Topics

خواب اور الہامی کتابیں


سیدنا علیہ الصلوٰۃ والسلام کے جد امجد حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خواب دیکھا:

’’اسماعیل! میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ میں تجھے ذبح کر رہا ہوں۔ جواب دیا، اے میرے باپ! جو حکم آپ کو ہوا ہے بجا

ائیں۔ مجھے انشاء اللہ صابروں میں سے پائیں گے۔ جب دونوں اللہ کے حکم کے مطیع ہوئے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حضرت

اسماعیل علیہ السلام کو ماتھے کے بل لٹا دیا تو اللہ کریم نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو پکارا اور کہا، اے ابراہیم علیہ السلام! تو نے خواب سچ کر دکھایا۔ تحقیق ہم محسنین کو اسی طرح جزاء دیتے ہیں۔‘‘

(قرآن)

قرآن نے جنت کے شعور یعنی لاشعور اور خواب کا تذکرہ بالوضاحت حضرت یوسف علیہ السلام کے واقعہ میں کیا ہے۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے باپ حضرت یعقوب علیہ السلام سے کہا:

’’اے میرے باپ! میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ گیارہ ستارے، چاند اور سورج مجھے سجدہ کر رہے ہیں۔‘‘

حضرت یوسف علیہ السلام کے والد حضرت یعقوب علیہ السلام نے فرمایا:

’’میرے بیٹے جس طرح تو نے دیکھا ہے کہ گیارہ ستارے اور سورج اور چاند تیرے آگے جھکے ہوئے ہیں۔ اسی طرح تیرا پروردگار تجھے برگزیدہ کرنے والا ہے۔‘‘

حضرت یعقوب علیہ السلام نے جنہیں اللہ کی طرف سے بصیرت عطا ہوئی تھی، اپنے لخت جگر سے یہ بھی کہا کہ اس خواب کا ذکر اپنے بھائیوں سے نہ کرنا۔

روایت ہے کہ حضرت یعقوب علیہ السلام کی حضرت یوسف علیہ السلام سے الفت و محبت، حضرت یوسف علیہ السلام کے سوتیلے بھائیوں کو ناگوار گزرتی تھی۔ ایک روز حضرت یوسف علیہ السلام کے سوتیلے بھائیوں نے پروگرام بنایا کہ انہیں راستے سے ہٹا دیا جائے۔ اس مقصد کے لئے ان سب بھائیوں نے مل کر باپ اے اجازت طلب کی حضرت یوسف علیہ السلام کو اپنے ساتھ جنگل لے جائیں۔ حضرت یعقوب علیہ السلام، حضرت یوسف علیہ السلام سے ان کے بھائیوں کے مخاصمت سے باخبر تھے۔ بھائیوں کے بے انتہا اصرار کے بعد انہوں نے نیم دلی سے اجازت دے دی۔ سوتیلے بھائی سیر کے بہانے حضرت یوسف علیہ السلام کو ساتھ لے گئے۔ واپس آتے ہوئے انہیں ایک اندھے کنویں میں ڈال دیا۔ مکر و فریب سے روتے ہوئے گھر لوٹ آئے اور حضرت یوسف علیہ السلام کی عدم موجودگی کا یہ عذر پیش کیا کہ انہیں بھیڑیا لے گیا ہے۔ ثبوت کے طور پر بکری کے خون میں رنگے ہوئے حضرت یوسف علیہ السلام کے کپڑے باپ کو دکھائے۔ حضرت یعقوب علیہ السلام گو کہ ان کا حیلہ سمجھ گئے تھے۔ لیکن رضائے الٰہی سمجھ کر خاموش ہو رہے اور بشری تقاضے کے تحت اپنے لخت جگر کی جدائی میں اتنا روئے کہ آنکھیں جاتی رہیں۔

جس اندھے کنویں میں حضرت یوسف علیہ السلام کو ڈالا گیا تھا اس کے قریب سے اسماعیلی عربوں کا مصر جانے والا قافلہ گزرا۔

قافلے والوں نے پانی کیلئے کنویں میں ڈول ڈالا تو حضرت یوسف علیہ السلام اسے پکڑ کر کنوئیں سے باہر نکل آئے، قافلہ والے آپ کو ساتھ لے گئے اور مصر کے بازار میں نیلام کر دیا۔ مصری فوج کے سپہ سالار’’فوطیفار‘‘ نے آپ کو خریدا۔ فوطیفا فرعون کے شاہی خاندان سے تعلق رکھتا تھا اور لوگ اسے ’’عزیز مصر‘‘ کے نام سے پکارتے تھے۔ یہ دور حضرت یوسف علیہ السلام کی جوانی کا دور تھا۔ حسن و خوبروئی کا کوئی پہلو ایسا نہ تھا، جو ان کے اندر موجود نہ ہو۔ عزیز مصر کی بیوی ’’زلیخا‘‘ دل پر قابو نہ رکھ سکی اور حضرت یوسف علیہ السلام پر پروانہ وار نثار ہو گئی۔

عصمت و حیا کے پیکر حضرت یوسف علیہ السلام نے ایک لمحہ کے لئے بھی زلیخا کی حوصلہ افزائی نہ کی بلکہ اسے بے قراری کی حالت میں چھوڑ کر کمرے سے باہر جانے لگے، زلیخا نے روکنا چاہا، جس سے آپ کی قمیض پھٹ گئی۔ دروازہ کھلا تو عزیز مصر کی بیوی کا چچازاد بھائی سامنے کھڑا تھا۔ زلیخا نے مکر سے کام لیا اور حضرت یوسف علیہ السلام پر الزام لگا دیا کہ آپ نے اس کی عزت پر حملہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ وہ شخص ذکی، فطین، ہوشیار اور معاملہ فہم تھا۔ اس نے کہا کہ یوسف کا پیراہن دیکھنا چاہئے اگر سامنے سے چاک ہے تو زلیخا سچ کہتی ہے اگر پیچھے سے چاک ہے تو یوسف بے گناہ ہے۔ دیکھا تو پیراہن پیچھے سے چاک تھا۔ عزیز مصر کو اس بات کا علم ہوا تو اس نے معاملہ رفع دفع کر دیا۔ لیکن خاندان میں یہ بات کسی نہ کسی طرح پھیل ہی گئی۔ عورتوں نے زلیخا پر لعن طعن شروع کر دیا۔ زلیخا نے حقیقت حال ان پر آشکارا کرنے کے لئے ایک دعوت کا اہتمام کیا۔ تواضع کیلئے پھل رکھے گئے۔ زلیخا نے مہمانوں کو پھل کاٹنے کو کہا اور عین اسی وقت حضرت یوسف علیہ السلام کو قریب سے گزارا گیا۔ حسن و جمال کے مجسمہ اور مردانہ وجاہت کے پیکر حضرت یوسف علیہ السلام پر جب عورتوں کی نگاہ پڑی تو ان کے حواس معطل ہو گئے اور انہوں نے پھلوں کے ساتھ اپنی انگلیاں بھی کاٹ ڈالیں۔

زلیخا نے مقصد براری کے لئے حضرت یوسف علیہ السلام کو تنگ کرنا جاری رکھا اور جب اسے کامیابی نہ ہوئی تو آپ پر طرح طرح کے الزامات لگا کر جیل بھجوا دیا۔

حضرت یوسف علیہ السلام سات برس جیل میں قید رہے۔ قیدیوں نے جن میں ایک بادشاہ کا ساقی اور دوسرا باورچی تھا اور وہ بادشاہ کو زہر سے ہلاک کرنے کی سازش میں پکڑے گئے تھے، حضرت یوسف علیہ السلام کو اپنے اپنے خواب سنائے۔ ایک نے بتایا۔’’میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ انگور نچوڑ رہا ہوں۔‘‘ دوسرے نے کہا۔’’میں نے دیکھا ہے کہ سر پر روٹی اٹھائے ہوئے ہوں اور پرندے اسے کھا رہے ہیں۔‘‘

حضرت یوسف علیہ السلام نے تعبیر میں فرمایا کہ انگور نچوڑنے والا بری ہو جائے گا اور اسے پھر ساقی گری سونپ دی جائے گی۔ دوسرا سولی پر چڑھایا جائے گا اور اس کا گوشت مردار جانور کھائیں گے۔

حضرت یوسف علیہ السلام کے قصہ میں بیان کردہ چوتھا خواب بادشاہ مصر ’’ملک الریان‘‘ کا ہے۔ بادشاہ نے تمام درباریوں کو جمع کر کے کہا، ’’میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ سات موٹی تازی گائیں ہیں انہیں سات دبلی گائیں نگل رہی ہیں اور سات بالیں ہری ہیں اور سات دوسری سوکھی۔‘‘

بادشاہ کے دربار میں ماہرین خواب نے اس خواب کو بادشاہ کی پریشان خیالی کا مظہر قرار دیا۔ اس خواب سے بادشاہ مصر ’’فرعون‘‘ ہر وقت پریشان رہنے لگا۔ بادشاہ کو پریشان دیکھ کر ساقی کو اپنا خواب اور اس کی تعبیر یاد آ گئی۔ اس نے جیل میں قید حضرت یوسف علیہ السلام کے علم و حکمت سے بادشاہ کو آگاہ کیا۔

حضرت یوسف علیہ السلام نے اس خواب کی تعبیر یہ بتائی کہ سات برس تک تم لگاتار کھیتی کرتے رہو گے۔ ان سات برسوں میں غلے کی فراوانی خوب ہو گی اور اس کے بعد سات برس بہت سخت مصیبت کے آئیں گے اور سخت قحط پڑ جائے گا ایک دانہ بھی باہر سے نہیں آئے گا۔ ان سات سالوں میں وہی غلہ کام آئے گا جو پہلے سات سالوں میں ذخیرہ کیا گیا ہو گا۔

حضرت یوسف علیہ السلام کے اس پورے قصے میں اس بات کا انکشاف ہوتا ہے کہ خواب مستقبل کی نشاندہی کا ذریعہ ہیں۔ خواب میں حضرت یوسف علیہ السلام کی بیان کردہ تعبیر کے مطابق چودہ سال کا مستقبل سامنے آ گیا۔ غور و فکر کے بعد دوسری بات یہ ظاہر ہوتی ہے کہ عام آدمی بھی مستقبل کے آئینہ دار خواب دیکھتا ہے یہ بالکل الگ بات ہے کہ علم تعبیر خواب پیغمبروں کا معجزہ ہے۔

’’اسی طرح ہم نے یوسف کو اس ملک میں سلطنت عطا فرمائی اور اس کو خواب کی تعبیر کا علم سکھایا۔

 (قرآن)

خواب میں پوشیدہ حکمت اور حضرت یوسف علیہ السلام کی بیان کردہ تعبیر سے بادشاہ مصر بے حد متاثر ہوا۔ بادشاہ نے اس صاحب علم قیدی کو رہا کر کے دربار میں حاضر کرنے کا حکم دیا لیکن حضرت یوسف علیہ السلام نے رہا ہونے سے انکار کر دیا اور مطالبہ کیا کہ اس الزام کی تحقیق کی جائے جس کے تحت وہ قید کئے گئے ہیں۔ بادشاہ جان گیا کہ قیدی صاحب حکمت اور بزرگ ہے۔ اور یہ صاحب علم برگزیدہ شخص یقیناً بے گناہ ہے ورنہ الزام کی تحقیق کا مطالبہ نہ کرتا اور بخوشی جیل سے باہر آ جاتا۔ شاہ مصر نے تحقیقات کا حکم دیا اور نتیجہ میں حضرت یوسف علیہ السلام بے قصور ثابت ہوئے۔

خواب کی تعبیر معلوم ہونے کے بعد بادشاہ نے دربار میں موجود ماہرین کو اس صورت حال سے نمٹنے کی ہدایت کی۔ یہ خواب جس طرح انوکھا تھا اسی طرح تعبیر بھی عجیب تھی۔ سارے دربار میں ایک بھی فرد ایسا نہ تھا جو اس کام سے بخوبی عہدہ برآ ہو سکتا۔ تب حضرت یوسف علیہ السلام نے اس قحط سالی سے بچنے کی تدابیر بھی بتا دیں۔ بادشاہ ان کے علم و حکمت اور بزرگی کا پہلے ہی معترف تھا اب اس کے دل میں حضرت یوسف علیہ السلام کی عزت و عظمت گھر کر گئی۔ اس نے ان تدابیر کو نہ صرف قبول کیا بلکہ حضرت یوسف علیہ السلام کو ان پر عمل کرنے کا اختیار بھی دے دیا۔ اور کہا:

آج سے تو میرا نائب ہے۔

آج سے تیرا حکم میری تمام رعایا پر چلے گا۔

آج سے میں نے تجھے ساری سلطنت کا مختار بنایا ہے۔

آج سے تو اپنی مرضی کا مالک ہے۔

حضرت یوسف علیہ السلام نے سلطنت مصر کی باگ ڈور سنبھال لی اور چودہ سال کی غذائی پلاننگ کر دی۔ زرعی زمینوں کے قریب غلہ ذخیرہ کرنے کیلئے گودام تیار کرائے گئے۔ یہ گودام اہرام مصر کے طرز کے تھے جن کے اندر رکھی ہوئی چیزوں پر موسمی اثرات اثر انداز نہیں ہوتے۔ سات سال بارشیں خوب ہوئیں اور بہترین فصل حاصل ہوئی۔ پھر کھیتیاں سوکھنے لگیں۔ جوہڑوں اور تالابوں میں جمع شدہ پانی ختم ہو گیا۔ لوگوں کے پاس جمع شدہ غذائی اجناس کی قلت ہو گئی۔ مصر کی ساری زمین سوکھ گئی اور قرب و جوار میں شدید قحط پڑا۔ اس وقت حضرت یوسف علیہ السلام کے حسن انتظام کی بدولت غلہ وافر مقدار میں موجود رہا۔

کنعان کے باشندے مصر آ کر سرکاری گوداموں سے غلہ لے کر گئے تو حضرت یعقوب علیہ السلام نے بھی اپنے بیٹوں کو مصر سے غلہ لانے کے لئے بھیجا۔

حضرت یوسف علیہ السلام ان گوداموں کی دیکھ بھال کرتے تھے اور وقتاً فوقتاً تقسیم اجناس کا جائزہ لیتے تھے۔ ایک بار جائزہ لینے پہنچے تو ایک جیسے لباس اور ایک جیسی شکل و صورت کے حامل دس کنعانیوں کو قطار میں انتظار کرتے دیکھا۔۔۔۔۔۔حضرت یوسف علیہ السلام نے ان کو پہچان لیا۔۔۔۔۔۔استفسار پر انہوں نے بتایا کہ ہم سب آپس میں بھائی ہیں اور کنعان سے آئے ہیں۔ ہم دس بھائیوں کے علاوہ ایک اور بھائی اور باپ کنعان میں ہیں۔ گیارہواں بھائی غلہ لینے اس لئے آ نہ سکا کہ ہمارے باپ آنکھوں سے معذور ہیں۔ باپ کی معذوری کی وجہ یہ بتائی کہ ہمارے یک اور بھائی یوسف کو بچپن میں بھیڑیا اٹھا کر لے گیا تھا۔ باپ کو اس سے بے انتہا محبت تھی۔ وہ اس کے غم میں روتے روتے بینائی سے محروم ہو گئے۔ حضرت یوسف علیہ السلام کو یہ سن کر صدمہ پہنچا کہ ان کے باپ ان کی جدائی کے غم میں بینائی کھو چکے ہیں۔ ساتھ ہی اپنے چھوٹے بھائی کی فکر بھی لاحق ہوئی۔ آپ نے اپنے بھائیوں سے کہا، ’’تم لوگ کنعان سے آئے ہو ممکن ہے تمہیں یہاں کے قانون کا علم نہ ہو۔ غلہ صرف ان لوگوں کو دیا جاتا ہے جو یہاں موجود ہوتے ہیں۔ اس بار تم کو معذور باپ اور بھائی کے حصے کا غلہ دے دیا جاتا ہے لیکن آئندہ جب غلہ لینے آؤ تو اپنے باپ اور بھائی کو بھی ساتھ لے کر آنا۔‘‘ بھائیوں نے کہا کہ ہمارے والد تو بیٹے کے غم میں گوشہ نشین ہو گئے ہیں۔ دوسرے یہ کہ وہ آنکھوں سے معذور بھی ہیں ان کے لئے ہم معذرت خواہ ہیں۔ چھوٹا بھائی باپ کی خدمت میں لگا رہتا ہے اور وہ بھی اسے خود سے دور کرنا گوارا نہیں کرتے۔

حضرت یوسف علیہ السلام نے باپ کی معذوری کا عذر تو قبول کر لیا لیکن بھائی کے نہ آنے کی وجہ کو قبول نہیں کیا اور کہا کہ تمہارے بھائی کو اپنے حصے کا غلہ لینے یہاں آنا پڑے گا۔ اگر وہ نہیں آیا تو تم کو بھی غلہ نہیں دیا جائے گا۔

مصر سے واپسی پر تمام بھائی اپنے نابینا باپ کے پاس پہنچے اور انہیں والئ مصر کے حکم سے آگاہ کیا۔ حضرت یعقوب علیہ السلام نے ان کی بات سن کر کہا:

’’کیا تم پر اس ہی طرح اعتماد کروں جس طرح اس کے بھائی یوسف کے معاملہ میں کر چکا ہوں؟‘‘

حضرت یوسف علیہ السلام کی جدائی کے بعد، حضرت یعقوب علیہ السلام کے دل کا سکون ’’بن یامین‘‘ ہی تھا۔ آنکھوں کی روشنی سے محروم ہونے کے بعد بن یامین ہی باپ کی ضروریات کا خیال رکھتا تھا۔

حضرت یوسف علیہ السلام کے سوتیلے بھائی اپنے باپ کا جواب سن کر شرمندہ ہوئے اور بڑے بھائی نے نہایت عاجزی سے کہا، ’’آپ کو ہم پر اعتماد نہیں رہا لیکن ہم مجبور ہیں۔ اگر آپ نے بن یامین کو ہمارے ساتھ نہیں بھیجا تو کسی کو بھی غلہ نہیں ملے گا۔‘‘

حضرت یعقوب علیہ السلام نے اپنے بیٹوں سے اس بات کا وعدہ لیا کہ وہ بن یامین کو صحیح سلامت باپ کے پاس واپس لے آئیں گے۔
دوسری مرتبہ برادران یوسف کا قافلہ جب مصر کو روانہ ہونے لگا تو حضرت یعقوب علیہ السلام نے بیٹوں کو نصیحت کی کہ دیکھو ایک ساتھ جتھا بنا کر شہر میں داخل نہ ہونا بلکہ مختلف دروازوں سے ایک ، دو دو داخل ہونا۔ حضرت یعقوب علیہ السلام کی بیٹوں کو یہ نصیحت اس وجہ سے تھی کہ جب وہ پہلی بار مصر میں داخل ہوئے تھے تو جاسوسی کے الزام میں گرفتار کر لئے گئے تھے اور بعد ازاں الزام ثابت نہ ہونے پر رہا ہوئے تھے۔

حضرت یوسف علیہ السلام جانتے تھے کہ ان کے بھائی جو غلہ لے گئے ہیں وہ زیادہ دن نہیں چلے گا اور انہیں جلد ہی غلہ لینے کے لئے دوبارہ آنا پڑے گا۔ بھائی کے انتظار میں وہ شہر کے باہر بھی چکر لگایا کرتے تھے۔ بالآخر برادران یوسف پہنچ گئے اور باپ کی نصیحت کے مطابق الگ الگ دروازوں سے شہر میں داخل ہوئے اور پھر ایک جگہ جمع ہو گئے۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے انہیں شاہی مہمان خانہ میں ٹھہرایا اور اپنے سگے بھائی بن یامین کو تنہائی میں طلب کر کے اسے حقیقت حال سے آگاہ کر دیا۔ باپ کی خیر خبر معلوم کی، اپنی ساری روئداد سنائی۔ باپ سے جدائی سے لے کر اب تک کا سارا قصہ بھائی کو سنایا اور تاکید کی کہ دوسرے بھائیوں پر اس راز کو آشکارا نہ کیا جائے کہ میں ہی ان کا وہ بھائی ہوں جس کو اپنی دانست میں وہ ختم کر چکے ہیں۔

اب کی بار حضرت یوسف علیہ السلام نے تمام بھائیوں کو پہلے سے زیادہ غلہ دیا اور اپنے بھائی بن یامین کو اپنے پاس رکھنے کی یہ ترکیب کی کہ غلہ ناپنے کا شاہی پیالہ اس کے سامان میں رکھ دیا۔

کنعانی جوانوں کا یہ قافلہ ابھی روانہ ہی ہوا تھا کہ چاندی سے بنے شاہی پیمانے کی تلاش شروع ہو گئی۔ جب پیمانہ نہ ملا تو قافلہ والوں پر چوری کا شبہ ظاہر کیا گیا کیونکہ غلہ صرف اسی قافلہ کو تقسیم کیا گیا تھا۔ قافلہ رکوایا گیا۔ برادران یوسف نے اس پر احتجاج کیا کہ چوری کا الزام بے بنیاد ہے۔ بحث و تمحیص کے بعد یہ طے پایا کہ قافلہ والے واپس چل کر تلاشی دیں گے۔ الزام ثابت نہ ہوا تو انہیں غلط شبہ کے نتیجہ میں پہنچنے والی تکلیف کے بدلہ میں مزید غلہ دیا جائے گا اور اگر الزام ثابت ہوا تو مجرم کو قانون کے مطابق سزا دی جائے گی۔۔۔۔۔۔اور قانون میں اس کی سزا یہ تھی کہ مجرم کو اس شخص کے حوالے کر دیتے تھے جس کی چیز چوری ہوتی تھی۔

شاہی داروغہ نے تمام بھائیوں کے سامان کی تلاشی لی۔ سب سے چھوٹے بھائی بن یامین کی خورجی میں سے شاہی پیمانہ برآمد ہوا۔ یہ دیکھ کر تمام بھائی پریشان ہو گئے۔

شاہی پہرہ دار بن یامین کو گرفتار کر کے لے جانے لگے تو ان سب کو باپ سے کیا ہوا وعدہ یاد آیا انہوں نے داروغہ کی منت سماجت شروع کر دی کہ بن یامین کو چھوڑ دیا جائے اور اس کی جگہ جس بھائی کو چاہیں گرفتار کر لیں۔ معاملہ حضرت یوسف علیہ السلام والئ مصر کے سامنے پیش ہوا۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے اس امر سے معذوری ظاہر کی اور کہا کہ اس سے زیادہ ظلم اور کیا ہو گا کہ اصل مجرم کو چھوڑ کر کسی اور کو پکڑ لیا جائے۔

ناکام و نامراد برادران یوسف وطن واپس ہوئے۔ لیکن اس سفر میں ان کا بڑا بھائی ان کے ساتھ نہیں تھا کیونکہ اس نے خاص طور پر بن یامین کی بحفاظت واپسی کا ذمہ اپنے سرلیا تھا اور بار ندامت سے باپ کا سامنا کرنے کی ہمت اس کے اندر موجود نہ تھی اس لئے وہ وہیں رہ گیا۔

باقی بھائیوں نے کنعان پہنچ کر اپنے باپ کو صورت حال سے آگاہ کیا تو حضرت یعقوب علیہ السلام نے فرط غم سے ایک آہ کھینچی اور غمزدہ آواز سے بولے، ’’میں جانتا ہوں کہ بات یہ نہیں ہے لیکن تم جو کچھ کہتے ہو مان لیتا ہوں۔ اب سوائے صبر کے اور کر بھی کیا سکتا ہوں۔‘‘

حضرت یعقوب علیہ السلام کے بیٹے جو غلہ لائے تھے، ختم ہو گیا۔ وہ پھر مصر جانے کے بارے میں سوچنے لگے لیکن بن یامین کی حرکت سے جو شرمندگی انہیں اٹھانا پڑی تھی اس کی وجہ سے جاتے ہوئے ہچکچا رہے تھے۔ حضرت یعقوب علیہ السلام نے انہیں تسلی دی اور مصر جانے پر آمادہ کیا تا کہ غلہ کے حصول کے ساتھ ساتھ بن یامین کی قید سے رہائی کے لئے والئ مصر سے معافی کی التجا کی جا سکے۔

باپ کی ہمت دلانے پر بیٹے دربار میں حاضر ہوئے اورکہا۔

’’ہمیں قحط سالی نے پریشان کر دیا ہے۔ اب معاملہ خرید و فروخت کا نہیں ہے۔ ذرائع آمدنی ختم ہوگئے ہیں۔ ہم غلہ کی پوری قیمت ادا نہیں کر سکتے ہمارے پاس جو کچھ بھی ہے حاضر ہے۔ اگر تو ہمیں غلہ نہیں دے گا تو ہمارے گھروں میں فاقے شروع ہو جائیں گے۔‘‘
حضرت یوسف علیہ السلام نے یہ سنا تو بہت رنجیدہ ہوئے اور آبدیدہ ہو کر کہا۔

’’نہیں نہیں میں تمہیں اور اپنے باپ کو مصیبت میں نہیں دیکھ سکتا۔‘‘

برادران یوسف اس بات پر کہ عزیز مصر ہمارے باپ کو اپنا باپ کہہ رہاہے حیرت زدہ ہو رہے تھے کہ حضرت یوسف علیہ السلام نے مزید کہا۔

’’تم لوگوں نے یوسف اور اس کے بھائی بن یامین کے ساتھ کیا سلوک کیا تھا؟‘‘

یہ جملہ سن کر ان پر حیرتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے۔ ان کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ عزیز مصر کو یوسف اور بن یامین سے کیا واسطہ ہے۔
’’میرے بھائیو! میں ہی تمہارا بھائی یوسف ہوں۔ جسے تم نے حسد کی بناء پر کنویں میں ڈال دیا تھا۔‘‘

حضرت یوسف علیہ السلام کے اس انکشاف سے ان کے رہے سہے حواس بھی جاتے رہے۔ خوف، شرمساری اور ندامت کے احساس سے ان کی گردنیں جھک گئیں۔

حضرت یوسف علیہ السلام نے پیغمبرانہ طرز فکر سے درگزر سے کام لیا۔ فرمایا:

’’میں تمہارا بھائی ہوں۔ ہم ایک ہی باپ کی اولاد ہیں۔ میں آج بھی تم سے محبت کرتا ہوں۔ تم کو کوئی سرزنش نہیں، کوئی شکوہ نہیں، کوئی شکایت نہیں۔ میں اللہ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ تمہارے گناہ بخش دے کیونکہ وہ رحیم وکریم ہے۔‘‘

فرعون مصر کو بھی حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائیوں کی آمد کا پتہ چلا اور یہ کہ ان کے والد اللہ کے برگزیدہ بندے حضرت یعقوب علیہ السلام ہیں۔ حضرت یعقوب علیہ السلام کنعان میں اسرائیل کے نام سے پکارے جاتے تھے اور آپ سے کئی معجزے منسوب تھے جن سے فرعون بھی واقف تھا۔ فرعون کو جب یہ پتہ چلا کہ حضرت یوسف علیہ السلام اس برگزیدہ ہستی کے بیٹے ہیں تو اس نے حضرت یعقوب علیہ السلام کو ان کے پورے خاندان سمیت مصر میں آباد ہونے کی دعوت دی اور سہولت کے لئے فوج کا ایک دستہ برادران یوسف کے ہمراہ کنعان بھیجا جس میں مال برداری کے جانور بھی شامل تھے۔

قافلے کی کنعان روانگی سے قبل حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنا پیراہن بھائیوں کو دیتے ہوئے کہا کہ اسے میرے محترم و مقدس باپ کی آنکھوں سے لگانا، خداوند قدوس اپنا فضل کرے گا۔

قافلہ ابھی کنعان میں داخل نہیں ہوا تھا کہ حضرت یعقوب علیہ السلام نے اہل خاندان سے کہا کہ مجھے اپنے گمشدہ بیٹے یوسف کی خوشبو آ رہی ہے۔ اہل خاندان نے حضرت یعقوب علیہ السلام کی اس بات کو پیرا نہ سالی کی وجہ سے ضعف دماغ پر محمول کیا اور کہا کہ برسوں کا گمشدہ بیٹا جس کو بھیڑیا لے گیا تھا بھلا اس کی خوشبو کیسے آنے لگی۔ حضرت یعقوب علیہ السلام نے کہا۔ ’’تم لوگ وہ بات نہیں جانتے جو میں جانتا ہوں۔‘‘

شاہی دستہ کے ہمراہ قافلہ شہر میں داخل ہوا تو حضرت یعقوب علیہ السلام اپنے گھر کی دیوار سے ٹیک لگائے بیٹھے تھے۔ حضرت یعقوب علیہ السلام کے بیٹے سر جھکائے ان کے پاس پہنچے حضرت یعقوب علیہ السلام نے خوشی اور بے قراری سے کہا۔’’تم سب آ ئے۔ مجھے یوسف کی مہک محسوس ہو رہی ہے۔۔۔۔۔۔‘‘

’’یوسف ہمارے ساتھ نہیں آیا۔‘‘ ایک بھائی نے جھکے ہوئے سر کے ساتھ جواب دیا اور پیراہن نکال کر ان کی طرف بڑھاتے

ہوئے کہا۔’’یوسف نے یہ بھیجا ہے۔‘‘

حضرت یعقوب علیہ السلام نے پیراہن ہاتھ میں لیااور یہ کہتے ہوئے چومنا اور آنکھوں سے لگانا شروع کر دیا۔’’میرا یوسف زندہ ہے۔ میں نہ کہتا تھا میرا یوسف زندہ ہے۔ مجھے اس کی مہک آ رہی ہے۔‘‘ پیراہن آنکھوں سے مس ہو رہا تھا اور رفتہ رفتہ بینائی لوٹ رہی تھی۔

بھائیوں نے اول تا آخر سارا قصہ کہہ سنایا۔۔۔۔۔۔

حضرت یعقوب علیہ السلام تمام خاندان والوں کے ہمراہ جن کی تعداد ستر(۷۰) بتائی جاتی ہے مصر روانہ ہو گئے۔
توریت کی تصریح کے مطابق والد سے بچھڑتے وقت حضرت یوسف علیہ السلام کی عمر
۱۷ سال تھی اور حضرت یعقوب علیہ السلام نوے سال کے تھے۔ جس وقت حضرت یعقوب علیہ السلام مصر تشریف لائے اس وقت ان کی عمر ۱۳۰ سال تھی گویا باپ بیٹا چالیس سال ایک دوسرے سے جدا رہے۔

س دوران فوطیفار کا انتقال ہو گیا۔ اللہ نے حضرت یوسف علیہ السلام اور زلیخا کو دوبارہ جوانی عطا کی اور دونوں کی شادی ہو گئی۔
انجیل میں حضرت یعقوب علیہ السلام کے خواب کا ذکر اس طرح کیا گیا ہے:

’’اور خدا نے رات کو خواب میں اسرائیل سے باتیں کیں۔ اور کہا اے یعقوب! اے یعقوب! اس نے جواب دیا میں حاضر ہوں۔ اس نے کہا میں خدا، تیرے باپ کا خدا ہوں۔ مصر میں جانے سے نہ ڈر کیونکہ میں وہاں تجھ سے ایک بڑی قوم پیدا کروں گا۔ میں تیرے ساتھ مصر کو جاؤں گا (یعنی میری نگہبانی تیرے ساتھ ہے) اور پھر تجھے ضرور لوٹا کر بھی لاؤں گا۔یوسف اپنا ہاتھ تیری آنکھوں پر لگائے گا۔‘‘

تاریخ شاہد ہے کہ حالات و واقعات اسی طرح پیش آئے جس طرح خوابوں میں نشاندہی کی گئی تھی۔

 

Topics


Aap ke khwab aur unki tabeer jild 01

خواجہ شمس الدین عظیمی

آسمانی کتابوں میں بتایا گیا ہے کہ:

خواب مستقبل کی نشاندہی کرتے ہیں۔

عام آدمی بھی مستقبل کے آئینہ دار خواب دیکھتا ہے۔



 

 

  

 

انتساب


حضرت یوسف علیہ السلام کے نام جنہوں نے خواب سن کر مستقبل میں پیش آنے والے چودہ سال کے  حالات کی نشاندہی کی

اور

جن کے لئے اللہ نے فرمایا:

اسی طرح ہم نے یوسف کو اس ملک میں سلطنت عطا فرمائی اور اس کو خواب کی تعبیر کا علم سکھایا۔