Topics
فزکس اور سائیکالوجی کے
بعد پیراسائیکالوجی بھی ایک علم ہے جو نفس انسانی کی ان صلاحیتوں سے متعلق ہے جن
کا دائرۂ کار حواس خمسہ اور مادی قابل پیمائش مقداروں سے الگ ہے۔ مثلاً ٹیلی پیتھی
میں کون سی لہریں کام کرتی ہیں، غیب بینی میں کون سی نظر کام کرتی ہے یا خواب میں
کون سا جسم کام کرتا ہے۔
سائنس کی بہت بڑی کمزوری
یہ ہے کہ تاحال روشنی (Electro Magnetic
Spectrum) سے تیز رفتار توانائیوں کی پیمائش کے لئے
اس کے پاس کوئی یقینی پیمانہ نہیں ہے۔ سائنس دان سائنس کی اس کمزوری سے بخوبی واقف
ہیں۔ اسی بناء پر پیراسائیکالوجی میں کام کرنے والی توانائیوں کی مقداریں اور
توانائیوں کے پس پردہ کام کرنے والے اصول و ضوابط سائنس کی پہنچ سے باہر ہیں۔
جب سے دنیا بنی ہے کوئی
انسان نیند پر غلبہ حاصل نہیں کر سکا ہے۔ نیند کا مطلب ہی یہ ہے کہ انسان خواب
دیکھتا ہے۔ خواب سائنس دان بھی دیکھتے ہیں۔ یہ ایسی حقیقت ہے کہ اس سے کوئی انکار
نہیں کر سکتا۔ سائنسدانوں نے خوابیدہ دنیا اور پیراسائیکالوجی کو بھی سائنس کی
باقاعدہ برانچ تسلیم کروانے کی پرزور سفارشات کی ہیں۔ ان سفارشات کی بنیاد پر ۱۹۶۰ء میں امریکہ کی
سب سے بڑی سائنسی اتھارٹی نے پیراسائیکالوجی کو سائنس کی باقاعدہ برانچ تسلیم کر
لیا ہے۔ دوسری طرف روس میں تقریباً ۵۰ سال سے پیراسائیکالوجی کو باقاعدہ
سائنس تسلیم کرتے ہوئے اس کے مختلف عوامل پر سائنسی تحقیقات ہو رہی ہیں۔ دونوں بڑی
طاقتوں کے درمیان سرد جنگ کے دوران پیراسائیکالوجی میں سبقت لے جانے کی جنگ پورے
زوروں پر تھی اور اب بھی دنیا کے اکثر ترقی یافتہ ممالک میں ایسی تحقیقات عوام
الناس سے خفیہ رکھی جا رہی ہیں کیونکہ ان کا بہت بڑا حصہ فوجی اور جاسوسی مقاصد کے
لئے استعمال ہوتا ہے۔ بہرحال تقریباً ۳۵ سال سے امریکہ، برطانیہ، جرمنی،
فرانس، جاپان اور دوسرے ترقی یافتہ ممالک کی اکثر بڑی بڑی یونیورسٹیوں میں
پیراسائیکالوجی پر تحقیقات کے باقاعدہ شعبہ جات قائم ہیں۔ خواب اور خواب کی پوری
دنیا پیراسائیکالوجی کا ایک مکمل بات ہے جو نفس انسانی کی ان کارگزاریوں کے زمرے
میں آتا ہے جس میں کام کرنے والے حواس تا حال سائنس کے پیمائشی پیمانوں سے باہر
ہیں۔ مگر جسم انسانی پر اس مخصوص حالت میں جو طبعی اثرات مرتب ہوتے ہیں وہ قابل
ستائش ہیں۔ اس بناء پر گزشتہ ۲۵۰ سے زائد آزادانہ تحقیقات ہو چکی ہیں۔
پہلی طرح کی تحقیقات کسی
شئے یا عمل کی موجودگی کی تصدیق یا تردید کرنے کے لئے کی جاتی ہے۔
دوسری قسم کی تحقیقات کسی
شئے یا عمل کی موجودگی تسلیم کرتے ہوئے اس کے پس پردہ میکانزم کا پتہ لگانے کے لئے
کی جاتی ہے۔
جیسا کہ بیان کیا جا چکا ہے کہ سائنس کے پاس کسی بھی مخصوص حالت یا عمل کی پہچان
کے لئے کوئی نہ کوئی پیمائشی پیمانہ ہونا ضروری ہے۔ اس لئے سائنس دانوں نے خوابوں
کی پہچان کے لئے جسم انسانی میں ہونے والی تبدیلیوں کے مطالعہ کے لئے آلات استعمال
کئے ہیں جو جسم میں ہونے والی خفیف ترین تبدیلیوں کی بھی خبر دیتے ہیں، جن سے ہم
عموماً بے خبر رہتے ہیں۔
روزمرہ زندگی میں ہم اپنے
آپ کو جانچنے کے لئے ایک آلہ بکثرت استعمال کرتے ہیں جو آئینہ کہلاتا ہے۔ آئینہ Bio
Feed Backکی آسان ترین مثال ہے۔ جس میں دیکھ کر
ہمیں معلوم ہوتا رہتا ہے کہ فی الوقت ہم کیسے ہیں اور ہمیں اپنی حالت بہتر بنانے
کے لئے کیا کرنے کی ضرورت ہے۔
شعور انسانی (Consciousness) جسم کو اپنی ضروریات کے مطابق مختلف طریقوں سے استعمال کرتا رہتا
ہے۔ جسم (بشمول دماغ) کبھی حالت جنگ میں ہوتا ہے کبھی حالت امن میں ہوتا ہے۔ کبھی
بے سکونی و پریشانی میں ہوتا ہے، کبھی سکون و اطمینان میں ہوتا ہے۔ کبھی بیدار
ہوتا ہے اور کبھی نیند میں ہوتا ہے۔ ان سب حالتوں میں جسم میں جو طبعی تبدیلیاں
واقع ہوتی ہیں وہ ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ مثلاً حالت بیداری میں دل کی دھڑکن نظام
تنفس، رگوں اور پٹھوں کا کھچاؤ، جسم کا درجہ حرارت اور دماغ میں چلنے والے برقی
کرنٹ کا پیٹرن نیند کی حالت کے برعکس ہے۔ اسی طرح ہر حالت کے طبیعی پیٹرن مختلف
ہوتے ہیں۔ سائنسدانوں نے مختلف مشینوں کے استعمال سے بیداری اور اس کی تمام
حالتوں، نیند اور اس کے درجات کی مختلف حالتیں تلا ش کی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ
جب کبھی جسم پر کوئی مخصوص طبعی پیٹرن طاری ہوتا ہے تو انسان اس سے متعلقہ شعوری
کیفیت میں سفر کرتا ہے یا کوئی مخصوص شعوری کیفیت طاری کرنے کے لئے جسم پر کسی نہ
کسی طرح اس سے منسلکہ طبعی پیٹرن قائم کرنا پڑے گا۔ لہٰذا Bio
Feed Backکا کردار اس بات کا اہتمام کرتا ہے کہ
ہم شعوری طور پر ان عوامل کو کنٹرول کر سکیں جو جسم میں غیر شعوری طور پر رونما
ہوتے ہیں۔
یوں تو جسم میں طبعی
تبدیلیوں کی پیمائش کے لئے سائنس بہت سارے آلات استعمال کرتی ہے مگر Bio
Feed Backمیں
و چند آلات استعمال کئے
جاتے ہیں ان کا مختصر سا تعارف پیش کیا جاتا ہے۔
۱۸۷۵ء
میں دریافت کر لیا گیا تھا کہ بندروں اور خرگوشوں کے دماغ میں خفیف برقی کرنٹ چلتا
ہے۔ ۱۹۲۴ء
میں انسانی دماغ میں چلنے والی برقی کرنٹ کی پیمائش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اسی
سال کے آخر میں ایک جرمن سائنس دان نے معلوم کیا کہ انسانی دماغ میں چلنے والا
برقی کرنٹ کھوپڑی کے اوپر سے بھی ناپا جا سکتا ہے اور اس نے جو آلہ اس کام کے لئے
ایجاد کیا اسے Electro Encephalo Gramکا
نام دیا گیا جسے مختصراً E.E.Gکہتے
ہیں۔ اب اس آلے کی بہت ترقی یافتہ قسمیں موجود ہیں۔ جن سے دماغ میں چلنے والی خفیف
ترین برقی رو (Brain Wave)
بھی ناپی جا سکتی ہے۔ اس آلے کی بہت ساری تاریں کھوپڑی سے چپکائی جاتی ہیں۔۔۔۔۔۔
بیداری، نیند، خواب اور خواب سے ملتی جلتی حالت مراقبہ میں یہ آلہ مختلف قسم کے
کرنٹ دکھاتا ہے۔ بہت ساری جسمانی و دماغی بیماریوں کا سراغ دماغی برقی رو کی حرکت
کے ذریعے لگایا جا سکتا ہے۔
یہ آلہ ہتھیلیوں اور
تلوؤں کی جلد پر چلنے والی برقی کرنٹ کی مزاحمت ناپتا ہے اور اس کے ذریعے آسانی سے
معلوم کیا جا سکتا ہے کہ
دمی کتنا بیدار اور چاق و
چوبند ہے۔ کتنا نیند میں ہے یا کتنا سست اور کتنا پر سکون ہے۔
ہ آلہ جسم پر درجہ حرارت
کی اطلاع فراہم کرتا ہے۔ درجہ حرارت کی کمی بیشی بھی سکون و بے سکونی کا باعث بنتی
ہے۔
یہ آلہ اعصاب، رگوں اور
پٹھوں سے منسلک برقی لہریں ناپتا ہے اور بتاتا ہے کہ اعصاب کتنے پر سکون (Relaxed) اور کتنے کھچاؤ(Tense) کی حالت میں ہیں۔ بیداری اور بیداری کی مختلف حالتوں میں رگ و
پٹھے بیرونی حالات سے نبرد آزما ہونے اور جسمانی ڈھانچے کو سنبھالنے کے لئے کھنچے
اور تنے رہتے ہیں۔ جبکہ پر سکون حالتوں میں بہت ہی نرم اورڈھیلے ہوتے ہیں۔ نیند
اور خواب کی حالتوں میں یہ اعصاب ریشم کی طرح نرم و ملائم ہو جاتے ہیں۔
دماغ میں چلنے والے برقی
کرنٹ کو عموماً چار گروپوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔
۱۔ :Beta
Brain Waves
یہ لہریں بیداری میں
انسان پر غالب ہوتی ہیں اس وقت ذہن و جسم پوری طرح بیرونی دنیا میں متحرک ہوتے ہیں
اور مختلف قسم کے مادی وسائل سے آدمی نبرد آزما ہوتا ہے۔ غم و پریشانی کی حالتوں
میں یہ لہریں بہت بڑھ جاتی ہیں۔ اکثر نفسیاتی امراض میں یہ لہریں بہت بڑھی ہوئی
ہوتی ہیں۔
۲۔:Alpha
Brain Waves
جس وقت انسانی دماغ ان
لہروں سے ہم آہنگ ہوتا ہے اس وقت آدمی پر سکون ہوتا ہے اور دھیان بیرونی دنیا سے
ہٹ کر اندرونی دنیا کی طرف ہوتا ہے۔ آنکھیں بند ہوتی ہیں۔ آنکھیں کھولنے یا ذہن
میں ذرا سی پریشانی سے یہ لہریں غائب ہو جاتی ہیں اور اگر پریشانی اور بے سکونی
موجود رہے تو یہ پیدا ہی نہیں ہوتیں۔ جب انسانی ذہن ہر قسم کے خیالات سے بالکل خالی
ہو جاتا ہے تو دماغ میں خالص الفا لہریں خاصی مقدار میں موجود ہوتی ہیں۔ یہ لہریں
لاشعور کی طرف جانے کا دروازہ ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ جینئیس (Genius) لوگ اس ہی حالت میں نئی نئی ایجادات کرتے ہیں۔
۳۔
:Theta Brain Waves
یہ لہریں روحانی لحاظ سے
بہت ہی پراسرار ہیں جو نیند گہری ہوتے ہیں دماغ میں چلنا شروع ہو جاتی ہیں۔ ان
لہروں اور الفا لہروں کے اشتراک سے ذہن خواب دیکھتا ہے۔ گہرے لاشعوری علوم اور
جذبات و احساسات تک رسائی انہی لہروں کے دماغ پر طاری ہونے کے بعد ہوتی ہے۔ اس لئے
یہ یادداشت اور تحقیق و مطالعہ کے معاملات کے لئے بہت اہم ہیں۔
۴۔
:Delta Brain Waves
یہ لہریں گہری ترین نیند
میں دماغ پر غالب ہوتی ہیں۔ یہ حالت لاشعور کی گہری ترین حالت ہوتی ہے۔ نیند کی اس
حالت میں دن کے دوران ہونے والی تمام جسمانی ٹوٹ پھوٹ کی مرمت ہوتی ہے۔ اس حالت
میں بھی بہت سارے ماورائی واقعات پیش آتے ہیں۔
شعور(Consciousness)
جسم سے کام لینے کے لئے اس جسم پر نصب ایک آلے سے کام لیتا ہے وہ آلہ گو کہ وزن کے
لحاظ سے جسم کا صرف ۲
فیصد ہوتا ہے مگر اس کی ساخت بہت پیچیدہ ہے۔ اس آلے کو ہم دماغ کے نام سے جانتے
ہیں۔ ماہرین کے لئے یہ بات معمہ بنی ہوئی ہے کہ ذہن (Mind)، دماغ(Brain) کی پیداوار ہے یا دماغ ذہن کے ماتحت ہے۔ یہ اس لئے کہ زندگی میں
ذہن و جسم اس قدر مل جل کر کام کرتے ہیں کہ سمجھ میں نہیں آتا کہ کون کس کے ماتحت
ہے۔ لیکن یہ بات مسلمہ ہے کہ ذہن و دماغ دونوں الگ الگ چیزیں ہیں۔ اس کی مثال
کمپیوٹر سے دی جا سکتی ہے۔ کمپیوٹر پروگرام(Soft
Ware) کمپیوٹر کا ذہن ہے اور کمپیوٹر کی چپ(Chip) اور دوسرا ضروری ڈھانچہ (Hard Ware) کمپیوٹر کا دماغ ہے۔ کمپیوٹر سے کام لینے کے لئے دونوں کا ہونا
ضروری ہے۔
خواب میں بیداری کے عوامل
پر تحقیق کرنے والے ماہرین کی رائے یہ ہے ہم ذہنی و جسمانی لحاظ سے شب و روز ایک
خود کار نظام کے تحت تین بڑی حالتوں سے گزرتے ہیں۔
۱۔
بیداری
۲۔
نیند
۳۔
خواب
ان حالتوں کی تشریح وہ
مندرجہ ذیل پیرائے میں کرتے ہیں:
۱۔
بیداری (Awarefulness):
ایسی حالت جس میں ذہن و
جسم (بشمول دماغ ) پوری طرح مستعد اور ہر قسم کے بیرونی خطرات و حالات سے نمٹنے کے
لئے تیار ہوتے ہیں۔ وہ تمام مشاغل جو انسان بیداری میں کرتا ہے ان میں ذہنی و
جسمانی توانائی بہت خرچ ہوتی ہے۔
۲۔
نیند (Orthodox Sleep):
آدمی بیداری کے بے رحم
ہاتھوں سے شکست کھا کر جب نڈھال ہو جاتا ہے تو ایک خود کار نظام کے تحت نیند کی
آغوش میں چلا جاتا ہے۔ نیند کسی ایک یکساں حالت کا نام نہیں ہے بلکہ نیند کی
حالتوں پر ریسرچ کرنے والے ماہرین کے نزدیک نیند کے چار درجات ہیں۔
۱۔
ذہن اور جسم پرسکون ہونا
۲۔
نیند کی ابتداء
۳۔
گہری نیند
۴۔
بہت گہری نیند
ایک صحت مند آدمی رات بھر
ایک مخصوص روٹین سے ان درجات سے گزرتا رہتا ہے۔ نیند کے ابتدائی ایک تہائی حصہ میں
گہری ترین نیند غالب رہتی ہے۔ (نقشہ پر اسٹیج ۳ اور ۴) یعنی نیند کے وقفے
لمبے ہوتے ہیں اور خوابوں کے وقفے مختصر ہوتے ہیں۔ اگر ادویات وغیرہ سے اس روٹین
کو متاثر کر دیا جائے تو نیند کا فطری دورانیہ متاثر ہو جاتا ہے۔ جس کے اثرات جسم
اور ذہن دونوں پر ہوتے ہیں۔ نیند میں داخل ہوتے وقت انسان ایک ایسے وقفے سے گزرتا
ہے جس میں تھوڑی سی دیر کے لئے کچھ آوازیں سنائی دیتی ہیں یا خواب نما مناظر نظر
آتے ہیں۔
۳۔
خواب (Rapid Eye Movement - REM):
یہ حالت گو کہ نیند کے
دوران ہی پیش آتی ہے مگر اپنے مخصوص پیٹرن کی وجہ سے اسے ایک مستقل اور الگ حالت
قرار دیا گیا ہے۔ نیند جب اپنے گہرے ترین درجے سے واپس پلٹتی ہے تو ایک ترتیب سے
پہلے درجے میں آ کر عجیب و غریب حالت میں داخل ہو جاتی ہے۔ اس حالت میں آنکھوں کے
دیلے تیزی سے ادھر ادھر حرکت کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اسی لئے اس حالت کو (تصویر
کتاب صفحہ نمبر 119) REMیعنی
Rapid Eye Movementکا
نام دیا گیا ہے۔ نیند کو پہلی حالت سے REMتک
پہنچنے میں ۹۰
منٹ لگتے ہیں اور اسی طرح رات بھر ۹۰ منٹ کے وقفے سے آدمی خواب کی حالت سے
گزرتا رہتا ہے۔ نیند کے آخری تہائی حصے میں خوابوں کے وقفے لمبے ہو جاتے ہیں
کیونکہ نقشہ میں دکھائے گئے اسٹیج ۳ اور ۴ کی نیند اس وقت موجود ہی
نہیں ہوتی۔ ان محققین کے مطابق ہر رات خوابوں کا کل وقفہ ملا کر ۹۰ منٹ بنتا ہے۔ ایک صحت
مند آدمی ہر رات ۴
سے ۶
خواب دیکھتا ہے۔ نیند کے دوران خواب کا آنا آٹو میٹک عمل ہے۔ لہٰذا ہر آدمی نیند
میں چند خواب ضرور دیکھتا ہے۔ کچھ لوگ شکایت کرتے ہیں کہ عرصہ ہوا انہوں نے خواب
نہیں دیکھا۔ یہ بات سائنسی تحقیق سے غلط ثابت ہو چکی ہے۔ تجربے کے دوران دیکھا گیا
ہے کہ وہ لوگ بھی ہر رات ۴
تا ۶
خواب دیکھتے ہیں مگر انہیں خواب یاد نہیں رہتے اور خواب یاد نہ رہنے کی وجہ یہ ہے
کہ نیند کے ابتدائی (1/3) حصے میں خوابوں کے وقفے لمبے ہوتے ہیں اور نیند نقشہ میں
بتائے گئے اسٹیج ۱
یا ۲
میں ہوتی ہے۔ اکثر یاد رہنے والے خواب بیداری سے تقریباً ڈھائی گھنٹے کے اندر اندر
نظر آتے ہیں۔ خواب کے دوران انسان کا دایاں دماغ زیادہ متحرک ہوتا ہے اگر بایاں
دماغ بھی متحرک ہو جائے تو خواب یاد رہتے ہیں بصورت دیگر بھول جاتے ہیں۔ تحقیق کے
دوران کچھ لوگوں کو خواب دیکھنے سے روک دیا گیا۔ دیکھا گیا کہ ان لوگوں کی یادداشت
اور دوسری ذہنی صلاحیتیں بری طرح متاثر ہونا شروع ہو گئیں اور چند ہی دنوں میں وہ
لوگ ذہنی طور پر اتنے متاثر ہوئے کہ پاگلوں جیسی حرکتیں کرنے لگے۔ ماہرین کا کہنا
ہے کہ نیند جسمانی صحت کے لئے ضروری ہے کیونکہ نیند کے دوران جسم کے تمام ٹوٹے
پھوٹے خلیات کی جگہ نئے خلیات بنتے ہیں۔ جبکہ خواب ذہنی صحت کے لئے ضروری ہے۔
کیونکہ خواب کے دوران تمام شعوری اور لاشعوری انفارمیشن کا تبادلہ ہوتا ہے۔ اگر
خواب نظر آ نا بند ہو جائیں تو آدمی چند دنوں میں پاگل ہو کر مر سکتا ہے۔
ماہرین کے نزدیک خواب
دراصل نیند کی ساری حالتوں میں موجود ہوتے ہیں۔ مگر جس مخصوص حالت REMکو
خواب سے یقیناً منسلک کیا جا سکتا ہے وہ نیند کی ہلکی ترین حالت میں موجود ہوتی
ہے۔ خواب کے بھی کئی درجات ہیں، جو ڈراؤنے خوابوں سے لے کر کر اچھے روحانی اور سچے
خوابوں تک پھیلے ہوئے ہیں۔ تجربات سے یہ ثابت ہو چکا ہے کہ خواب دیکھنے والے کو
اگر کوئی اطلاع انسپائر کی جائے تو وہ اسے کسی نہ کسی خواب میں دیکھ لیتا ہے۔
دوران خواب گو کہ جسم پوری طرح ساکت و جامد ہوتا ہے، مگر دوران خون، دل کی دھڑکن،
تنفس اور دیگر غیر اختیاری عوامل خواب کے نظارے کے مطابق بالکل اسی طرح متحرک ہوتے
ہیں جس طرح بیداری میں خود کار نظام کے تحت کام کرتے ہیں۔ ذہنی تحریکات جب جسم میں
پھیل کر کام کرتی ہیں تو بیداری ہیں اور جب ذہنی تحریکات جسم سے آزاد ہو کر عمل
کرتی ہیں تو خواب ہیں۔
انسان اس وقت تاریخ کے
بیمار ترین دور سے گزر رہا ہے۔ جدید ترقی جس کا بظاہر مقصد تو آسانیاں فراہم کرنا
تھا لیکن اس ترقی نے انسان کو ظاہری اور باطنی طور پر بالکل نڈھال کر دیا ہے۔ اگر
ہم موجودہ معاشرتی زندگی کا مطالعہ کریں تومعلوم ہوتا ہے کہ مادی حرص و طمع کی دوڑ
میں انسان ہر وقت ٹینشن کا شکار رہتا ہے۔ انہی تفکرات میں اسے نیند بھی نہیں آتی۔
اس بے خوابی کو دور کرنے کے لئے وہ دوائیں کھاتا ہے تو وہ دوائیں نیند کے فطری
پیٹرن کو تباہ و برباد کر دیتی ہیں۔ جس سے یا تو نیند ختم ہو جاتی ہے یا خواب کی
حالت کا خاتمہ ہو جاتا ہے۔ نتیجتاً وہ پہلے سے بھی زیادہ نڈھال اور ذہنی طور پر
بیمار ہو کر اٹھتا ہے۔ اس حالت سے نجات پانے کے لئے وہ سگریٹ نوشی، چائے، کافی اور
اس طرح کی دوسری اشتعال انگیز اشیائے خوردونوش استعمال کرتا ہے جو وقتی طور پر خون
میں تحریک پیدا کر کے اس کی تھکاوٹ کا احساس تو ختم کر دیتی ہیں لیکن طبیعت میں
غصہ اور اضمحلال بڑھ جاتا ہے۔ غصہ نہ صرف جسمانی نظام کو مزید تباہ کرتا ہے بلکہ
ماحول کو بھی مکدر کر دیتا ہے۔ سخت زبانی اور تلخ کلامی کا استعمال اس قدر زیادہ
ہے کہ ہر آدمی الفاظ کے ہیر پھیر سے ہر وقت دوسروں کو بے وقوف بنانے کی کوشش میں
لگا رہتا ہے۔ لگتا ہے کہ لوگ کسی کے لئے دلی جذبات و احساسات رکھتے ہی نہیں، جس کی
وجہ سے یقین و اعتبار کا پیٹرن ناپید ہو گیا ہے۔
سائنسی ایجاد بجلی نے گو
ہمارے لئے آسانیاں پیدا کی ہیں مگر ذہن انسانی کو اس نے بالکل ناکارہ کر دیا ہے۔
گھریلو بجلی کی فریکوئینسی دنیا بھر میں Hz۱۰۰g۳۵
کے درمیان ہے۔ جو ہر وقت ہماری دماغی فریکوئینسی کو مشتعل کر کے اسے اپنے برابر
کرتی رہتی ہے۔ تجربات سے ثابت ہوا ہے کہ Hz۷۰ ۴۰
کی فریکوئینسی دماغی اور جسمانی صلاحیتوں کے لئے تباہ کن ہے۔ فضا میں ریڈیو،
ریڈار، ٹیلی ویژن، ٹیلی فون اور نجانے کون کون سی لہریں ہر وقت گردش میں رہتی ہیں۔
جو زہر سے بھی زیادہ مہلک ہیں۔ ماحول میں شور اس قدر زیادہ ہے کہ ہر وقت حواس پر
دباؤ رہتا ہے۔ یہ سارے عوامل کسی ایک آدمی کے ساتھ نہیں بلکہ پوری نوع انسانی کے
ساتھ پیش آ رہے ہیں۔
محققین نے شب و روز کے
مطالعہ سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ ہم بیداری کی حالت میں بایاں دماغ استعمال کرتے
ہیں۔ دائیں دماغ سے ہمارا رابطہ منقطع رہتا ہے یا وہ دماغ ہم استعمال ہی نہیں
کرتے۔ ۹۵
فیصد لوگ صرف بائیں دماغ سے ہی کام لیتے ہیں۔ انسانیت اس وقت بھیانک طور پر دماغی
عدم توازن کا شکار ہے اور یہی عدم توازن جسمانی اور نفسیاتی بیماریاں ہیں۔
موجودہ دور میں لوگوں کا
جرائم کی طرف رجحان، جدید طرز زندگی کے پریشر اور ناامیدی کے باعث توانائی کے عدم
توازن کی وجہ سے ہے۔
توانائی کے عدم توازن کی
وجہ سے جرائم ہوں یا جرائم کی وجہ سے مزید عدم توازن دونوں صورتیں فطرت کے ’’قانون
توازن‘‘ اور ’’انصاف‘‘ کے خلاف ہیں۔ فطرت نے نہ صرف متوازن زندگی پر زور دیا ہے
بلکہ اس کے لئے پورے پورے وسائل بھی پیدا کئے ہیں۔
ماہرین نے یہ بات تسلیم
کی ہے ذہنی اور جسمانی تندرستی کے لئے خوابوں کی بڑی اہمیت ہے۔ وہ کہتے ہیں:
فطرت نے دن کا توازن رات
سے کیا ہے اور بیداری کا نیند سے۔
دن کا توازن خود دن کے
اندر ۹۰
منٹ کا ایک دور (Cycle) چلا کر کیا ہے، جس میں انسان کا دایاں دماغ متحرک اور بایاں سست
ہو جاتا ہے۔
رات کو توازن ہر ۹۰ منٹ کے بعد خواب دکھا کر
گیا ہے۔ اور یہ کہ دن کے وقت بھی ہر ۹۰ منٹ بعد آدمی خواب دیکھتا ہے جو
جسمانی اورذہنی صحت کے لئے ضروری ہے۔
Aap ke khwab aur unki tabeer jild 01
خواجہ شمس الدین عظیمی
آسمانی کتابوں میں
بتایا گیا ہے کہ:
خواب مستقبل کی
نشاندہی کرتے ہیں۔
عام آدمی بھی
مستقبل کے آئینہ دار خواب دیکھتا ہے۔
انتساب
حضرت یوسف علیہ السلام کے نام جنہوں نے خواب سن کر
مستقبل میں پیش آنے والے چودہ سال کے حالات
کی نشاندہی کی
اور
جن
کے لئے اللہ نے فرمایا:
اسی طرح ہم نے یوسف کو اس ملک میں سلطنت عطا فرمائی اور
اس کو خواب کی تعبیر کا علم سکھایا۔