Topics

تساہل پسندی اور بے عملی پر لاشعور کا احتجاج

کٹی ہوئی انگلیاں:

میں نے خواب میں دیکھا کہ میرے چچا میرے گھر آ رہے ہیں۔ ان کے ہاتھ میں ایک مردہ انسانی ہاتھ ہے اور اس ہاتھ کی انگلیاں کٹی ہوئی ہیں۔ میں حیران ہو رہی ہوں کہ ان کے ہاتھ میں مردہ ہاتھ کیوں ہے؟ اور وہ اس ہاتھ کو لے کر میرے گھر میں کیوں آ رہے ہیں؟
(ارشد)
تعبیر:
خواب کام میں لاپرواہی اور سستی کی دلیل ہے۔ اس روش کو فوری طور پر بدلنا ضروری ہے۔ جتنی جلدی اس روش کو بدل دیا جائے گا اتنی ہی جلدی ترقی و کامیابی کے دروازے کھل جائیں گے۔

گورنر صاحب:

چند روز ہوئے ایک خواب دیکھا تھا جس کی تعبیر کے لئے آپ کو زحمت دے رہا ہوں۔ میں نے دیکھا کہ دفتر میں سب لوگ کام کر رہے ہیں اور بینک کے باہر باجے بجائے جا رہے ہیں۔ میں نے اپنے دفتر کے کسی آدمی سے پوچھا کہ یہ باجا کیوں بج رہا ہے تو اس نے جواب دیا کہ گورنر صاحب کا آدمی آیا تھا اور اس نے کہا کہ گورنر صاحب کا حکم ہے کہ بینک کھول دو۔ میں نے کہا کہ تم نے گورنر کے آدمی کو باہر سے بات کر کے کیوں واپس کر دیا؟ تمہیں اس شخص کو میرے پاس لانا چاہئے تھا تاکہ میں اس سے بات کرتا۔

(نسیم احمد)

تعبیر:
آج کل آپ اور آپ کے ساتھی جس تعطل کا شکار ہیں اس کو دور کرنے کی کارگاری میں آپ کے ساتھ کچھ اور لوگوں نے بھی کوتاہی کی ہے۔ اسی وجہ سے معاملات میں پیچیدگی اور طوالت پیدا ہو گئی ہے۔ لیکن جلد یا بدیر انشاء اللہ نتائج حسب دلخواہ اور مفید برآمد ہوں گے۔ آئندہ زندگی میں انتہا پسندی سے ہمیشہ گریز کیجئے۔ جذبات بڑے کام کی چیز ہیں لیکن حقائق کو سامنے رکھنا بھی ضروری ہے۔
جدوجہد کا فقدان:

میں نے خواب دیکھا کہ میں کرسی پر بیٹھا ہوں سامنے میز رکھی ہے۔ ایک عورت سامنے سے آتی ہے اور بڑبڑاتے ہوئے میرے سامنے سے گزر جاتی ہے۔ میں اٹھ کر اس کو دیکھتا ہوں وہ بھی مڑ کر میری طرف دیکھتی ہے۔میں سپروائزر کی حیثیت سے ایک سڑک بنوا رہا ہوں۔ سڑک پر پلیا ہے اور پلیا کے ایک طرف چرچ بنا ہوا ہے۔ سڑک جب بن گئی تو اس میں جگہ جگہ گڑھے نظر آ رہے ہیں۔ ایک عورت گرجا میں سے آتی ہے اور مجھ سے کہتی ہے کہ یہ گڑھے بھر دو۔ عورت نے ساڑھی پہنائی ہوئی ہے۔ ساڑھی کا رنگ سفید ہے۔

میری والدہ میرے گھر آئیں اور تقریباً سوا مہینہ میرے یہاں قیام کیا، جاتے وقت مجھ سے کہا کہ بیٹا میں جا رہی ہوں ، لو یہ چابی رکھ لو۔ جب کسی چیز کی ضرورت ہو تو تالا کھول کر نکال لینا۔ جو چابی والدہ صاحبہ نے مجھے دی وہ ٹیڑھی تھی۔

میں نے دیکھا کہ چاند کو گرہن لگا ہوا ہے۔ یہ گرہن زیادہ چاند مغرب میں جا کر چھپ گیا۔ میں یہ سب دیکھ کر انتہائی پریشان ہو جاتا ہوں اور کہتا ہوں کہ یہ تو بہت برا ہوا۔ پھر میرے اندر یہ خواہش پیدا ہوئی کہ چاند کو واپس آنا چاہئے۔ چاند فوراً واپس آ جاتا ہے اور میرا دل خوش ہو جاتا ہے۔ چاند سے نور کی کرنیں پھوٹنے لگتی ہیں۔

ایک بہت بڑی عمارت ہے۔ ستونوں پر چھت رکھی ہوئی ہے۔ عمارت سے تیز خوشبو نکل رہی ہے۔ اس خوشبو کو میں نے جس طرح خواب میں محسوس کیا تھا اسی طرح آنکھ کھلنے پر بھی محسوس کیا۔

(ظفر احمد)

تعبیر و تجزیہ:

خیالات کی بے راہ روی سے طبیعت میں سستی اور اضمحلال پیدا ہو گیا ہے۔ آپ کے سارے خواب لاشعور کا ایک اشارہ ہیں جس کا مطلب زندگی میں جدوجہد کی ترغیب دینا ہے جس کا فقدان ہے۔ پیش نظر کاموں میں جو پیچیدگیاں ہیں وہ زیادہ توجہ اور محنت چاہتی ہیں۔ پہلے خواب میں کسی عورت کا زیر لب کچھ کہنا اور گزر جانا اوقات کار میں بے قاعدگی اور خلاء کی علامت ہے۔ دوسرے خواب میں سڑک کی تعمیر میں گڑھے ہونا کوتاہیوں کی دلیل ہے۔ عورت افادیت ہے۔ گرجا حاصل تک پہنچنے میں اندیشے اور خوف کا تمثل ہے۔ تیسرے خواب میں والدہ کا آنا اور ایک عرصہ تک مقیم رہنا اس وقفہ کی دلیل ہے جو منزل تک پہنچنے میں حائل ہے اور چابی سے مترشح ہوتا ہے کہ اگر کوشش کی جائے تو کامیابی ہو سکتی ہے۔ چوتھے خواب میں چاند کا گرہن بزدلی اور مایوسی کی علامت ہے۔ عملی زندگی میں یہ بہت بڑی پسماندگی ہوتی ہے۔ ہمت سے کام کیجئے اور مستقل مزاجی سے کیجئے۔ آپ کے پانچویں خواب کی تعبیر یہ ہے کہ ترقی کے جو ذرائع تلاش کئے جا رہے ہیں۔ ان میں کامیابی کی توقع نہیں ہے۔ اس لئے طریقۂ کار بدل دینا چاہئے۔ یہ ضروری نہیں ہے کہ ایک آدمی کے لئے جو چیز یا جو کام زیادہ مفید ہو وہ دوسرے کے لئے بھی فائدہ مند ہو۔

آنکھ کھلنے کے بعد خوشبو آنے کی وجہ ذہن کا خواب میں مرکوز ہو جانا ہے۔ جب انسان کا ارادہ اور شعور کسی چیز میں مرتکز ہو جاتا ہے تو وہ تصور سے عمل میں بدل جاتی ہے۔ دوسرے الفاظ میں یہ کہنا چاہئے کہ الیکٹرک امپلس، کیمیکل امپلس اور تبدیل ہو جاتے ہیں اور جو چیز کیمیکل امپلس میں بدل جاتی ہے اس کا اثر بیداری کے حواس میں معینہ وقفہ تک موجود رہتا ہے۔

سب نے مجھے سلام کیا:

خواب دیکھا کہ میں کسی بڑی مجلس میں موجود ہوں اور اس مجلس میں جوش ملیح آبادی، تابش دہلوی، حباب ترمذی، نیاز بدایونی اور دلاور فگار صاحب بنفس نفیس تشریف فرما ہیں۔ جیسے ہی میں ان کے سامنے پہنچتا ہوں تو یہ سب صاحبان کھڑے ہو کر میرا ادب کرتے ہیں، بالکل اس طرح جیسے میں مرزا اسد اللہ غالب ہوں۔ اپنی اپنی جگہ خالی کر کے ہر شخص یہ کوشش کرتا ہے کہ اپنی جگہ مجھے بٹھا دے۔ مشاعرہ یا مجلس کے اختتام تک میں ان کے پاس بیٹھا رہتا ہوں مگر کوئی نہیں کہتا کہ آپ بھی غزل پڑھیں یا چند اشعار سنا دیں۔
اس خواب میں دوسری بات یہ ہے کہ جب میں گھر سے باہر نکلتا ہوں تو جس طرف سے میرا گزر ہوتا ہے بچے تو بچے بڑے بوڑھے بھی بہت ادب و احترام کے ساتھ جھک جھک کر مجھے سلام کرتے ہیں۔ اگر میں کسی ایک جگہ رک جاتا ہوں تو چند لمحوں کے اندر اندر نوجوانوں کی بھیڑ مجھ سے مصافحہ کرنے کے لئے بے تاب و بے قرار نظر آتی ہے۔ میں گھبرا کر نکلنا چاہتا ہوں تو اچانک میرے پیروں کے نیچے سے زمین نکل جاتی ہے اور میں شاہین کی طرح ہوا میں اڑنے لگتا ہوں، اڑتے اڑتے آسمان کی بلندیوں کو چھو لیتا ہوں اور آنکھ کھل جاتی ہے۔ یہ بتا دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ اس قسم کے خواب ایک مہینہ میں کئی مرتبہ دیکھتا ہوں۔

(اشرف کلیم)

تعبیر:

خواب جن مظاہر سے بنا ہے ان سے یہ آشکار ہوتا ہے کہ عملی زندگی میں تساہل اور لاپرواہی کافی حد تک داخل ہو گئی ہے۔

تجزیہ:

شاعروں کا دیکھنا، ان کا ادب کرنا، لیکن شعر پڑھنے کی فرمائش سے بے نیازی برتنا ایسے اجزائے ترکیبی ہیں جن سے عملی زندگی میں لاپرواہی تساہل اور خلاء مترشح ہوتا ہے۔ نیز ضمیر محسوس کر رہا ہے کہ موجودہ طرز فکر اگر اسی طرح برقرار رہی ہے تو عملی زندگی میں روز بروز بے ترتیبی میں ضافہ ہوتا چلا جائے گا جو نتائج سے روگردانی کا سبب بنے گا۔ لاشعور خواب کو بار بار سامنے لا کر اس ہی اندیشے سے متنبہ کر رہا ہے۔ آخر میں بچوں اور بوڑھوں کا احترام کرنا زمین کا پیروں کے نیچے سے نکلنا اور پرواز کرنا ایسے خیالات کی طرف اشارہ ہے جن کی مقصدیت کچھ نہیں ہے اور عمل سے عاری ہیں۔

کبوتر اور مور:

خواب میں دیکھا کہ میں پہاڑی علاقے سے گزر رہا ہوں۔ کچھ فاصلے پر ایک گڑھے میں پودے لگے ہوئے ہیں اور رنگ برنگ پھول کھلے ہوئے ہیں۔ جب میں قریب گیا تو یہ پھول دو خوبصورت کبوتر بن گئے۔ جب میں نے کبوتروں کو پکڑنا چاہا تو دونوں اڑتے ہوئے ایک قلعے کی طرف چلے گئے۔ جب میں کبوتروں کے تعاقب میں اس جگہ پہنچا تو دیکھا کہ وہاں ان کبوتروں کے ساتھ دو مور ناچ رہے ہیں۔ ایک مور کے سبز پر ہیں اور دوسرے کے سفید۔ ان کے ساتھ اور بھی پرندے ہیں۔ یہ سب پرندے دونوں مور اور دونوں کبوتر ناچتے ناچتے ایک گڑھے میں غائب ہو گئے۔

(قیصر محمود)

تعبیر:

خواب کی تعبیر زندگی کے کسی شعبہ میں بہت بڑی محرومی کی دلیل ہے۔ مور اور پرندوں کا رقص طبیعت کو کوشش کی ترغیب دیتا ہے لیکن تساہل مانع ہو جاتا ہے۔ اگر ہمت سے کام لے کر برابر جدوجہد کی جائے تو اعلیٰ مقاصد کے حصول کا امکان ہو سکتا ہے۔

آگ میں گھر:

میں نے خواب دیکھا کہ قتل و غارت گری کا بازار گرم ہے۔ جگہ جگہ اوندھی سیدھی، دوہری اور اکڑی ہوئی لاشیں زمین پر پڑی ہیں۔ زمین انسانی خون سے گلنار ہے۔ مردہ انسانوں کے چہرے گرد و غبار سے اٹے ہوئے ہیں۔ میں بھی اس خونی ڈرامے میں شریک ہوں۔ یہ تو مجھے یاد نہیں کہ کسی کو قتل کیا یا نہیں لیکن اتنا یاد ہے کہ اس ہنگامہ و خونریزی میں میری ایک انگلی کٹ گئی اور شدید کرب و بے چینی میں میری آنکھ کھل گئی۔

جمعرات کی رات میں نے خواب دیکھا کہ ہمارے گھر میں آگ لگ گئی ہے۔ آگ کے اونچے اونچے شعلوں نے سارے گھر کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ گھر کا بڑا حصہ جل کر راکھ ہو گیاہے۔ ہم سب افراد خانہ آگ بجھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ آخر ہماری یہ جدوجہد کامیاب ہوئی اور آگ پر قابو پا لیا گیا۔

(محمد وصی)

تعبیر:

ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے اوپر جو ذمہ داریاں عائد ہیں آپ ان سے عہدہ برآ نہیں ہو سکے ہیں۔ خواب میں اس قسم کے اشارات بھی ہیں کہ آپ مقروض ہیں اور قرضے کی ادائیگی میں دشواریاں پیش آ رہی ہیں۔

تجزیہ:

خواب کے اندر انگلیاں مجروح ہونا اور بعد کے خواب میں آگ دیکھنا اور اس سے گھر کا نذر آتش ہونا، بہت سی ذمہ داریوں کا جمع ہونا اور ان سے عہدہ برآ نہ ہونے کی طرف اشارہ ہے۔ قتل و غارت گری اور بے گور و کفن لاشوں کا دیکھنا آپ کے مقروض ہونے کی طرف اشارہ ہے۔ یہ تمام الجھنیں اور پریشانیاں غیر ارادی طور پر دماغ کو بھاری کر دیتی ہیں۔ طبیعت میں ان الجھنوں اور پریشانیوں کی شبیہہ بنا کر خود کو ہلکا کرنا چاہتی ہے۔ طبیعت کے اس تقاضے کی وجہ سے اس قسم کے خواب آپ نے دیکھے ہیں۔

مجذوب:

صبح صادق کے وقت خواب میں دیکھا کہ میں اور میری والدہ ایک مجذوب کے پاس بیٹھے ہیں۔ کچھ لوگ اور بھی وہاں موجود ہیں۔ یہ بزرگ بالکل برہنہ حالت میں تشریف رکھتے ہیں۔ میں ان کے بائیں جانب اور والدہ دائیں جانب بیٹھی ہیں۔ میں نے ان مجذوب صفت بزرگ کی خدمت میں عرض کیا کہ جناب کیا مجھے کوئی اچھا سا مکان کرائے پر مل جائے گا؟ انہوں نے کہا، ہاں مل جائے گا۔

ہم دونوں خوش ہو کر وہاں سے اٹھے اور مکان کی تلاش میں چل کھڑے ہوئے۔ راستہ میں ماموں زاد بھائی سے ملاقات ہوئی اور وہ بھی ہمارے ساتھ تلاش مکان میں شامل ہو گئے۔ ایک جگہ دیکھا کہ ایک شخص چارپائی پر بیٹھا ہے۔ ہم نے ا س سے کہا کہ ہمیں کرائے پر مکان چاہئے۔ اس نے انکار کر دیا۔ اس کے بعد ہم ایک اور جگہ گئے اور میرے ماموں زاد بھائی نے ایک شخص سے ملنے کے لئے کہا۔ میں نے کہا، ہاں اس کو تو میں بھی جانتا ہوں۔ ہم جب اس کی دکان پر پہنچے تو ہمیں بتایا گیا کہ وہ تھوڑی دیر بعد آئے گا۔ ہم مایوس ہو کر آگے بڑھ گئے۔ دیکھا کہ ایک نابینا فقیر اہل اللہ کی شان میں بلند آواز سے ایک مصرعہ پڑھ رہا ہے۔ یہ مصرعہ سن کر میرے دل کی کیفیت بدل گئی اور اہل اللہ کی عظمت اور محبت میں سرشار ہو گیا۔ خوشی اور وجد کی کیفیت طاری ہو گئی۔ دل پر بے حد دباؤ پڑنے کی وجہ سے میرے ذہن میں یہ بات بار بار آئی کہ اگر یہ حالت کچھ دیر اور برقرار رہی تو میں بے ہوش ہو جاؤں گا۔ اسی حالت میں میں بھی وہی مصرعہ زور زور سے پڑھنا شروع کر دیا اور میری آنکھ کھل گئی۔

جس مجذوب کا میں نے خواب میں ذکر کیا ہے وہ سکھر میں موجود ہیں۔ یہ بزرگ ہمہ وقت دنیا و مافیہا سے بے خبر استغراق کی کیفیت میں کھوئے رہتے ہیں۔ گرمی ہو یا سردی ہمیشہ برہنہ رہتے ہیں۔ عورتیں، مرد اور بچے اپنی اپنی مرادیں لے کر ان کی خدمت میں حاضر ہوتے ہیں۔ بندہ بھی ان کی بارگاہ میں حاضری کو باعث فخر سمجھتا ہے۔

(ملک ظفر)

تعبیر:

خواب سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ کی طبیعت کا میلان اس طرف ہے کہ کچھ کئے دھرے بغیر گوہر مقصود ہاتھ آ جائے۔ خواب کے اجزاء یہ بھی بتاتے ہیں کہ اس طرح سوچتے ہوئے مدتیں گزر گئی ہں۔

تجزیہ:

مجذوب صفت بزرگ کی خدمت میں حاضر ہونا، سوال کرنا، آپ کا اور والدہ کا خوش ہونا، ایسے نشانات ہیں جو ہوائی امیدوں، نامعلوم سہاروں اور بغیر کسی کوشش کے نتائج پر ذہن کو مرکوز ہونا ظاہر کرتے ہیں۔ ماموں زاد بھائی کے ساتھ مکان کی تلاش میں سرگرداں پھرنے کے مظاہر میں یہ بات پوشیدہ ہے کہ نامعلوم سہاروں اور بغیر کسی کوشش کے نتائج حاصل کرنے کی طرز فکر میں تسلسل پایا جاتا ہے۔ نابینا فقیر کا تمثل کوشش کے مفلوج ہونے کی علامت ہے۔ مشورہ یہ ہے کہ ذہن کی اس روش سے گریز کریں اور اللہ تعالیٰ کے بھروسہ پر جدوجہد کی جائے۔

غاروں میں آبشار:

میں نے دیکھا کہ قبر میں لیٹا ہوں اور دفن کرنے والے قبر کے سرہانے کھڑے ہیں۔ میں نے ان لوگوں سے ضرورت کی چند چیزیں طلب کیں۔ یہ بات یاد نہیں رہی کہ ان لوگوں نے وہ چیزیں مجھے دیں یا نہیں۔ مجھے احساس ہوا کہ یہ لوگ میری قبر کو بند کر کے یہاں سے چلے جائیں گے۔ میں اس کال کوٹھڑی میں یک و تنہا کیسے رہوں گا۔ مضطرب اور بے قرار ہو کر سوچنے لگتا ہوں کہ کیوں نہ یہاں سے بھاگ نکلوں؟ مگر پھر خیال آجاتا ہے کہ یہاں سے بھاگ کر کہاں جاؤں گا اور پھر خیال آتا ہے کہ کب تک بھاگو گے؟ یہ توایسی جگہ ہے کہ یہاں بہرحال آنا ہے۔ آدم اور آدم کی اولاد سب ہی اس محور کے گرد گھوم رہے ہیں۔ آج اور کل کا مسئلہ ہے۔ آج اگر میں آ گیا تو کل آدم کا دوسرا بیٹا، میرا بھائی آئے گا۔ میں نے سوچا کہ میرے ارد گرد اتنی قبروں میں بھی تو انسان ہی پڑے ہیں۔ یہاں میں اکیلا تو ہوں نہیں۔ اس کے بعد میں نے دفن کرنے والوں سے کہا، ’’بھائیو! تم اپنا کام ختم کر کے اور قبر کو اچھی طرح بند کر کے چلے جاؤ۔‘‘ یہ کہنے کے بعد میری آنکھ کھل گئی۔

ایک اور خواب دیکھا کہ میں ایک ٹھیلے پر سوار ہوں۔ میرے ساتھ میرا بڑا لڑکا زبیر احمد قادر بھی ہے اور شاید تیسرا سوار میری لڑکی فہمیدہ ہے۔ یا کوئی اور ہے۔ تانگہ نما ٹھیلے میں جُتا ہوا گھوڑا بہت خوبصورت اور منہ زور ہے۔ راستہ سنگلاخ، دلدلی اور اونچا ہے۔ ایک طرف فلک بوس پہاڑیوں کا سلسلہ پھیلا ہوا ہے۔ ان پہاڑیوں سے آبشار گر رہی ہے۔ بڑا عجیب اور مسحور کن منظر ہے۔

ٹھیلہ جب پہاڑ کی انتہائی اونچائی پر پہنچتا ہے تو ٹھیلے سے گھوڑا الگ ہو جاتا ہے۔ میں اپنی پوری طاقت سے گھوڑے کی لگام کھینچ رہا ہوں۔ میرے ذہن میں اس وقت یہ بات ہے کہ اگر گھوڑا ذرا سا بھی بدکا تو ٹھیلے کے بمبو الگ ہو جائیں گے۔ ٹھیلہ اترائی میں اترنے لگتا ہے تو زبیر چلا کر کہتا ہے کہ ابا جی روکو ورنہ ہم سب آبشاروں میں بہہ کر غاروں میں دفن ہو جائیں گے۔ میں اپنے بیٹے کو تسلی دے رہا ہے، ڈانٹ رہا ہوں۔ میری اس ڈانٹ ڈپٹ سے لڑکا گھبرا کر ٹھیلے سے گر جاتا ہے۔ ہزاروں فٹ کی بلندی سے گرنے والی آبشار کا پانی سمندری طوفان کی طرح موجیں مارتا ہوا میرے بیٹے زبیر کو ایک کنوئیں میں گرا دیتا ہے۔ میں ٹھیلے کو ایک ہموار جگہ کھڑا کر کے بھاگتا ہوا کنوئیں کے پاس جاتا ہوں تو دیکھتا ہوں کہ زبیر کا صرف ہاتھ پانی کی سطح پر نظر آ رہا ہے۔ میں چھلانگ لگانے لگتا ہوں تو احساس ہوتا ہے کہ کنواں اس قدر تنگ ہے کہ اگر میں نے چھلانگ لگا دی تو زبیر کے اوپر گروں گا اور وہ اور نیچے چلا جائے گا۔ تھوڑی بہت زندہ بچنے کی جو امید ہے وہ ختم ہو جائے گی۔ میں بہت تیزی سے کنوئیں میں جھکتا ہوں اور ہاتھ ڈال کر زبیر کو پکڑنے کی کوشش کرتا ہوں مگر مجھے ناکامی ہوتی ہے۔ اتنے میں زبیر کا ہاتھ پھر ابھرتا ہے۔ کنوئیں کی ایک اینٹ اس کے ہاتھ میں ہے۔ یہ اینٹ اس کے ہاتھ سے گر جاتی ہے او ہاتھ بھی پانی میں ڈوب جاتا ہے۔ میں شدت غم میں پرنم آنکھوں سے سینہ کوبی کرتا ہوں اور اس غم میں میری آنکھ کھل جاتی ہے۔

(غلام ہمدانی)

تعبیر:

پہلے خواب کی تعبیر یہ ہے کہ آپ فلم دیکھنے میں تضیع اوقات اور اصراف کرتے ہیں۔ طبیعت برا محسوس کرتی ہے اور ذہن تاویل کرتا ہے اور کیا تفریح کی جائے سب اہی ایسا کرتے ہیں۔

دوسرے خواب کی تعبیر یہ ہے کہ آپ فلم دیکھنے میں بے خبر قاعدہ اور بے ترتیب ہیں۔ خواب سے یہ انکشاف بھی ہوتا ہے کہ آرام طلبی، آسائش پسندی، سہل انگاری اور تکلفات کی طرف رغبت زیادہ ہے۔ نیز پورے ماحول میں یہ چیزیں پرورش پا گئی ہیں۔
تجزیہ:

پہلے خواب میں دفن کرنے والوں کی موجودگی، قبر میں لیٹنا، بھاگنے کی کوشش کا خیال، پھر اس کی تردید یہ سب علامتیں اور تمثلات مذکورہ بالا طرز عمل (فلم بینی اور اصراف) کے نقش و نگار ہیں۔ دوسرے خواب میں وہ سارے تمثلات ہیں جو بڑوں کے مشاغل سے بنے ہیں مثلاً تکلفات کی زندگی، جس میں آسائش پسندی، آرام طلبی، سہل انگاری اور اس قبیل کی ساری چزیں آ جاتی ہیں۔ یہ سارے تصورات اسلاف سے منتقل ہوئے ہیں۔ گھوڑے کی بے لگامی، اس پر قابو پانے کی کوشش میں ناکام ہو جانا، آخر میں تاسف، یہ سب حالات حاضرہ کے بے قاعدہ اور بے ترتیب ہونے کی علامت ہے۔ ٹھیلہ، منہ زور اور خوبصورت گھوڑا، آبشاریں ان آبشاروں میں لڑکے کا ڈوب جانا، کنواں یہ سب تکلفات کی علامتیں اور شبیہیں ہیں۔ ناہموار اور سنگلاخ راستہ، پرتکلف زندگی کے نتیجہ میں حالات کے اندر پیچیدگی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ کنوئیں میں چھلانگ لگانے سے جھجھکنا اور کنویں میں ہاتھ ڈالنا اور نتیجہ میں بچے کے ہاتھ کو غائب دیکھنا اس بات کی دلیل ہے کہ موجودہ طرز عمل نقصان اور پریشانی کا سبب ہے۔
مشورہ:
۱۔ ایسی تفریح کیجئے جس میں وقت کا ضیاع اور دولت کا اسراف نہ ہو۔

۲۔ یہ بات ضروری ہے کہ ہر بات کا جائزہ لیا جائے اور جہاں عملی طور پر طریقوں میں تبدیلی کی ضرورت ہو وہاں تبدیلی کی جائے

یقیناً بہتر نتائج مرتب ہوں گے۔

Topics


Aap ke khwab aur unki tabeer jild 01

خواجہ شمس الدین عظیمی

آسمانی کتابوں میں بتایا گیا ہے کہ:

خواب مستقبل کی نشاندہی کرتے ہیں۔

عام آدمی بھی مستقبل کے آئینہ دار خواب دیکھتا ہے۔



 

 

  

 

انتساب


حضرت یوسف علیہ السلام کے نام جنہوں نے خواب سن کر مستقبل میں پیش آنے والے چودہ سال کے  حالات کی نشاندہی کی

اور

جن کے لئے اللہ نے فرمایا:

اسی طرح ہم نے یوسف کو اس ملک میں سلطنت عطا فرمائی اور اس کو خواب کی تعبیر کا علم سکھایا۔