Topics

علم الاسماء اور آسمانی کتابیں



جتنی آسمانی کتابیں ہیں وہ ان علوم کی دستاویز ہیں جو علوم اللہ کریم نے حضرت آدمؑ کو بحیثیت نائب اور خلیفہ کے سکھائے ہیں۔ اللہ کریم نے جب حضرت آدمؑ کو نیابت اور خلافت کے علوم منتقل کئے تو فرشتوں نے اعتراض کیا کہ آدم زمین پر خون خرابہ اور فساد برپا کر دے گا۔ اللہ کریم نے فرشتوں کی یہ بات سن کر تردید نہیں کی بلکہ حضرت آدمؑ سے کہا ہم نے تجھے جو علوم سکھائے ہیں وہ تو فرشتوں اور جنات کے سامنے بیان کر دے ۔ حضرت آدمؑ نے جب یہ علوم بیان کئے تو فرشتوں نے اس بات کا اقرار کیا کہ ہم اتنا ہی جانتے ہیں جس قدر علم آپ نے ہمیں سکھا دیا ہے۔ آدمؑ سے پہلے زمین پر دو تخلیقات ممتاز تھین۔

۱۔ فرشتے

۲۔ جنات

فرشتوں نے سجدہ کر کے ’’آدم‘‘ کی حاکمیت کو تسلیم کر لیا اور جنات کے ایک گروہ میں سے اس گروہ کے سردار نے آدم کی حاکمیت کو تسلیم نہیں کیا جس کی بناء پر جنات کا ایک گروہ اللہ کا نافرمان ٹھہرا اور اللہ نے اسے منکر قرار دے دیا۔ اس وقت کائنات میں تین تخلیقات ممتاز ہیں۔

۱۔ آدم

۲۔ جنات

۳۔ فرشتے

چونکہ ’’آدم‘‘ کے پاس اللہ کریم نے عطا کردہ وہ علوم ہیں جو علوم بیان کردہ دونوں تخلیقات اور کائنات میں کسی بھی نوع کے پاس نہیں ہیں۔ اس لئے آدم زاد زمین پر اللہ کا نائب اور خلیفہ ہے۔

آدمؑ کو اور ان کی زوج ’’حوا‘‘ کو رہنے کے لئے جنت عطا کی گئی۔ جنت میں ان کو پورا تصرف عطا کیا گیا تا کہ وہ جہاں سے چاہیں، جو چاہیں جس طرح چاہیں کھائیں پئیں اور جس جگہ چاہیں قیام کریں۔ جنت کے بارے میں قرآن ارشادات اور الہامی کتابوں کا مطالعہ کیا جائے تو یہ بات منکشف ہوتی ہے کہ جنت میں آدمؑ کے اوپر زمان و مکان (Time & Space) کی پابندی نہیں تھی۔

آدمؑ آزاد حواس سے جنت میں مقیم تھے۔ اللہ کریم نے چونکہ آدمؑ کو اختیارات عطا کر دیئے تھے اس لئے ان سے کہا کہ اس درخت کے قریب نہ جانا۔۔۔۔۔۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ آدمؑ سے اللہ نے فرمایا کہ آزاد حواس سے اگر رو گردانی ہوئی اور ہم نے جو پابندی عائد کی ہے اس کی تعمیل نہیں ہوئی تو تیرے اوپر پابند طرز فکر مسلط ہو جائے گی۔ اس لئے کہ پابندی کو قبول کرنا ہی پابند طرز فکر ہے۔ اور جب آدمؑ کو شیطان نے بہکا دیا یعنی آدمؑ کے آزاد دماغ میں شیطان نے وسوسہ ڈال دیا تو آدمؑ کے اندر اس بات کا احساس اجاگر ہوا کہ مجھ سے حکم عدولی ہو گئی ہے۔ جیسے ہی آدمؑ کے اندر یہ احساس پیدا ہوا تو آدمؑ نے جنت کے شعور کے اوپر پابند شعور کا غلبہ دیکھا اور جیسے ہی پابند شعور کے غلبے نے آدمؑ کو متاثر کیا تو اللہ کریم نے فرمایا کہ اب تم جنت سے نکل جاؤ۔ بتایا جاتا ہے کہ آدمؑ کے اندر پابند شعور کا پہلا احساس ’’عریانی‘‘ پیدا ہوا۔ آدمؑ ستر پوشی کی طرف متوجہ ہوئے۔ جیسے ہی ستر پوشی عمل میں آئی، جنت کے آزاد شعور اور پابندی کے شعور (زمینی شعور) کے درمیان ایک پردہ حائل آ گیا اور اس پردے نے آدمؑ کو پوری طرح ٹائم اسپیس کا پابند بنا دیا۔ صورت حال کچھ اس طرح واقع ہوئی کہ آدمؑ کے آزاد اور جنتی حواس میں پابند حواس داخل ہو گئے۔

قرآن حکیم نے ’’آدم‘‘ کو نوع انسانی کی اکائی (Unit) کی حیثیت سے متعارف کرایا ہے۔ اللہ کریم کا یہ بڑا انعام اور فضل ہے کہ اللہ کریم نے آدم کے جنتی شعور کو پابند حواس کی وجہ سے ختم نہیں کیا۔ اللہ کریم نے فرمایا کہ ہمارے بندے (Messenger) تمہارے پاس آتے رہیں گے اور وہ برگزیدہ بندے آزاد شعور اور پابند شعور کے بارے میں تمہاری رہنمائی کریں گے۔ اگر تم نے ہمارے فرستادہ بندوں کی باتوں پر عمل کیا تو ہم دوبارہ تمہیں تمہارا وطن (جنت) واپس کر دیں گے۔

EQUATION
آدم دو شعوروں سے مرکب ہے:

جنت کا شعور +زمین کا شعور=Gravity=کشش ثقل

چونکہ آدم کی تمام زندگی کا دارومدار دونوں شعوروں پر ہے اور دونوں شعوروں کا بیک وقت ہونا لازم و ملزوم ہے اس لئے شعور لا شعور میں اور لاشعور شعور میں منتقل ہوتا رہتا ہے۔ یہ منتقلی ہی دنیاوی اور اخروی زندگی ہے۔ محدود اور کشش ثقل میں بند شعور کو قرآن میں ’’دن‘‘ کہا گیا ہے۔

کشش ثقل (Gravity) سے آزاد شعور (لاشعور) کو ’’لیل‘‘ کہا گیا ہے۔ افراد کائنات لیل اور نہار کے حواس میں زندگی گزارتے ہیں۔ لیل و نہار کے حواس کے بغیر زندگی کا کوئی تذکرہ نہیں کیا جا سکتا۔

جب کوئی انسان خواب کے حواس میں ہوتا ہے تو وہ لاشعور (جنت کے شعور) میں زندگی گزارتا ہے۔ اور جب کوئی انسان دن کے حواس میں ہوتا ہے تو وہ بیداری میں زندگی گزارتا ہے۔

جب سے دنیا بنی ہے اور جب تک دنیا قائم رہے گی کوئی فرد اس قانون سے آزاد نہیں ہوا اور نہ ہو گا۔

خواب درحقیقت ہر آدمی کی زندگی کا نصف حصہ ہے یعنی ہر آدمی جو زمین پر پیدا ہوا وہ آدھی زندگی خواب میں بسر کرتا ہے اور آدھی زندگی بیداری میں گزارتا ہے۔

Topics


Aap ke khwab aur unki tabeer jild 01

خواجہ شمس الدین عظیمی

آسمانی کتابوں میں بتایا گیا ہے کہ:

خواب مستقبل کی نشاندہی کرتے ہیں۔

عام آدمی بھی مستقبل کے آئینہ دار خواب دیکھتا ہے۔



 

 

  

 

انتساب


حضرت یوسف علیہ السلام کے نام جنہوں نے خواب سن کر مستقبل میں پیش آنے والے چودہ سال کے  حالات کی نشاندہی کی

اور

جن کے لئے اللہ نے فرمایا:

اسی طرح ہم نے یوسف کو اس ملک میں سلطنت عطا فرمائی اور اس کو خواب کی تعبیر کا علم سکھایا۔