Topics
ایک جمعہ کو خطبہ کے
دوران حضرت عمر فاروقؓ نے فرمایا:
’’میں نے خواب میں دیکھا
ہے کہ ایک مرغ آیا ہے اور مجھ کو ٹھونگیں مار رہا ہے۔ اس کی تعبیر یہی ہو سکتی ہے
کہ اب میری موت کا زمانہ قریب آ گیا ہے۔‘‘
حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ
میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک شخص اس باغ میں داخل ہوا جو اس نے لگایا تھا۔ وہ ہر
تروتازہ اور پختہ پھل کو توڑنے لگا اور اپنے نیچے جمع کرنے لگا۔ اس سے مجھے معلوم
ہوا کہ اللہ اپنے کاموں پر غالب رہے گا اور عمر کو موت عطا کرے گا اور میں نہیں
چاہتا کہ مرنے کے بعد بھی اس بارِ خلافت کا متحمل رہوں۔
امیر المؤمنین حضرت عثمان
غنیؓ نے اپنی اہلیہ محترمہ سے فرمایا کہ میری شہادت کا وقت آ گیا ہے۔ باغی ابھی
مجھے شہید کر ڈالیں گے۔ اہلیہ محترمہ نے نہایت درد مندانہ لہجہ میں فرمایا۔’’امیر
المؤمنین ایسا نہیں ہو سکتا۔‘‘ حضرت عثمان غنیؓ نے فرمایا کہ ابھی میں نے اس کھڑکی
سے سیدنا علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زیارت کی ہے، انہوں نے ارشاد فرمایا ہے:
’’عثمان! تمہیں ان لوگوں
نے محصور کر رکھا ہے۔‘‘
میں نے عرض کیا۔ ’’جی
ہاں‘‘۔ اس پر آپﷺ نے ایک ڈول پانی کا لٹکایا جس میں سے میں نے پانی پیا۔ اس پانی
کی ٹھنڈک اب تک میرے دونوں شانوں اور چھاتیوں کے درمیان محسوس ہو رہی ہے۔ اس کے
بعد آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ اگر تم چاہو تو ان کے مقابلے میں
تمہاری مدد کی جائے اور تمہارا دل چاہے تو یہاں ہمارے پاس آ کر افطار کرو۔ میں نے
عرض کیا کہ آپﷺ کی خدمت میں حاضری چاہتا ہوں۔
جب بستر سے اٹھے تو وہ
پاجامہ طلب فرمایا جس کو پہلے کبھی نہ پہنا تھا۔ اسے زیب تن فرمایا۔ پھر بیس غلام
آزاد کر کے کلام پاک کی تلاوت میں مشغول ہو گئے۔ باغی محل سرا کی دیوار پھاند کر
اندر داخل ہو گئے۔ قرآن حکیم آپ کے سامنے کھلا ہو اتھا۔ آپ کے خون نے جس آیت کو
رنگین بنایا وہ یہ تھی:
فسیکفیکہم اللّٰہ و ھوالعلیم
الحکیمo
’’خدا کی ذات تم کو کافی
ہے، وہ علیم ہے اور حکیم ہے۔‘‘
روایت ہے کہ امیر
المؤمنین حضرت علیؓ شام کے سفر میں کربلا کی سرزمین میں پہنچے تو دریائے فرات پر
کھجور کے چند درخت دیکھ کر آپ کا رنگ متغیر ہو گیا۔ ابن عباسؓ کی طرف دیکھ کر
فرمایا:
’’اے عبداللہ! تم جانتے
ہو یہ کونسی جگہ ہے۔‘‘
وہ بولے، نہیں میں نہیں
جانتا۔ حضرت علیؓ نے فرمایا، اگر تم جانتے تو جس طرح میں روتا ہوں اسی طرح تم بھی
روتے اور اس قدر روئے کہ ریش مبارک آنسوؤں سے تر ہو گئی۔ پھر حضرت امام حسینؓ کو
اپنے پاس بلا کر فرمایا، ’’اے جگر گوشۂ رسول! بلاؤں اور مصیبتوں پر صبر کرنا
چاہئے۔ جن مصائب کا سامنا تمہارا باپ آج کر رہا ہے کل تم بھی کرو گے۔‘‘ پھر گھوڑے
پر سوار ہو کر کربلا کی زمین کے گرد چکر لگایا۔ گھوڑے سے اتر کر پانی طلب کیا۔ وضو
کر کے دو رکعت نماز ادا کی۔ تھوڑی دیر آرام کے غرض سے سر تکیہ پر رکھا اور سو گئے۔
کچھ دیر بعد نہایت بے قراری کی حالت میں جاگ اٹھے اور ابن عباسؓ کو بلا کر فرمایا:
’’اے بھائی! میں نے عجیب
خواب دیکھا ہے۔ میں نے سفید رومردان غیب کی ایک جماعت دیکھی ہے کہ تلواریں حمائل
کئے اور سفید علم ہاتھوں میں لئے آسمانوں سے اترے ہیں۔ انہوں نے اس زمین کے گرد
ایک لکیر کھینچی اور درختوں نے اپنی شاخیں زمین پر ماریں اور تازہ خون سے بھری ایک
ندی بہتے دیکھی ہے۔ میرا بیٹا حسین خون کی ندی میں پڑا ہاتھ پاؤں مار رہا ہے اور
کوئی شخص اس کی مدد کو نہیں پہنچتا۔ ان مردان غیب نے کہا، ’’اے فرزندان مصطفیٰ و
مرتضیٰ! صبر کرو اور جان لو کہ تم اللہ کی راہ میں شہید ہو گئے اور جنت برین
تمہارے دیدار کے لئے مشتاق ہے۔‘‘ پھر میرے پاس آ کر کہا، ’’اے ابو الحسن! تم کو
بشارت ہو کہ خدائے کریم قیامت کے روز حسین کے دیدار سے تمہاری آنکھیں منور کرے
گا۔‘‘ جب میں نے یہ ہولناک خواب دیکھا تو جاگ اٹھا۔ کچھ توقف کے بعد فرمایا کہ
سیدنا علیہ الصلوٰۃ والسلام نے مجھ سے ارشاد فرمایا تھا کہ اہلِ بغاوت کی جنگ کو
جاتے وقت کربلا میں تم ایسا خواب دیکھو گے۔‘‘
Aap ke khwab aur unki tabeer jild 01
خواجہ شمس الدین عظیمی
آسمانی کتابوں میں
بتایا گیا ہے کہ:
خواب مستقبل کی
نشاندہی کرتے ہیں۔
عام آدمی بھی
مستقبل کے آئینہ دار خواب دیکھتا ہے۔
انتساب
حضرت یوسف علیہ السلام کے نام جنہوں نے خواب سن کر
مستقبل میں پیش آنے والے چودہ سال کے حالات
کی نشاندہی کی
اور
جن
کے لئے اللہ نے فرمایا:
اسی طرح ہم نے یوسف کو اس ملک میں سلطنت عطا فرمائی اور
اس کو خواب کی تعبیر کا علم سکھایا۔