میں
دیکھا کہ گویا میں اور میرے صحابہؓ عقبہ بن رافعؓ کے گھر میں بیٹھے ہیں کہ میرے
سامنے تازہ کھجوریں لائی گئیں جن کو رطب بن طاب کہتے ہیں۔‘‘
اس خواب کی تعبیر آپﷺ نے
بیان فرمائی کہ دنیا میں ہمارے لئے رفعت و عظمت ہے اور آخرت میں بھلائی اور یہ کہ
ہمارا دین اچھا ہے۔
* سیدنا علیہ الصلوٰۃ والسلام
نے فرمایا:
’’میں جوامع الکلم کے
ساتھ بھیجا گیا ہوں اوررعب کے ذریعہ میری مدد کی گئی ہے اور ایک بار میں سویا ہوا
تھا تو زمین کے خزانوں کی چابیاں مجھے دی گئیں اور میرے ہاتھ میں رکھ دی گئیں۔‘‘
* حضرت عائشہؓ صدیقہ بیان
کرتی ہیں کہ سیدنا علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:
’’میں نے شادی سے پہلے تم
کو دو بار خواب میں دیکھا۔ میں نے فرشتے کو دیکھا کہ تم کو ریشمی کپڑے میں اٹھائے
ہوئے تھا۔ میں نے اس سے کہا کہ اس کو کھول دو۔ اس نے کھولا تو تم تھیں۔ میں نے
کہا۔ اگر یہ اللہ کی جانب سے ہے تو اس کو ضرور پورا کرے گا۔‘‘
* آپ صلی اللہ علیہ و سلم
نے فرمایا:
’’میں نے ایک سیاہ عورت
دیکھی جس کے بال پریشان تھے۔ وہ مدینے سے نکلی یہاں تک کہ مہیعہ میں ٹھہری۔ میں نے
اس کی تعبیر یہ کی کہ مدینے کی وبا مہیعہ یعنی حجفہ کی طرف منتقل ہو گئی۔‘‘
* سیدنا علیہ الصلوٰۃ
والسلام نے فرمایا:
’’ایک بار میں سویا ہوا
تھا تو مجھے زمین کے خزانے دیئے گئے۔ میرے ہاتھ میں سونے کے دو کنگن رکھے گئے۔ جو
مجھے شاق گزرے اور بہت رنج ہوا۔ مجھے بذریعہ وحی کہا گیا کہ ان پر پھونک مارو۔ میں
نے پھونک مار دی تو دونوں کنگن اڑ گئے۔ میں نے اس کی تعبیر یہ لی کہ دو جھوٹے نبی
پیدا ہوں گے اور میں ان دونوں کے درمیان ہوں۔ ایک تو ضعاء میں ہو گا اور دوسرا
یمامہ میں ہو گا۔‘‘
* آپ صلی اللہ علیہ و سلم
نے ارشاد فرمایا:
’’میں نے خواب میں دیکھا
کہ میں نے تلوار ہلائی تو وہ بیچ سے ٹوٹ گئی۔ یہ وہ مصیبت ہے جو احد کے روز
مسلمانوں کو پہنچی پھر میں نے اس کو دوسری بار ہلایا تو وہ پہلے سے زیادہ اچھی ہو
گئی۔ یہ وہ چیز تھی جو اللہ نے مومنوں کے اجتماع کی صورت میں فتح عطا فرمائی۔‘‘
* ایک روز سیدنا علیہ
الصلوٰۃ والسلام نے خواب میں دیکھا کہ آپﷺ اپنے اصحابہ کرامؓ کے ہمراہ مکہ معظمہ
تشریف لے گئے اور وہاں عمرہ ادا فرمایا۔
یہ چھوٹا سا خواب ایک غیر
معمولی اور عہد آفریں واقعہ کا پیش خیمہ بن گیا۔ اس خواب کے بعد آپ صلی اللہ علیہ
و سلم نے عمرہ کی تیاریاں شروع کیں۔ اور پھر صحابہ کرامؓ کے ہمراہ مدینہ منورہ سے
بیت اللہ کی جانب روانہ ہوئے اور پھر وہ سلسلۂ واقعات پیش آیا جو ’’صلح حدیبیہ‘‘
پر منتج ہوا۔ جسے قرآن حکیم نے ’’فتح مبین‘‘ کہا ہے۔ سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ
والسلام کے اس خواب کا ذکر قرآن حکیم کی سورہ فتح میں موجود ہے۔
* جن ایام میں سیدنا علیہ
الصلوٰۃ والسلام ثقیف کا محاصرہ کئے ہوئے تھے۔ اسی دوران آپﷺ نے حضرت ابو بکر
صدیقؓ سے فرمایا:
’’میں نے خواب میں دیکھا
ہے کہ مکھن سے بھرا ہوا ایک پیالہ مجھے ہدیے میں پیش کیا گیا ہے۔ اس میں ایک مرغ
نے چونچ مار دی تو پیالے میں جو مکھن تھا وہ سارا بہہ نکلا۔‘‘
اس پر حضرت ابو بکرؓ نے
فرمایا:
’’میرا خیال ہے اس مرتبہ
جنگ میں آپﷺ ثقیف سے جو چاہتے ہیں وہ حاصل نہیں کر سکیں گے۔‘‘
سیدنا علیہ الصلوٰۃ
والسلام نے فرمایا:
’’میں بھی یہی سمجھتا
ہوں۔‘‘
* ایک روز محمد رسول اللہ
صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ آج میں نے خواب میں دیکھا کہ جبرائیل میرے سر کے
پاس ہیں اور میکائیل میرے پاؤں کے پاس ہیں۔ ان میں سے ایک اپنے ساتھی سے کہہ رہا
ہے کہ آنحضرتﷺ کے لئے کوئی مثال بیان کرو۔ تو اس نے کہا:
’’یا رسول اللہﷺ! سنئے۔
اللہ کرے آپ کے کان سنیں اور سمجھیں، اللہ کرے آپﷺ کا دل سمجھے۔ حضورﷺ کی اور آپﷺ
کی امت کی مثال ایسی ہے کہ ایک بادشاہ نے حویلی بنائی۔ پھر اس میں ایک گھر بنایا
پھر اس میں دسترخوان چنا، پھر ایک قاصد بھیجا جو لوگوں کو کھانے کے لئے پکارے۔ سو
بعض لوگ تو ایسے ہیں جنہوں نے قاصد کی دعوت قبول کی اور کھانے کے لئے آ گئے اور
بعض لوگ ایسے نکلے جنہوں نے دعوت قبول نہیں کی۔
اللہ کریم بادشاہ ہے اور
اے محمدﷺ! آپ قاصد ہیں۔
جس نے آپﷺ کی دعوت قبول
کی
وہ اسلام میں داخل ہوا
اور
ان کھانوں کو کھایا جو
جنت میں ہیں۔‘‘
* سیدنا علیہ الصلوٰۃ
والسلام اُمِ حرام بنتِ ملحان کے پاس، جو عبادہ بن صامت کے نکاح میں تھیں، تشریف
لے جایا کرتے تھے۔ ایک دن ان کے پاس تشریف لے گئے تو انہوں نے آپﷺ کو کھانا کھلایا
اور آپﷺ کے سر مبارک کو سہلانے لگیں تو سیدنا علیہ الصلوٰۃ والسلام کو نیند آ گئی۔
آپﷺ بیدار ہوئے تو ہنس رہے تھے۔ اُمِ حرام کا بیان ہے کہ میں نے کہا، ’’یا رسول
اللہﷺ! آپ کس بات پر ہنس رہے ہیں؟‘‘ آپﷺ نے فرمایا۔’’میری امت کے کچھ لوگ میرے
سامنے پیش کئے گئے جو اللہ کی راہ میں جہاد کر رہے ہیں، سمندر کے بیچوں بیچ جہازوں
پر سوار بادشاہوں کی طرح تختوں پر بیٹھے ہوئے ہیں۔‘‘
اُمِ حرام نے عرض کیا:
’’یا رسول اللہﷺ! آپ اللہ سے دعا کیجئے کہ مجھ کو ان میں شامل کر دے۔ آنحضرتﷺ نے
ان کے لئے دعا فرمائی۔ پھر آپﷺ نے اپنا سر مبارک رکھا اور سو گئے۔ کچھ دیر بعد
بیدار ہوئے تو آپﷺ ہنس رہے تھے۔ میں نے پوچھا، یا رسول اللہﷺ! آپ کس بات پر ہنس
رہے ہیں؟‘‘ آپﷺ نے فرمایا۔’’میری امت کے کچھ لوگ میرے سامنے پیش کئے گئے جو اللہ
کی راہ میں جہاد کر رہے تھے۔‘‘ جیسا کہ پہلی بار فرمایا تھا۔
اُمِ حرام نے کہا، ’’یا
رسول اللہﷺ! دعا کیجئے کہ اللہ کریم مجھ کو ان میں شامل کر دے۔‘‘ آپﷺ نے
فرمایا۔’’تو پہلے لوگوں میں سے ہے۔‘‘
Aap ke khwab aur unki tabeer jild 01
خواجہ شمس الدین عظیمی
آسمانی کتابوں میں
بتایا گیا ہے کہ:
خواب مستقبل کی
نشاندہی کرتے ہیں۔
عام آدمی بھی
مستقبل کے آئینہ دار خواب دیکھتا ہے۔
انتساب
حضرت یوسف علیہ السلام کے نام جنہوں نے خواب سن کر
مستقبل میں پیش آنے والے چودہ سال کے حالات
کی نشاندہی کی
اور
جن
کے لئے اللہ نے فرمایا:
اسی طرح ہم نے یوسف کو اس ملک میں سلطنت عطا فرمائی اور
اس کو خواب کی تعبیر کا علم سکھایا۔