Topics
حدیث نبوی صلی اللہ علیہ
و سلم ہے کہ ’’انبیاء کا ورثہ علم ہے۔‘‘ انبیائے کرام علیہم السلام کو علم لدنی
حاصل ہوتا ہے۔ اللہ کریم انہیں خصوصی علوم عطا فرماتے ہیں۔ ان علوم میں سے ایک علم
خواب کی تعبیر سے متعلق ہے۔ حدیث شریف میں ہے کہ خواب نبوت کا چھالیسواں حصہ ہے۔
امام سلسلہ عظیمیہ حضرت سید محمد عظیم برخیا قلندر بابا اولیاء رحمتہ اللہ علیہ نے
اس حدیث کی تشریح میں فرمایا کہ انبیائے کرامؑ نے علوم لدنیہ کی تدوین فرمائی تو
اس کے ابواب قائم کئے۔ خواب اور خواب کی تعبیر کا علم ان علوم کا چھیالیسواں باب
ہے۔ علم لدنی کے باس باب میں یہ بات علیم کی جاتی ہے کہ خواب کیا ہے اور انسان
خواب میں کن روایات و کیفیات سے گزرتا ہے نیز خواب کی صلاحیتوں اور قوتوں کا
استعمال اسی باب کا حصہ ہے۔
علم روحانیت کے مطابق
خواب ایک ایسی ایجنسی ہے جس کے ذریعے کشف و الہام کی ابتداء ہوتی ہے۔ حقائق کا کشف
اور غیب کا انکشاف خواب کی صلاحیت کے ذریعے واقع ہوتا ہے۔ قرآن مجید میں حضرت یوسف
علیہ السلام کے قصہ میں اس بات کی طرح واضح اشارہ موجود ہے۔ نبی کریم صلی اللہ
علیہ و سلم کی زندگی میں بھی بہت سے واقعات خواب کی اہمیت کو واضح کرتے ہیں۔
آپﷺ کا معمول تھا کہ نماز
فجر کے بعد صحابہ کرامؓ سے ان کے خواب پوچھتے اور ان کی تعبیر عنایت فرماتے تھے۔
انبیائے کرام علیہم السلام کے وارث اولیاء اللہ کو خواب کا علم انبیاء سے منتقل
ہوتا ہے۔ ایک ایسے ہی ولی کامل امام سلسلہ عظیمیہ قلندر بابا اولیاء رحمتہ اللہ
علیہ ہیں۔ ۱۹۶۹ء
میں علم روحانیت کو عام کرنے کے لئے میں نے اخبارات میں روحانی مضامین لکھنے کا
سلسلہ شروع کیا۔ روحانی مضامین کے ساتھ ساتھ لوگوں کے خواب اور ان کی تعبیر شائع
ہوئی۔ اس وقت یہ علم عوامی سطح پر سامنے آیا اور ایک ایسا ذریعہ پیدا ہوا جس سے ہر
شخص فائدہ اٹھا سکے۔ چنانچہ روزنامہ جنگ، جسارت، حریت، مشرق اور روحانی ڈائجسٹ کے
ذریعے ہزاروں لوگوں کے خواب اور ان کی تعبیر پیش کی گئی۔
خواب کی تعبیروں کے ذریعے
لوگوں کے مسائل کا حل، مستقبل کا انکشاف، امراض کی نشاندہی کے لئے قلندر بابا
اولیاء کے مشورے روحانیت کی تاریخ کا ایک نادر اور منفرد باب ہے۔ اللہ کا بہت بڑا
کرم ہے کہ آپ کی تحریریں آنے والی نسلوں کے لئے محفوظ ہیں۔ ان تحریروں کو پڑھ کر
روح میں سرشاری اور قلب میں وجدان کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔ شاعر نے کیا خوب کہا
ہے:
نہ تخت و تاج میں، نہ لشکر و سپاہ میں ہے
جو بات مرد قلندر کی
بارگاہ میں ہے
حضرت قلندر بابا اولیاء
رحمتہ اللہ علیہ خواب سے متعلق ایک خط کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں:
لوح محفوظ سے ایک نور آتا
ہے وہ اس طرح پھیلتا ہے کہ ساری کائنات اس کی گرفت میں ہوتی ہے۔ اس کے پھیلنے کی
طرزیں کسی ایک سمت میں نہیں ہوتیں بلکہ ہر سمت میں ہوتی ہیں۔ اسی بات کو دوسرے
الفاظ میں اس طرح کہیں گے کہ اس نور کے پھیلنے کی کوئی سمت نہیں ہوتی۔ اب تم سمت
نہ ہونے کا مطلب سمجھ لو کہ سمت نہ ہونا کیا چیز ہے اور نور کا تمام سمتوں میں
پھیلنا کیا معنی رکھتا ہے۔ یہ ساری باتیں قرآن پاک میں بالتصریح اللہ تعالیٰ نے
ارشاد فرمائی ہیں۔ افسوس یہ ہے کہ ان ارشادات کو متشابہات کہہ کر نظر انداز کر دیا
گیا ہے۔ تحریر میں زیادہ گنجائش نہیں ہے۔ صرف ایک مثال دے کر میں تمہیں بتانا
چاہتا ہوں۔
اس مثال پر غور کرو۔
چند خلاء باز خلاء میں جا
چکے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ سو(۱۰۰)
میل سے زیادہ بلندی پر ایک تو بالکل بے
وزنی کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ دوسرے یہ کہ زمین یا تو بالکل گول یا تقریباً گول
نظر آتی ہے۔ ایک نے کہا کہ گیند نما نظر آتی ہے۔ تم نے خود بھی مشاہدہ کیا ہے کہ
پپیتہ کی صورت ہے۔ اب صحیح صورتحال سمجھنا چاہو تو یہ نظر آئے گا یا یہ محسوس ہو
گا یا یہ حقیقت منکشف ہو گی کہ ساڑھے تین ارب انسان اور چلنے پھرنے والے چوپائے سب
کے سب ٹانگوں کے بل لٹکے ہوئے ہیں۔ ہر انسان یہ کہتا ہے کہ میں زمین پر پیروں کے
بل چل رہا ہوں۔ سمجھ لو کہ وہ کتنی غلط بات کہہہ رہا ہے۔ جب سے نوع انسانی آباد ہے
وہ تمام لوگ جن پر حقیقت منکشف نہیں ہوئی یہی کہتے ہیں، یہی سمجھتے ہیں۔ غو رکرو
کہ جب آدمی پیروں کے بل لٹک رہا ہے تو چل کیسے سکتا ہے۔ لٹکنے کی حالت تو بالکل
جبری ہے۔ اس کا یہ کہنا کہ میں چل رہا ہوں سراسر غلط ہے۔ جبری حالت میں اس کا
ارادہ بے معنی ہے۔ اس لئے کہ اس کی اپنی کوئی حرکت ممکن نہیں۔ یہ بات تو قرین قیاس
ہے کہ جن تاروں میں اس کے پیر بندھے ہوئے ہیں وہ تار حرکت کرتے ہیں اور ان کے ساتھ
پیر بھی حرکت کرتے ہوں۔ ان تاروں سے انسان کے ارادے کا کیا تعلق جب کہ انسان کو ان
تاروں کا علم ہی نہیں۔ باوجود اتنی صریح غلطیوں کے وہ دعویٰ کرتا ہے کہ میرا سر
بلندی کی طرف ہے اور میرے پیر پستی کی طرف، اور میں چلتا پھرتا ہوں۔ واقعہ یہ ہے
کہ اس نے اپنے آپ کو ایک بنوانا بنا لیا ہے اور کہتا ہے کہ یہ بنوا حقیقت ہے۔
دراصل نہ کوئی سمت ہے، نہ
انسان حرکت کرنے کی قدرت رکھتا ہے۔ ہاں صرف نیت کر سکتا ہے چنانچہ اس نے اپنی نیت
ہی لاشمار دعوے جمع کر لئے ہیں انسان کے باقی تمام دعوؤں کا اس ہی دعوے پر قیاس کر
لو۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں ہر مشاہدہ کو رد کیا ہے۔ جگہ جگہ فرمایا ہے ’’تم
نہیں سمجھتے ایسا ہے، ایسا ہے اور تم نہیں دیکھتے۔‘‘ ایک جگہ فرمایا ہے ’’تم
دیکھتے ہو پہاڑ اور گمان کرتے ہو کہ یہ جم رہے ہیں۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے جس چیز کو
قرآن پاک میں غیب فرمایا ہے وہ انسان کا غیب ہے، اللہ کا غیب نہیں ہے۔ ظاہر ہے کہ
جب وہ اللہ کے لئے غیب نہیں ہے تو اللہ کے لئے حضور ہے۔ جو اللہ کا حضور ہے وہ
حقیقت ہے جو انسان پر منکشف نہیں ہے۔ اس لئے جو اس کا مشاہدہ ہے وہ حقیقت نہیں ہے۔
اس ہی لئے غلط ہے۔ بریں سبب ہر مشاہدہ کو رد کیا ہے۔ اب ساری حقیقیت علم حضوری ہے۔
یہ علم حضوری اللہ کی طرف سے ملتا ہے، جس کو اللہ تعالیٰ توفیق عطا فرمائیں۔ قرآن
پاک میں اس کی بھی وضاحت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ’’جس نے ہمارے لئے جہد کیا
ہے، ہم اس پر اپنی راہیں کھول دیتے ہیں۔‘‘ قرآن پاک میں اس کی کئی مثالیں ملتی
ہیں۔
ملکۂ سبا کے قصے میں ہے
جب سلیمان علیہ السلام نے کہا اپنے درباریوں سے کہ تم میں سے کون اس کا تخت جلدی
لا سکتا ہے تو جنات میں سے ایک نے کہا کہ جتنی دیر میں آپ دربار برخاست کریں، میں
تخت حاضر کر دوں گا۔
دوسری آیت میں اللہ تعالیٰ
فرماتے ہیں:
’’ایک دوسرے شخص نے کہا
پلک جھپکنے بھی نہ پائے گی کہ تخت یہاں موجود ہو گا۔۔۔۔۔۔اور تخت آ گیا۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے اس شخص کی
خصوصیت بتائی ہے کہ وہ کتاب کا علم رکھتا تھا۔ جتنے صحائف آسمانی ہیں، اللہ تعالیٰ
ان سب کو کتاب کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ ان میں قرآن بھی ہے۔ چنانچہ قرآن میں یہ
علم موجود ہے جیساکہ اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا ہے اور بار بار قرآن کو کتاب کے
نام سے موسوم کیا ہے۔ جو قرآن نہیں سمجھتے وہ جو بھی چاہیں کہیں۔ ان کی زبان کون
پکڑ سکتا ہے۔ لیکن قرآن خودان کی تردید کرتا ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ تم عربی پڑھو
اور قرآن کو قرآن کے الفاظ میں سمجھو۔ بغیر کسی تاویل اور بغیر کسی اثر کے بالکل
غیر جانبدار ہو کر، اس تصور سے کہ اللہ تعالیٰ کیا فرماتے ہیں۔ جہاں تک سمجھنے کا
سوال ہے، اللہ تعالیٰ نے خود وعدہ فرمایا ہے کہ میں نے تمہارے لئے قرآن کا سمجھنا
آسان کر دیا ہے۔ ہے کوئی سمجھنے والا؟
یہ صلائے عام ہے۔ سورۃ
قمر میں چار مرتبہ یہ بات کہی گئی ہے۔
آمدم برسر مطلب۔ تم یہ
بات سمجھ گئے ہو گے کہ سمت کوئی چیز نہیں ہے۔ یہ انسان کی اپنی مفروضہ اور قیاس
کردہ ہے۔ جیسا کہ اوپر بیان ہوا ہے کہ علم حضوری کے علاوہ کوئی علم موجود نہیں ہے۔
انسان کا حافظہ اتنی وسعت نہیں رکھتا کہ علم حضوری کی کسی ایک طرز کو بھی اپنے
اندر محفوظ کر لے۔ چنانچہ لوح محفوظ سے پھیلنے والا نور انسان کو اطلاعات فراہم
کرتا ہے تو آدمی اپنی غرض اور مطلب برآری کے نقطۂ نظر سے کام لے کر ان اطلاعات کو ۹۹۹ فی ہزار تو رد کر
دیتا ہے۔ ایک فی ہزار کو مسخ کر کے توڑ مروڑ کر حافظہ میں رکھ لیتا ہے۔ یہی مسخ
شدہ اور بگڑے ہوئے خدوخال اس کے تجربات کا، مشاہدات کا، عادات اور حرکات کا سانچہ
بن جاتے ہیں ۔ اب جتنی اطلاعات وہ اخذ کرتا ہے، ان ہی سانچوں میں ڈھلتی چلی جاتی
ہیں۔ یہ ہے انسان کا تمام کارنامہ اور اس کی معین کردہ اور فرض کردہ سمتیں،
فارمولے اور اصول۔ اس ہی خرافات کے بارے میں وہ بار بار یہ کہتا رہتا ہے کہ یہ ہے
میرا تجربہ، یہ ہے مشاہدہ، یہ ہے علم طبعی۔
تمہارے ذہن میں یہ بات تو
آ گئی کہ جو نور پوری کائنات میں پھیلتا ہے اس میں ہر قسم کی اطلاعات ہوتی ہیں۔ جو
کائنات کے ذرہ ذرہ کو ملتی ہیں۔ ان اطلاعات میں چکھنا، سونگھنا، سننا، دیکھنا،
محسوس کرنا، خیال کرنا، وہم و گمان وغیرہ وغیرہ زندگی کا ہر شعبہ، ہر حرکت، ہر
کیفیت کامل طرزوں کے ساتھ موجود ہوتی ہے۔ ان کو صحیح حالت میں وصول کرنے کا طریقہ
صرف ایک ہے۔۔۔۔۔۔
’’انسان ہر طرز میں، ہر
معاملہ میں، ہر حالت میں کامل استغنیٰ رکھتا ہو۔‘‘
مسخ کرنے والی اس کی اپنی
مصلحتیں ہوتی ہیں۔ جہاں مصلحت نہیں ہے، وہاں استغنیٰ ہے، غیر جانبداری ہے اور اللہ
کا شعار ہے۔
اب
جو حرکت ہوتی ہے وہ پوری کائنات کو محیط ہے اور پوری کائنات میں عمل کرتی ہے۔
اس چیز کو پھر ایک دفعہ
سمجھ لو۔ یہ کوئی باریک بات نہیں ہے۔ صرف توجہ ضروری ہے۔
انسان کی ذاتی مصلحتیں
اپنے لئے نور کی شاعوں کو محدود کر لیتی ہیں۔ یہ محدود شعاعیں اپنا کائناتی عمل
ترک نہیں کر سکتیں۔ وہ جاری رہتا ہے۔ اب انسان کا ایک باطل تصور جو اس نے شعاعوں
سے وابستہ کر لیا ہے، غلط امیدیں بن جاتا ہے۔ یہی ناکامی ہے۔ یہی انسانی مصیبت ہے۔
سیدھی سادی بات ہے کہ جس نور کا تعلق ساری کائنات سے وہ ایک فرد واحد کے لئے کیسے
مخصوص ہو سکتا ہے۔ انسان اگر ذاتی اغراض کی قید و بند میں مبتلا نہیں ہے تو ان
شعاعوں کو پوری کائنات پر محیط دیکھتا اور محیط سمجھتا ہے۔ چنانچہ شعاعوں کا اور
اس کے زاویہ نظر کا ایک خاص ارتباط قائم ہو جاتا ہے۔ یہ ارتباط وہ شئے ہے جو اللہ
کے قانون کے زیر اثر شعاعوں کے لئے محل وجہ ہے۔ اب اس کے مفاد کا تحفظ شعاعیں خود
کرتی ہیں۔ اس کا یہ مطلب ہوا کہ اگر وہ کہے ’’دن‘‘ تو شعاعوں کو دن پیدا کرنا پڑے
گا۔ اگر وہ کہے ’’رات‘‘ تو شعاعوں کو رات تخلیق کرنا پڑے گا۔ اللہ کا شعار شعاعوں
کو اس بات کا حکم دیتا ہے کہ وہ دو سنتیں پوری کریں۔۔۔۔۔۔ایک کائنات کے لئے عمل
کرنا، دوسری اس فرد کے مفاد میں عمل کرنا جس نے ان شعاعوں سے ارتباط قائم کیا ہے۔
جس وقت حضرت اویس قرنیؓ اور حضرت عمرؓ کی ملاقات ہوئی تو حضرت عمرؓ نے حضرت اویس
قرنیؓ سے درخواست کی تھی کہ آپ مجھے کچھ نصیحت کریں۔ اس پر حضرت اویس قرنیؓ نے دو
سوال کئے۔۔۔۔۔۔
۱۔
’’یا عمرؓ! آپ اللہ کو جانتے ہیں؟‘‘
انہوں نے جواب دیا۔
’’ہاں! میں اللہ کو جانتا ہوں۔‘‘
۲۔
’’یا عمرؓ! اللہ بھی آپ کو جانتا ہے؟‘‘
جواب دیا۔’’اللہ بھی مجھے
جانتا ہے۔‘‘
ان دونوں باتوں کا مطلب
بالکل واضح ہے صرف یہ کافی نہیں ہے کہ انسان اللہ کی راہ میں قدم اٹھائے اور کام
پورا ہو جائے۔ وہاں یہ دیکھنا ضروری ہے کہ قدم صرف اللہ کے لئے اٹھایا گیا ہے یا
اور بھی مصلحتیں شامل ہیں۔ اس میں جنت بھی ایک مصلحت ہے اور بہت سی نیکیاں بھی
مصلحت ہیں۔ اللہ تعالیٰ کسی کو اس وقت تک نہیں پہچانتا جب تک کہ مقصد صرف اللہ کی
ذات نہ ہو۔ اگر ایک آدمی کا مقصد جنت ہے تو جنت اسے جانتی ہے۔ کہتی ہے ’’آؤ،
لبیک‘‘۔ یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ روحانیت میں اللہ کے ساتھ کوئی دوسرا مقصد،
کوئی دوسری غایت شریک کرنا کفر ہے۔
تم نے جو خواب لکھا ہے اس
کے الفاظ یہ ہیں:
’’میں آپ کے قدموں میں
بیٹھا رو رہا ہوں اور کہہ رہا ہوں کہ حضور! میری اماں کہاں گئی۔ میری اماں مجھے لا
دو۔‘‘
اطلاع کے تین حصے ہیں۔ ایک حصہ میری صورت ہے۔ دوسری حصہ تمہاری اپنی صورت ہے۔
تیسرا حصہ اماں ہیں جو موجود نہیں ہیں۔ اطلاع کا انکشاف ہوتا ہے یہاں سے کہ تم ایک
جگہ ہو۔ اس جگہ تمہاری حیثیت ایک ایسے سوال کی ہے جو بہت سے سوالات کا مجموعہ ہے۔
اس مجموعہ کا نام ہے اماں یعنی زندگی کے بہت سے راستے جس نقطہ سے شروع ہوتے ہیں
اور انسان یہ طے نہیں کر سکتا کہ مجھے کن راستوں پر سفر کرنا ہے۔ قدرتاً ماں کی
پوزیشن یہی ہے کہ وہ زندگی کو ایک ایسے نقطے پر لا کھڑا کر دیتی ہے جہاں سے زندگی
کا سفر شروع ہوتا ہے۔ راستے لاشمار ہیں۔ انسان کے سامنے یہ مرحلہ ہے کہ وہ جس
راستہ پر سفر شروع کرے کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ راستہ غلط ثابت ہو جائے اور اسے
ناکامیوں کا منہ دیکھنا پڑے۔ یہاں وہ اپنی روح سے رہنمائی چاہتا ہے لیکن روح کو
کسی روپ میں مشکل دیکھتا ہے کیونکہ اسے ہر شئے کو مشہود بنا کر دیکھنے کی عادت ہے۔
جن دنوں میں تم نے یہ خواب دیکھا ہے، ان دنوں میں ایسے خیالات کا زیادہ زور اور
دباؤ رہا ہے۔ مذکورہ بالآخر خواب ۱۹ جون کا ہے۔ ذہن پر یہ کیفیت ہفتوں
پہلے سے مسلط تھی۔ اس کا جواب روح ۷ جون کو خواب میں دے چکی ہے۔ جو خواب تم نے
۷
جون کو دیکھا ہے اس میں مذکورہ سوالات کا پورا جواب موجود ہے۔ یعنی مستقبل میں
اللہ کی طرف سے معاونت کا بندوبست ہو گا۔ غیب سے ایسا پروگرام بن جائے گا جو آئندہ
زندگی کو کامیاب بنانے کا ضامن ہے۔ ہر چیز بروقت ہوتی جائے گی۔ واضح طور پر اس
خواب میں سب چیزیں موجود ہیں۔
Aap ke khwab aur unki tabeer jild 01
خواجہ شمس الدین عظیمی
آسمانی کتابوں میں
بتایا گیا ہے کہ:
خواب مستقبل کی
نشاندہی کرتے ہیں۔
عام آدمی بھی
مستقبل کے آئینہ دار خواب دیکھتا ہے۔
انتساب
حضرت یوسف علیہ السلام کے نام جنہوں نے خواب سن کر
مستقبل میں پیش آنے والے چودہ سال کے حالات
کی نشاندہی کی
اور
جن
کے لئے اللہ نے فرمایا:
اسی طرح ہم نے یوسف کو اس ملک میں سلطنت عطا فرمائی اور
اس کو خواب کی تعبیر کا علم سکھایا۔