Topics

اولیاء اللہ کے خواب


حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ کا خواب:

محبوب سبحانی حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ فرماتے ہیں کہ میں نے خواب میں ابلیس کو دیکھا۔ میں نے دیکھا کہ ایک بہت بڑی جماعت میرے ہمراہ ہے۔ میں نے شیطان کے خاتمہ کا ارادہ کیا تو شیطان نے کہا،’’آپ کیوں مجھے مارتے ہیں؟ اگر اللہ نے میری تقدیر برائی کے ساتھ جاری کر دی ہے تو میری کوئی قدرت و طاقت نہیں کہ میں اسے نیکی اور بھلائی کی طرف تبدیل اور منتقل کر دوں۔‘‘

شیخ عبدالقادر جیلانیؒ فرماتے ہیں کہ میں نے شیطان کو مخنث (مرد و عورت دونوں کی صفات کا حامل) کی صورت میں دیکھا۔ اور میں نے اسے نرمی اور سستی سے بات کرتے ہوئے دیکھا۔ وہ اس طرح نرمی سے بات کر رہا تھا جیسا کہ چرب زبان اور حیلہ باز نرمی سے بات کرتے ہیں اور میں نے اسے لمبے چہرے، لمبی آنکھ، تھوڑی پر چند بال، حقیر اور بری شکل میں دیکھا۔ وہ شرمگیں اور خوف زدہ شخص کی طرح میرے سامنے مسکرایا تھا۔

ایک اور خواب کا تذکرہ کرتے ہوئے محبوب سبحانی فرماتے ہیں کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ ایسی جگہ موجو دہوں جس کی عمارت مسجد سے مشابہہ ہے۔ اس جگہ درویشوں کا ایک گروہ پیوند لگے لباس میں موجود ہے۔ میں نے وقت کے نیک لوگوں سے ایک شخص کا نام لے کر کہا کہ فلاں مرد صالح ہوتا تو ان لوگوں کو ادب سکھاتا، ہدایت کرتا اور حق کا راستہ بتاتا۔ وہ لوگ میرے گرد جمع ہو گئے اور کہنے لگے کہ آپ کون ہیں اور کیا حال و مقام رکھتے ہیں۔ آپ کلام کیوں نہیں کرتے؟ ہمیں نصیحت کیوں نہیں فرماتے؟ ہماری راہنمائی کیوں نہیں کرتے؟ میں نے کہا اگر تم اس کے لئے راضی اور تیار ہو تو میں کلام کرتا ہوں اور تمہاری رہنمائی کرتا ہوں۔ پھر میں نے کہا۔

* جب تم مخلوق سے کٹ کر اللہ کی طرف متوجہ ہو گئے تو پھر گداگری نہ کیا کرو۔ لوگوں سے اپنی زبان سے کچھ نہ مانگو اور جب تم نے زبان سے سوال کرنا چھوڑ دیا تو دل سے بھی سوال نہ کرو۔ دل سے سوال نہ کرنا یہ ہے کہ انسانوں سے شمع اور امید نہ رکھو۔ بے شک زبان کا سوال ظاہر اور دل کا سوال مخفی ہے۔

* اور جان لو کہ ہر روز بگاڑنے، بدلنے اور بلند و پست کرنے میں اللہ کی ایک نئی شان ہے۔

 ایک گروہ کے مراتب بلند کر دیتا ہے اور ان کو بلند مقاموں اور بلند مرتبوں کی طرف لے جاتا ہے اور دوسری قوم کو پستی میں گرا دیتا ہے ایک ایسے مقام کی طرف جو کہ انتہائی پستی میں ہے۔ پھر جن کو علیین تک بلند کیا ان کو اسفل السافلین میں گرا دینے سے ڈراتا ہے۔
* اور امید دلاتا ہے کہ ان کو اپنی حالت پر باقی رکھے گا اور اس بلند مقام میں ان کو ہمیشہ بلند رکھے گا اور جن کو انتہائی پستی میں گرایا ہے ان کو ہمیشہ پستی کی ھالت میں باقی رکھنے سے ڈراتا ہے اور ان کو اعلیٰ علیین تک بلند کرنے کا امیدوار بناتا ہے۔

* یہ خلاصہ صفات قہاریہ و جلالیہ اور جمالیہ ہے کہ ہر ایک اپنے آثار کے ظہور کے تقاضہ کرتا ہے اور ہر ایک خوف و امید میں رکھتا ہے اور ایک حال پر نہیں چھوڑتا۔

* اور ایمان خوف و امید کے درمیان میں ہے۔

* ناامید نہ ہونا کہ شراب پینے والے، روز اچانک ایک ہی شور کے ساتھ منزل مقصود کو پہنچ جاتے ہیں۔

محبوب سبحانی فرماتے ہیں کہ اس وعظ و تلقین کے بعد میں خواب سے جاگ گیا۔

شیخ عبدالقادر جیلانیؒ فرماتے ہیں کہ خواب میں ایک بوڑھے شخص نے مجھ سے سوال کیا کہ وہ کیا چیز ہے جس کے سبب سے بندہ اللہ کے نزدیک ہو جائے؟ میں نے جواب دیا:

’’اللہ کے قرب کے لئے ابتداء اور انتہاء ہے۔ اس کی ابتداء روح اور تقویٰ ہے جو تمام حرام اور مکروہات سے اجتناب کو کہتے ہیں اور اس کی انتہاء قضاء اور تقدیر الٰہی کے ساتھ راضی ہونا ہے۔ اور اپنے تمام کاموں کو اللہ کے حوالے کر دینا ہے۔‘‘

حضرت جنید بغدادیؒ کا خواب:

روایت ہے کہ حضرت جنید بغدادیؒ نے ابلیس کو خواب میں برہنہ دیکھا تو پوچھا کیا تجھے لوگوں سے شرم نہیں آتی؟
ابلیس نے جواب دیا۔

’’یہ لوگ، لوگ نہیں ہیں۔ لوگ تو درحقیقت وہ ہیں جو مسجد شونیزیہ میں ہیں۔ انہوں نے میرا جسم لاغر کر دیا ہے اور جگر جلا دیا

ہے۔‘‘
حضرت جنید بغدادیؒ فرماتے ہیں کہ جب میں بیدار ہوا تو مسجد شونیزیہ میں گیا اور وہاں کچھ لوگوں کو دیکھا کہ تفکر میں محو ہیں اور اپنے سروں کو اپنے گھٹنوں پر رکھے ہوئے ہیں۔ انہوں نے مجھے دیکھ کر فوراً کہا۔ ’’شیطان خبیث کی باتوں سے دھوکہ نہ کھانا۔‘‘

حضرت داتا گنج بخشؒ کا خواب:

حضرت ابوالحسن سید علی بن عثمان بن علی الجلابی ہجویری المعروف حضرت داتا گنج بخشؒ فرماتے ہیں کہ میں نے ایک مرتبہ سیدنا علیہ الصلوٰۃ والسلام کو خواب میں دیکھا۔ آپﷺ نے ارشاد فرمایا۔’’اپنے حواس کو اپنے قابو میں رکھ۔‘‘ داتا صاحب فرماتے ہیں کہ حقیقت میں حواس پر کنٹرول ہی سب سے بڑا مجاہدہ ہے کہ تمام قسم کے علوم اور احساسات ان ہی دروازوں سے حاصل ہوتے ہیں اور انسان کی معلومات میں کوئی ایسی چیز نہیں جس کا حصول حواس کے ذریعے نہ ہوتا ہو۔

شیخ ابوالحسن علی الہجویریؒ کشف المحجوب میں فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ شام میں حضرت بلالؓ کے روضہ کے سرہانے سو رہا تھا کہ خواب میں دیکھا کہ مکہ معظمہ میں ہوں اور سیدنا علیہ الصلوٰۃ والسلام باب بنی شیبہ سے اندر داخل ہو رہے ہیں اور ایک بوڑھے آدمی کو گود میں لئے ہوئے ہیں جیسے کوئی کسی بچہ کو لئے ہوئے ہو۔ میں نے آگے بڑھ کر قدم چومے اور حیران ہوا کہ گود میں یہ بوڑھا شخص کون ہے۔ آپﷺ کو میرے دل کا حال معلوم ہو گیا اور فرمایا، ’’یہ تیرا اور تیرے دیار والوں کا امام ہے۔‘‘ حضرت داتا صاحب فرماتے ہیں کہ وہ بوڑے شخص امام ابو حنیفہؒ تھے۔

شیخ اکبر محی الدین ابن عربیؒ کا خواب:

شیخ اکبر محی الدین ابن عربیؒ فرماتے ہیں کہ ۵۹۰ ہجری میں جب تلمسان میں شیخ ابو مدینؒ کی خدمت میں حاضر تھا تو ایک شب خواب میں سیدنا علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زیارت سے فیض یاب ہوا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب کہ ایک خاص شخص ہمارے شیخ ابو مدین کے خلاف تھا۔ اور اسی وجہ سے اس شخص کے لئے میں اچھے خیالات نہ رکھتا تھا۔ خواب میں جمال جہان نبوت سے سرفرازی ہوئی، تو سیدنا علیہ الصلوٰۃ والسلام نے دریافت فرمایا،’’تم اس شخص کے خلاف کیوں ہو؟‘‘ میں نے عرض کیا، ’’وہ میرے شیخ کے بارے میں اچھی رائے نہیں رکھتا ہے۔‘‘ آپﷺ نے فرمایا، ’’کیا وہ اللہ اور اس کے رسول کا محب ہے؟‘‘ میں نے عرض کیا،’’بلا شبہ وہ اللہ اور اس کے رسول سے محبت رکھتا ہے۔‘‘ تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:

’’وہ ابو مدین سے تعلق خاطر نہیں رکھتا۔ تم اسے اچھا نہیں جانتے، وہ اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے۔ اس تعلق سے تم اس

سے محبت کیوں نہیں کرتے؟‘‘

شیخ محی الدین ابن عربیؒ فرماتے ہیں کہ میں نے اسی وقت توبہ کی اور اپنا سابقہ رویہ تبدیل کر لیا۔

حضرت ابن عربیؒ فرماتے ہیں کہ آخر عشرہ محرم ۶۲۷ ہجری میں میرا قیام شام کے پایۂ تخت دمشق میں تھا کہ میں نے خواب میں حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی زیارت کی۔ دیکھا کہ آپﷺ کے دست مبارک میں ایک کتاب ہے اور مجھ سے فرما رہے ہیں کہ یہ کتاب ’’فصوص الحکم‘‘ ہے۔ اس کو لو اور تمام لوگوں پر ظاہر کر دو تاکہ لوگ اس سے فائدہ اٹھائیں۔ میں نے کہا ’’سمعاً و طاعتہً بسروچشم‘‘ پس اس کتاب کو خالصتاً اللہ کی رضا کے لئے لکھا اور جس قد سیدنا علیہ الصلوٰۃ والسلام نے حد مقرر فرمائی تھی اس میں نہ زیادتی کی اور نہ کمی اور اللہ کریم سے شیطان کے تسلط سے پناہ مانگی۔ جس وقت فصوص الحکم لکھی گئی اس وقت مولانا جلال الدین رومیؒ ۲۳ برس کے تھے اور حضرت امام غزالیؒ کے وصال کو ۵۵ سال گزر چکے تھے۔

خواجہ غریب نوازؒ کا خواب:

حضرت خواجہ معین الدین سنجری چشتیؒ اپنے مرشد کریم خواجہ عثمانی ہارونیؒ کے ہمراہ حج بیت اللہ سے فارغ ہو کر مدینہ منورہ حاضر ہوئے۔ روضہ اقدس پہنچ کر مرشد کامل نے مرید صادق کو حکم دیا۔

’’معین الدین آقائے دو جہاں کی بارگاہ میں سلام عرض کرو۔‘‘

خواجہ غریب نوازؒ نے نہایت ادب و احترام کے ساتھ کہا۔

’’الصلوٰۃ والسلام علیکم یا سید المرسلین و خاتم النبیین۔‘‘

روضہ اقدس سے آواز آئی۔

’’وعلیکم السلام یا قطب المشائخ‘‘

اس کے بعد خواجہ عثمان ہارونیؒ نے خواجہ غریب نوازؒ کو درود شریف پڑھنے کی تلقین کی۔ آپ عشاء تک درود شریف پڑھتے رہے۔ نماز عشاء کے بعد آنکھ لگ گئی تو خواب میں سیدنا علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زیارت کی۔ سیدنا علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا، ’’معین الدین ہم نے تمہیں بحکم الٰہی سلطان الہند مقرر کیا ہے۔ اب تم اپنے مرشد سے ہندوستان جانے کی اجازت طلب کرو۔‘‘

صبح ہوتے ہی خواجہ غریب نوازؒ نے مرشد گرامی کے حضور خواب بیان کیا۔ خواجہ عثمان ہارونیؒ اپنے محبوب شاگرد کی دربار رسالت میں مقبولیت کا حال سن کر بہت مسرور ہوئے اور خواجہ غریب نوازؒ سے فرمایا:

’’تم نے ہندوستان نہیں دیکھا ہے اپنی آنکھیں بند کرو تا کہ ہم تمہیں اس اجنبی سرزمین کی سیر کرائیں۔‘‘ خواجہ غریب نوازؒ نے آنکھیں بند کیں اور مرشد کامل نے چند لمحوں میں سارے ہندوستان کی سیر کراد ی۔

حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیریؒ حضرت قطب الدین بختیار کاکیؒ کے پیر و مرشد تھے۔ خواجہ غریب نوازؒ کی تربیت سے حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکیؒ سترہ برس کی عمر میں درجہ کمال پر پہنچ گئے اور خلافت اور خرقہ و ارادت سے نوازے گئے۔ متواتر چالیس روز تک حضرت خواجہ غریب نوازؒ نے سیدنا علیہ الصلوٰۃ والسلام کو خواب میں دیکھا کہ وہ فرما رہے ہیں کہ ’’اے معین الدین! قطب الدین خدائے عزوجل کا دوست ہے اپنا خرقہ اس کو پہنا دو۔‘‘ حسب الحکم حضرت خواجہ غریب نوازؒ نے ان کو اپنا خرقہ عنایت فرمایا اور خلافت کی اجازت دے کر دہلی کی ولایت ان کے تصرف میں عطا فرمائی۔

حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکیؒ کا خواب:

حضرت خواجہ بختیار کاکیؒ فرماتے ہیں کہ مجھ کو ابتداء میں قرآن یاد نہ ہوتا تھا۔ ایک رات میں نے سیدنا علیہ الصلوٰۃ والسلام کو خواب میں دیکھا۔ میں نے اپنی آنکھیں پائے مبارک پر رکھ دیں اور رونا شروع کر دیا۔ میں نے عرض کیا کہ آپﷺ مجھے حافظہ عطا فرما دیں تا کہ قرآن مجید یاد کر سکوں۔ آپﷺ نے میری گریہ و زاری پر شفقت فرمائی اور ارشاد ہوا، ’’سراٹھا‘‘ میں نے سر اٹھایا۔ آپﷺ نے ارشاد فرمایا کہ سورۂ یوسف تلاوت کیا کر، انشاء اللہ قرآن یاد ہو جائے گا۔ حضرت بختیار کاکیؒ فرماتے ہیں کہ میں نے سورہ یوسف کی تلاوت شروع کر دی۔ اللہ کریم نے مجھ کو قرآن مجید کا حافظ کر دیا۔

حضرت خواجہ فرید الدین گنج شکرؒ کا خواب:

حضرت خواجہ فرید الدین مسعود گنج شکرؒ مرشد کی صحبت میں تعلیمات مکمل کر چکے تو مرشد کریم حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکیؒ کے حکم سے دہلی سے ہانسی آئے۔ رخصت کرتے وقت مرشد کریم نے فرمایا کہ ’’تم میری وفات کے وقت تو میرے پاس نہ ہو گے لیکن دو تین روز بعد فاتحہ خوانی کے لئے پہنچو گے۔ تمہاری امانت قاضی حمید الدین کے حوالے کر دی جائے گی اس سے لے لینا۔‘‘
حضرت بابا فریدالدین مسعود گنج شکرؒ ہانسی پہنچے۔ کچھ دن قیام کیا۔ جس دن حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکیؒ نے انتقال فرمایا اسی رات بابا فرید گنج شکرؒ نے خواب میں دیکھا کہ مرشد کریم ان کو بلا رہے ہیں۔فوراً ہانسی سے دہلی روانہ ہو گئے۔ سوئم کے روز وہاں پہنچے۔ مرشد کریم کے مزار کی زیارت کی۔ قاضی حمید الدین ناگوریؒ نے حضرت خواجہ بختیار کاکیؒ کا خرقہ اور دوسری امانتیں حضرت گنج شکرؒ کے حوالے کیں۔ بابا فریدؒ چند روز دہلی میں قیام کے بعد ہانسی کے لئے روانہ ہو گئے۔

قاضی حمید الدین ناگوریؒ کا خواب:

حضرت قطب الدین بختیار کاکیؒ کی دہلی آمد سے پہلے حضرت قاضی حمید الدین ناگوریؒ نے خواب میں دیکھا کہ آفتاب جہاں تاب دہلی شہر کو منور کر رہا ہے۔ پھر قاضی صاحبؒ کے گھر میں وارد ہو کر کہتا ہے کہ میں یہیں تمہارے گھر میں ٹھہروں گا۔

اس کی تعبیر انہوں نے یہ لی کہ آفتاب سے مراد علی کامل ہے جو کہ جلد یا بدیر دہلی میں وارد ہوں گے اور میرے گھر میں اقامت اختیار کریں گے۔ اس خواب کو دو روز گزرے تھے کہ حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکیؒ دہلی تشریف لائے اور ایک معتقد کے ہاں ٹھہرے جو پیشہ کے اعتبار سے نانبائی تھے۔ قاضی حمید الدین ناگوریؒ کے خواب میں ایک بزرگ تشریف لائے اور کہا کہ میرا دوست قطب الدین اس شہر میں آیا ہوا ہے اور فلاں نانبائی کے گھر ٹھہرا ہوا ہے، جلدی جاؤ اور عزت و احترام سے اس کو اپنے گھر لے آؤ۔ اس کا قیام تمہارے گھر میں ہو گا۔ حضرت قاضی صاحبؒ خواجہ بختیار کاکیؒ کو اپنے ہاں عزت و احترام سے لے آئے۔

حضرت نظام الدین اولیاء محبوب الٰہیؒ کا خواب:

بابا فرید الدین مسعود گنج شکرؒ کے خلیفہ سلطان المشائخ حضرت خواجہ سید نظام الدین اولیاء محبوب الٰہیؒ کے مریدوں میں دہلی کا فرمانرواں خضرخان بھی شامل تھا۔ قطب الدین مبارک شاہ اسے قتل کر کے دہلی کا حکمران بن گیا۔ نیا سلطان خضر خان کے تعلق سے سلطان المشائخ سے بھی پرخاش رکھنے لگا۔ روایت ہے کہ ان دنوں سلطان المشائخ کے لنگر خانہ کا خرچ غلہ کے علاوہ دو ہزار تنکہ روزانہ تھا۔

سلطان نے قاضی محمد غزنوی سے پوچھا کہ شیخ کا اس قدر خرچ کہاں سے آتا ہے؟ قاضی سلطان المشائخ سے بے حد حسد رکھتا تھا اس نے کہا اکثر امراء اور دربار سلطانی کے وظیفہ خوار شیخ کی اعانت کرتے ہیں۔ بادشاہ نے حکم صادر کر دیا کہ آئندہ جو بھی شیخ کو نذرانہ بھیجے گا۔۔۔بادشاہ کے عتاب کا نشانہ بنے گا۔ اکثر امراء نے بادشاہ کی ناراضگی کے خوف سے حضرت محبوب الٰہیؒ کی خدمت میں حاضری ترک کر دی۔

حضرت محبوب الٰہیؒ کو جب شاہی فرمان سے متعلق اطلاع ملی تو اپنے خادم خواجہ اقبال کو بلایا اور حکم دیا کہ کل سے لنگر کا خرچ دگنا کر دیا جائے۔ پھر ہدایت فرمائی کہ جس وقت بھی تمہیں روپوں کی ضرورت ہو بسم اللہ الرحمٰن الرحیم پڑھ کر حجرہ کے طاق میں ہاتھ ڈالنا اور بقدر ضرورت نکال لینا۔

حضرت سلطان المشائخ کے لنگر کے بارے میں جب بادشاہ کو یہ خبریں پہنچیں تو اس نے شرمندگی محسوس کی اور پیغام بھیجا کہ شیخ رکن الدین ابو الفتح ملتانی مجھ سے ملنے آتے ہیں۔ آپ بھی تشریف لائیں تو بندہ نوازہ ہو گی۔

حضرت محبوب الٰہیؒ نے جواب میں فرمایا:

’’میں گوشہ نشین آدمی ہوں، کہیں آتا جاتا نہیں۔ ہمارے بزرگوں کا یہ قاعدہ نہیں ہے کہ شاہی دربار میں جائیں اور بادشاہ کے مصاحب بنیں لہٰذا میں معافی کا خواستگار ہوں۔‘‘

یہ پیغام سن کر بادشاہ نے کبر و نخوت سے جواب بھیجا کہ آپ کو ہفتہ میں دو بار ملاقات کو آنا پڑے گا۔ حضرت محبوب الٰہیؒ کو جب یہ پیغام ملا تو آپ نے خواجہ حسن علا سنجری کو بادشاہ کے پیر و مرشد شیخ ضیاء الدین رومی کے پاس بھیجا اور پیغام دیا کہ وہ بادشاہ کو سمجھائیں کہ درویشوں کو تکلیف دینا درست نہیں۔ خیریت اسی میں ہے کہ بادشاہ فقیروں کو نہ ستائے۔ دوسرے یہ کہ ہمارے بزرگوں کی روش ہے کہ وہ شاہی دربار میں نہیں جاتے تھے، میں بھی اس کی خلاف ورزی نہیں کر سکتا۔

شیخ رومی اس پیغام کے تیسرے روز انتقال کر گئے۔ حضرت محبوب الٰہیؒ تعزیت کے لئے تشریف لے گئے۔ حسن اتفاق سے بادشاہ پہلے ہی وہاں موجود تھا۔ لوگوں کو حضرت کی آمد کا علم ہوا تو بے پناہ ہجوم ان کے گرد جمع ہو گیا۔ بادشاہ ایک طرف اکیلا کھڑا یہ سب دیکھ رہا تھا۔ یہ صورت حال دیکھ کر سخت برہم ہوا اور دربار میں آتے ہی ایک محضر نامہ تیار کر کے حکم دیا کہ اگر ہفتہ میں ایک بار شیخ نے دربار میں حاضری نہ دی تو ان کے خلاف سخت کارروائی ہو گی۔

بادشاہ کے حکم کے مطابق سید قطب الدین غزنوی، مولانا برہان الدین ہروی، شیخ وحید الدین قندوزی اور دیگر اکابر نے حضرت سلطان المشائخ تک یہ پیغام پہنچایا۔ پیغام سن کر حضرت محبوب الٰہیؒ نے صرف یہ کہا کہ دیکھو، اللہ کی طرف سے کیا ظور میں آتا ہے۔
پیغام لانے والے اکابرین یہ سمجھے کہ حضرت محبوب الٰہیؒ بادشاہ کے دربار میں جانے کے لئے راضی ہو گئے ہیں۔ انہوں نے بادشاہ کو بتایا کہ ہم نے شیخ کو راضی کر لیا ہے وہ چاند رات کو ملاقات کے لئے آئیں گے۔

حضرت سلطان المشائخؒ کو جب معلوم ہوا کہ پیغامبر حضرات نے غلطہ فہمی سے بادشاہ کو آپ کی رضامندی کی اطلاع دی ہے تو فرمایا:
’’میں ہرگز اپنے بزرگوں کی روش کے خلاف نہ چلوں گا اور بادشاہ کی ملاقات کو نہ جاؤں گا۔‘‘

خواجہ وحید الدین قندوزی اور حضرت امیر خسروؒ کے بڑے بھائی اعزء الدین علی شاہ، حضرت نظام الدین اولیاء محبوب الٰہیؒ کی یہ بات سن کر غمگین ہوئے اور انہیں خدشہ لاحق ہوا کہ بادشاہ عاقبت نا اندیشی سے کوئی قدم نہ اٹھائے۔ حضرت محبوب الٰہیؒ نے انہیں افسرد ہ دیکھ کر فرمایا۔

’’یقین جانو بادشاہ مجھ پر فتح یاب نہ ہو گا۔ رات میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ مسجد نبوی میں صفہ پر قبلہ رو بیٹھا ہوں۔ اتنے میں سینگوں والا ایک بیل مجھ پر حملہ آور ہوا لیکن جب وہ میرے قریب آیا تو میں نے اس کے دونوں سینگ پکڑ کر اسے زمین پر ایسا پٹخا کہ وہ ہلاک ہو گیا۔‘‘

بادشاہ سے ملاقات کی رات آئی تو خواجہ اقبال اور دوسرے خادموں نے عرض کیا کہ حکم ہو تو پالکی اور کہاروں کو حاضر کیا جائے۔ سلطان المشائخؒ نے کچھ جواب نہ دیا، ابھی زیادہ دیر نہیں گزری تھی کہ اطلاع آئی کہ بادشاہ کے پروردہ اور نمک خوار خسروخان نے بادشاہ کو قتل کر دیا ہے۔

حضرت محبوب الٰہیؒ نے اپنی خانقاہ کے خدام کو حکم دے رکھا تھا کہ خانقاہ میں لنگر کے لئے لائی جانے والی تمام اشیاء روزانہ غرباء میں تقسیم کر دیا کریں، کوئی چیز بچا کر نہ رکھیں۔ ایک روز آپ قیلولہ فرما رہے تھے کہ ایک درویش آیا اس وقت خانقاہ میں کچھ بھی موجود نہ تھا، خدام نے آپ کے آرام میں خلل ڈالنا مناسب نہ سمجھا اور درویش کو خالی ہاتھ لوٹا دیا۔ حضرت محبوب الٰہیؒ کی آنکھ لگ گئی تو خواب میں دیکھا کہ مرشد کریم حضرت بابا فرید گنج شکرؒ تشریف لائے ہیں اور فرما رہے ہیں:

’’ایک درویش آیا اور خستہ حال واپس گیا، اگر دینے کو کچھ نہ تھا تو کم از کم حسن رعایت تو تھا۔‘‘

آنکھ کھلنے پر خدام سے صورت حال دریافت کی اور انہیں مرشد کی تنبیہہ سے آگاہ کیا اور حکم دیا کہ آئندہ اگر ایسی صورت حال درپیش ہو تو انہیں ضرور باخبر کیا جائے۔

محبوب الٰہیؒ حضرت نظام الدین اولیاء کی محبت رسول کا یہ عالم تھا کہ وصال سے چند روز قبل خواب میں دیکھا کہ سیدنا علیہ الصلوٰۃ والسلام فرما رہے ہیں۔ ’’نظام! جلد آ تجھ سے ملنے کا بہت اشتیاق ہے۔‘‘

اس خواب کے بعد سفر آخرت کے لئے بے چین ہو گئے۔ ہر وقت آنکھوں سے آنسو جاری رہتے تھے۔ وصال کے ۴۰ روز قبل کھانا پینا ترک ہو گیا۔ وصال کے روز لنگر اور ملکیت کی تمام چیزیں غرباء اور مساکین میں تقسیم کرا دیں۔

حضرت امیر خسروؒ کا خواب:

حضرت امیر خسروؒ ایک روز سلطان المشائخ حضرت نظام الدین اولیاءؒ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور گفتگو کے دوران عرض کیا کہ حکم ہو تو بندہ بھی ایک کتاب ’’گلستان‘‘ کی طرز پر لکھے۔ حضرت محبوب الٰہیؒ نے فرمایا کہ بہت مناسب ہے۔ امیر خسروؒ نے کتاب تصنیف کر کے اپنے مرشد کی خدمت میں پیش کی۔ سلطان المشائخ نے فرمایا:

’’یہ کتاب تم نے خوب لکھی ہے مگر سعدیؒ کی گلستان کچھ اور ہی ہے ، اس کا سا حسن و لطافت اس میں نہیں۔‘‘ امیر خسروؒ یہ سن کر دل شکستہ ہوئے۔ اسی رات خواب میں سیدنا علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زیارت ہوئی۔ دیکھا کہ آپﷺ کے سامنے شیخ سعدی شیرازیؒ اور دائیں جانب سلطان المشائخ دست بستہ با ادب کھڑے ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کسی کتاب کے مطالعہ میں مشغول ہیں۔ امیر خسروؒ نے قریب جا کر دیکھا کہ معلوم ہوا کہ یہ حضرت شیخ مصلح الدین شیرازی(شیخ سعدی) کی کتاب ’’گلستان‘‘ ہے۔

حضرت لعل شہباز قلندرؒ کے پیر و مرشد کا خواب:

حضرت سید محمد عثمان مروندی المعروف لعل شہباز قلندرؒ جس دوران مروند میں زیر تعلیم تھے اس دوران آپ کے مرشد شیخ ابو اسحاق بابا ابراہیم قادریؒ نے جن کا سلسلہ دو واسطوں سے حضرت محبوب سبحانی سید محی الدین شیخ عبدالقادر جیلانیؒ سے ملتا ہے، خواب میں دیکھا کہ حضرت محبوب سبحانیؒ فرما رہے ہیں، ’’اے ابو اسحاق! سید محمد عثمان کی طرف توجہ دو اور راہ سلوک طے کرانے میں کوشاں رہو۔‘‘

حضرت لعل شہباز قلندرؒ کا خواب:

حضرت لعل شہباز قلندرؒ جب بغداد میں حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانیؒ کے روضہ پر حاضر ہوئے اور خانقاہ غوثیہ میں قیام فرمایا تو ایک شب خواب میں حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ کو دیکھا۔ انہوں نے حضرت لعل شہباز قلندرؒ کو اپنے سینے سے لگا اور کہا:

’’عثمان! تم ہمارے ’’قلندر‘‘ ہو۔ یہاں اب تمہارا کام ختم ہو چکا ہے۔ بغداد سے مکہ چلے جاؤ اور اللہ کے گھر کا قرب حاصل کرو۔‘‘

بیدار ہونے کے بعد مکہ کے لئے روانہ ہو گئے اور حج بیت اللہ میں شامل ہوئے۔

حضرت شاہ شجاع کرمانیؒ کا خواب:

شاہ شجاع کرمانیؒ طویل عرصہ تک نہیں سوئے۔ انہوں نے اللہ کریم کو خواب میں دیکھا۔ عرض کیا، ’’اے میرے پروردگار! میں تو آپ کو بیداری میں ڈھونڈ رہا تھا مگر آپ کو میں نے خواب میں پایا۔‘‘ حکم ہوا کہ اے شاہ! آپ نے اس بیداری کی بدولت ہم کو خواب میں پایا اگر آپ بیدار نہ رہتے تو مجھے خواب میں نہ پاتے۔

حضرت حسن البوصیریؒ کا خواب:

شیخ الاسلام حضرت شرف الدین ابو عبداللہ محمد بن سعید بن حماد البوصیریؒ فالج میں مبتلا ہوئے جس کی وجہ سے نچلا نصف جسم بالکل سن اور بے حس ہو گیا۔ متعدد حاذق اطباء کے علاج سے کوئی فائدہ نہیں ہوا اور ’’مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی‘‘ کے مصداق آپ روز بروز نحیف و کمزور ہوتے چلے گئے۔ اپنی صحت کی خرابی کی وجہ سے مایوس متفکر اور غمگین رہتے تھے اور اللہ کریم کے حضور میں دعا کرتے تھے۔ اللہ کریم نے آپ کے دل میں القاء کیا کہ سیدنا علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مدح میں قصیدہ نظم کریں۔ چنانچہ قصیدہ بردہ شریف نظم کیا اور خدائے غفور الرحیم کے حضور میں اس کو وسیلہ اور ذریعہ بنا کر جمعہ کی رات، ایک تنہا مکان میں خلوص و عقیدت کے ساتھ اور حضور قلب سے پڑھنا شروع کیا، یہاں تک کہ آپ سو گئے۔ خواب میں دیکھا کہ آپ یہ قصیدہ دربار رسالتﷺ میں پڑھ رہے ہیں اور سیدنا علیہ الصلوٰۃ والسلام اس کی سماعت سے محظوظ و مسرور ہو رہے ہیں۔ جب آپ اس شعر پر پہنچے:

کم ابرأت و صبا باللمس راحتہ

تو حضرت محمد رسول اللہ علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بردہ یمانی(دھاری دار یمنی چادر) عطا فرمائی۔ شیخ صاحب بیدار ہوئے تو خود کو بالکل تندرست پایا اور جسم پر فی الواقع وہ چادر مبارک موجود تھی۔ صبح حضرت البوصیریؒ کسی ضرورت سے بازار تشریف لے گئے تو راستہ میں ایک درویش آپ کے سامنے آیا اور سلام کر کے قصیدہ نقل کرنے کی اجازت چاہی۔ حضرت البوصیریؒ نے فرمایا کہ میں نے سیدنا علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مدح میں متعدد قصائد لکھے ہیں آپ کو کس قصیدہ کی نقل درکار ہے۔ درویش نے کہا کہ اس قصیدہ کی جس کی ابتداء میں ہے۔

ترجمہ: ’’کیا تجھے ذی سلم کے ہمسائے یاد آ گئے۔‘‘

حضرت شیخ البوصیریؒ نے متعجب ہو کر دریافت کیا کہ اب تک میرے اس قصیدہ سے کوئی شخص مطلع نہیں۔ سچ بتایئے آپ نے کس سے سنا ہے۔ درویش نے کہا، ’’خدا کی قسم! میں نے اس کو گزشتہ رات آپ سے سنا تھا اور رات کے خواب کا واقعہ من و عن بیان کر دیا اور بتایا کہ بارگاہ رسالتﷺ میں اس وقت میں بھی موجود تھا۔

حضرت ممشاد دنیوریؒ کا خواب:

حضرت ممشاد دنیوریؒ فرماتے ہیں کہ ایک بار مجھ پر قرض کا بوجھ کچھ بڑھ گیا جس کی وجہ سے میں متردد ہوا۔ خواب میں دیکھا کہ کوئی پکارنے والا کہہ رہا ہے۔

’’اے بخیل! تیرا قرض ہم ادا کریں گے۔ اس قدر معمولی قرض سے فکر مند نہ ہو اور جو ضرورت پڑے تو اور قرض لے تیرا کام لینا ہے اور ہمارا کام دینا ہے۔‘‘

فرماتے ہیں کہ اس کے بعد میں نے اپنے قرض خواہوں سے کبھی حساب نہیں کیا بلکہ جتنا قرض وہ بتا دیتے تھے میں دے دیتا۔

حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ کا خواب:

حضرت حاجی امداد اللہ فاروقی مہاجر مکیؒ فرماتے ہیں کہ میری ظاہری بیعت تو شاہ صاحب سے تھی مگر اس کے ساتھ ہی ساتھ باطنی طور پر سیدنا علیہ الصلوٰۃ والسلام سے بلا واسطہ سعادت حاصل ہوئی تھی۔ فرماتے ہیں کہ ایک بار میں نے عالم رویاء میں جناب سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم کو ایک بلند مقام پر فائز المرام دیکھا اور دیکھا کہ حضرت سید احمد شہیدؒ کا ہاتھ حضور نبی کریم علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دست مبارک میں ہے اور میں بھی قریب ہی مؤدب کھڑا ہوں۔ اتنے میں سید صاحبؒ نے میر اہاتھ پکڑ کر جناب سیدنا علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ہاتھ میں دے دیا۔

حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ اپنے ایک اور خواب کا تذکرہ ان الفاظ میں کرتے ہیں کہ ایک شب میں نے خواب دیکھا کہ جمال کائنات حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ارشاد فرماتے ہیں، ’’تم ہمارے پاس آؤ۔‘‘ یہ خواب دیکھ کر دل میں جوش پیدا پیدا ہوا اور مدینہ شریف کی زیارت کے لئے دل بے چین ہونے لگا۔ یہاں تک کہ زاد راہ کے بغیر آپ نے جانے کا ارادہ کر لیا اور پاپیادہ چل کھڑے ہوئے۔ ابھی ایک منزل طے ہوئی تھی کہ آپ کے بھائیوں کو خبر ہوئی۔ انہوں نے کچھ زاد راہ پیش کیا جسے آپ نے بخوشی قبول کر لیا۔ جب بندرگاہ لیس(متصل جدہ) پر جہاز سے اترے تو حج کا زمانہ تھا۔ براہ راست میدان عرفات تشریف لے گئے اور جملہ ارکان حج ادا کرنے کے بعد مدینہ طیبہ میں حاضری دی۔

حضرت مہر علی شاہؒ کا خواب:

حضرت خواجہ پیر سید مہر علی شاہؒ فرماتے ہیں کہ ہمیں ابتداء میں سیروسیاحت اور آزادی بہت پسند تھی۔ حجاز مقدس کے سفر میں مکہ مکرمہ میں ہماری ملاقات حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ سے ہوئی۔ انہوں نے نہایت تاکید اور اصرار کے ساتھ فرمایا کہ ہندوستان میں عنقریب ایک فتنہ برپا ہونے والا ہے۔ لہٰذا تم ضرور اپنے ملک ہندوستان چلے جاؤ۔ الغرض ہندوستان میں اگر خاموش ہو کر بھی بیٹھ گئے تو بھی وہ فتنہ زیادہ ترقی نہ کر سکے گا۔ پس ہم عرب میں سکونت اختیار کرنے کا ارادہ ترک کر کے ہندوستان واپس چلے آئے۔حضرت مہر علی شاہؒ فرماتے ہیں کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ سیدنا علیہ الصلوٰۃ والسلام نے مجھے حکم فرمایا کہ یہ مرزا قادیانی اپنی تاویلات فاسدہ کی مقراض سے میری احادیث کو ریزہ ریزہ اور ٹکڑے ٹکڑے کر رہا ہے اور تم خاموش بیٹھے ہو۔

Topics


Aap ke khwab aur unki tabeer jild 01

خواجہ شمس الدین عظیمی

آسمانی کتابوں میں بتایا گیا ہے کہ:

خواب مستقبل کی نشاندہی کرتے ہیں۔

عام آدمی بھی مستقبل کے آئینہ دار خواب دیکھتا ہے۔



 

 

  

 

انتساب


حضرت یوسف علیہ السلام کے نام جنہوں نے خواب سن کر مستقبل میں پیش آنے والے چودہ سال کے  حالات کی نشاندہی کی

اور

جن کے لئے اللہ نے فرمایا:

اسی طرح ہم نے یوسف کو اس ملک میں سلطنت عطا فرمائی اور اس کو خواب کی تعبیر کا علم سکھایا۔