Topics

شعورلاشعور



ہماری زبان میں ایک اصطلاح ہے:

’’بازوئے شمشیر زن‘‘

خیال کیا جاتا ہے کہ بازو کی قوت اور تلوار کی دھارکاٹتی ہے۔ حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ بازو کی قوت کاٹتی ہے نہ تلوار کی دھار۔ دراصل یہ سب لہروں کی کارفرمائی ہے۔

قانون: آفاق سے نور کی لہریں آتی ہیں۔

انسان کی روح انہیں جذب کرتی ہے اس لئے کہ نور ہی

نور کو جذب کر سکتا ہے۔

روح کوئی تصور نہیں بلکہ حقیقی جسم ہے۔

روح کی یہی لہریں کیمیاوی اجزاء کی صورت اختیار کر لیتی ہیں۔

ان کیمیاوی اجزاء کو ہم دماغ کہتے ہیں۔

یہ لہریں دماغ کے اربوں خلیوں میں تقسیم ہو جاتی ہیں۔

یہاں یہ پیش نظر رکھنا ضروری ہے کہ لہریں خلیوں میں تقسیم ہونے کے بعد کیمیاوی اجزاء بنتی ہیں۔ لیکن تمام لہریں دماغ کو نہیں ملتیں۔ جتنی لہریں روح کے لئے ضروری ہیں وہ سب روح میں پیوست ہو جاتی ہیں اور جتنی لہریں دماغ کے لئے ضروری ہیں وہ دماغی اجزاء بن جاتی ہیں اور ان سے دماغ تشکیل پاتا ہے۔

عمل دو ہوتے ہیں۔ ایک عمل اختیاری اور دوسرا غیر اختیاری۔ غیر اختیاری عمل کو عقل نہیں سمجھ سکتی اور یہ عمل بغیر وساطت کے انجام نہیں پاتا جیسا کہ ہم پیروں سے چلنے کا کام لیتے ہیں، ہاتھوں سے پکڑنے کا کام لیتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ یہ دماغ کا کام ہے۔ دماغ اس کو کنٹرول کرتا ہے لیکن خفیہ طور پر روح کا عمل بھی ہوتا رہتا ہے جو دماغ کے کنٹرول سے بالکل باہر ہے۔ خواب میں زیادہ تر روح کا عمل کام کرتا ہے۔ لیکن خواب میں جہاں اختیاری اشارات پائے جائیں وہ دماغ کا عمل ہے۔ اس لئے جب تک کوئی بندہ روح کی تحریکات سے وقوف حاصل نہیں کر لے گا خواب کی تعبیر بیان نہیں کر سکتا۔

خواب دیکھنے کا تعلق کسی تاریخ، وقت یا مقام سے ہے نہ اس کی تعبیر کا ان سے کوئی واسطہ ہے۔ خواب میں جو کچھ بھی مشاہدہ ہوتا ہے اس کا تجزیہ ہی اس بات کا پتہ دے سکتا ہے کہ خواب کس سرچشمہ سے دماغ کی سطح پر وارد ہوا ہے اور اس سرچشمہ کی نوعیت کیا ہے۔خواب میں جو کچھ دیکھا جاتا ہے نتائج کے اعتبار سے وہ چیزیں بہت پیچیدہ ہوتی ہیں۔ کبھی بالکل الٹ پلٹ نظر آتی ہیں۔ ان حضرات کے لئے جو خواب کا علم نہ رکھتے ہوں صحیح بات تک پہنچنا تقریباً ناممکن ہے۔ خواب کی تعبیر کا علم ’’علمِ سینہ‘‘ ہے اور یہ علم اللہ کریم کی طرف سے عطیہ (Gift) ہوتا ہے۔

قانون: فی الواقع یہ بات بہت ہی عمیق ہے کہ انسان کی حقیقی خواہش کیا ہے۔

شعوری خواہشات ہمیشہ حقیقی خواہشات نہیں ہوتیں۔

دیکھا گیا ہے کہ زیادہ تر خواہشات شعور میں رہتی ہیں۔

انسان کی انا ان کو مسترد کرتی رہتی ہے اور ہرگز قبول نہیں کرتی۔

یہ ایک راز ہے۔۔۔۔۔۔

اگر انا کسی خواہش کو قبول کر لے تو پھر اس کا پورا ہونا لازم ہے۔ یہ ناممکن ہے کہ وہ پوری نہ ہو۔

خواب میں جو نشریات آتی ہیں براہ راست لاشعور سے آتی ہیں۔ شعور سے ان کا کوئی واسطہ نہیں آتا۔ لاشعور کا علم جاننے والا بندہ یہ جان لیتا ہے کہ خواب میں انا کی تحریکات کا کتنا عمل دخل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تعبیر معلوم ہونے پر یقیناً انسان اپنی زندگی کے کسی خطرناک موڑ پر احتیاط کر کے اپنی حفاظت کر سکتا ہے۔

Topics


Aap ke khwab aur unki tabeer jild 01

خواجہ شمس الدین عظیمی

آسمانی کتابوں میں بتایا گیا ہے کہ:

خواب مستقبل کی نشاندہی کرتے ہیں۔

عام آدمی بھی مستقبل کے آئینہ دار خواب دیکھتا ہے۔



 

 

  

 

انتساب


حضرت یوسف علیہ السلام کے نام جنہوں نے خواب سن کر مستقبل میں پیش آنے والے چودہ سال کے  حالات کی نشاندہی کی

اور

جن کے لئے اللہ نے فرمایا:

اسی طرح ہم نے یوسف کو اس ملک میں سلطنت عطا فرمائی اور اس کو خواب کی تعبیر کا علم سکھایا۔