Topics

قالو بلیٰ



ذات باری تعالیٰ کے ذہن میں کائنات کا وجود اس کے ارادے کے تحت موجود ہے۔ جب اس نے اس کا مظاہرہ پسند فرمایا تو حکم دیا۔۔۔۔۔۔’’کن‘‘ یعنی حرکت میں آ۔ جس وقت اللہ نے لفظ ’’کن‘‘ کہا تو ازل سے ابد تک جو کچھ جس طرح اور جس ترتیب کے ساتھ وقوع میں آنا تھا، آ گیا۔ ازل سے ابد تک ہر ذرہ اس کی تمام حرکات و سکنات موجود ہو گئیں یعنی صفاتِ الٰہیہ نزول کر کے کائنات کی شکل و صورت بن گئیں۔
ازل کے ابتدائی مرحلہ میں موجودات ساکت وصامت تھیں۔ جب اللہ کو یہ منظور ہوا کہ موجودات کا سکوت ٹوٹے اور حرکت کا آغاز ہو تو اللہ نے موجودات کو مخاطب کر کے ارشاد فرمایا:
’’الست بربکم‘‘
اب ہر شئے متوجہ ہو گئی۔ توجہ اور مرکزیت سے اس میں شعور پیدا ہو گیا۔ اس شعور نے جواباً۔۔۔۔۔۔’’بلیٰ‘‘ کہہ کر اللہ کریم کے رب ہونے کا عہد کیا۔
پہلی حرکت یہ تھی کہ موجودات کے ہر فرد کو صرف اتنا احساس تھا کہ میں ہوں۔ کہاں ہوں، کیا ہوں اور کس طرح ہوں اس کا کوئی احساس اسے نہیں تھا۔
اللہ کریم نے موجودات کو جب مخاطب کر کے رب کی حیثیت سے اپنا تعارف کرایا تو سب سے پہلے قوت سماعت پیدا ہوئی۔ موجودات نے سنا کوئی کچھ کہہ رہا ہے۔ پھر قوت بصارت وجود میں آئی اورمخاطب پر نگاہ پڑی، مخلوق نے دیکھا کہ کسی نے مجھے مخاطب کیا ہے اور مخاطب اپنا تعارف رب کی حیثیت سے کرا رہا ہے۔ ذات باری تعالیٰ پر نظر پڑتے ہی قوت ناطقہ متحرک ہوئی اور
مخلوق نے کہا:
’’جی ہاں! ہم آپ کی ربانیت کے سائے میں اس بات کا عہد کرتے ہیں کہ آپ ہمارے رب ہیں۔‘‘
اس مقام پر مخلوق کثرت سے متعارف ہو گئی۔ ہر مخلوق نے محسوس کر کے دیکھ لیا کہ میرے سوا اور بھی مخلوق ہے۔
لوح محفوظ کا قانون ہمیں بتاتا ہے کہ ازل سے ابد تک صرف لفظ کی کارفرمائی ہے۔ حال، مستقبل اور ازل سے ابد تک کا درمیانی وقفہ لفظ کے علاوہ کچھ نہیں ہے، کائنات میں جو کچھ ہے وہ سب کا سب اللہ کا فرمایا ہوا لفظ ہے۔ اسی لفظ یا اسم کی مختلف طرزوں سے نی نئی تخلیقات وجود میں آتی ہیں اور آتی رہیں گی۔ اللہ کا اسم ہی پوری کائنات پر محیط ہے۔ لفظ یا اسم کی بہت سی قسمیں ہیں۔ ہر قسم کے اسماء کا ایک سردار ہوتا ہے اور وہی سردار اسم اپنی قسم کے تمام اسماء کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔ اسی سردار اسم کو اسم اعظم کہتے ہیں۔
الفاظ یا اسماء کی حیثیت روشنیوں کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ ایک طرز کی جتنی روشنیاں ہیں ان کو کنٹرول کرنے والا اسم بھی ان ہی روشنیوں سے مرکب ہوتا ہے اور یہ اسماء کائنات میں موجود اشیاء کی تخلیق کے اجزاء ہوتے ہیں۔ مثلاً انسان کے اندر کام کرنے والے تمام تقاضوں اور حواس کو قائم رکھنے والا اسم ان تقاضوں اور حواس کا سردار ہوتا ہے اور یہی سردار اسم، اسم اعظم کہلاتا ہے۔
نوعِ جنات کے لئے الگ اسم اعظم ہے، نوع انسان کے اوپر الگ اسم اعظم کی حکمرانی ہے۔ نوع نباتات کے لئے الگ، نوع جمادات کے لئے الگ اور فرشتوں کے لئے الگ اسم اعظم ہے۔ کسی نوع سے متعلق اسم اعظم کو جاننے والا صاحب علم اس نوع کی کامل طرزوں، تقاضوں اور کیفیات کا علم رکھتا ہے۔
انسان کے اندر تمام تقاضے اور جذبات، دو قسم کے حواس میں کام کرتے ہیں۔ ایک طرح کے حواس خواب میں کام کرتے ہیں اور دوسری طرح کے حواس بیداری میں کام کرتے ہیں۔
تمام نوعوں پر تقریباً گیارہ ہزار اسمائے الٰہیہ کی حکمرانی ہے۔ ساڑھے پانچ ہزار اسمائے الٰہیہ بیداری میں کام کرتے ہیں اور ساڑھے پانچ ہزار خواب میں کام کرتے ہیں۔ انسان چونکہ تمام مخلوق میں افضل حیثیت کا حامل ہے۔ اس لئے اللہ کے قانون کے مطابق انسان کے اندر کام کرنے والا ہر اسم کسی دوسری نوع کے لئے اسم اعظم کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہی وہ اسماء ہیں جن کا علم اللہ کریم نے آدمؑ کو سکھایا ہے اور فرشتوں کے سامنے حضرت آدمؑ نے بیان کیا۔
اس علمی برتری اور تخلیقی اختیارات کی بناء پر فرشتوں نے حضرت آدمؑ کو سجدہ کیا۔ تکوین یا کائنات کے نظام (Administration) کو چلانے والے حضرات یا صاحبِ خدمت اپنے اپنے عہدوں کے مطابق ان ہی اسمائے الٰہیہ کا علم رکھتے ہیں۔
تخلیق میں کام کرنے والا پورا سسٹم نورانی بیلٹ پر قائم اور رواں دواں ہے۔
’’اللہ نور السمٰوٰت والارض‘‘
اور یہی نور لہروں کی شکل میں نباتات، جمادات، حیوانات، انسان، جنات، فرشتوں اور تمام اجزائے کائنات میں زندگی اور زندگی کی پوری تحریکات بن رہا ہے۔ پوری کائنات میں قدرت کا یہ فیضان جاری ہے کہ کائنات کا ہر فرد نور کی ان لہروں کے ذریعہ زنجیر کی کڑیوں کی طرح ایک دوسرے کے ساتھ جڑا ہے۔


Topics


Aap ke khwab aur unki tabeer jild 01

خواجہ شمس الدین عظیمی

آسمانی کتابوں میں بتایا گیا ہے کہ:

خواب مستقبل کی نشاندہی کرتے ہیں۔

عام آدمی بھی مستقبل کے آئینہ دار خواب دیکھتا ہے۔



 

 

  

 

انتساب


حضرت یوسف علیہ السلام کے نام جنہوں نے خواب سن کر مستقبل میں پیش آنے والے چودہ سال کے  حالات کی نشاندہی کی

اور

جن کے لئے اللہ نے فرمایا:

اسی طرح ہم نے یوسف کو اس ملک میں سلطنت عطا فرمائی اور اس کو خواب کی تعبیر کا علم سکھایا۔