Topics

تجلیوں کا ذخیرہ

 

کہکشانی نظام (Galaxies)، چاند، سورج، سیارے، زمین آسمان تین دائروں (Circles) میں گردش کر رہے ہیں۔ پہلے دائرے میں جو کچھ ہے وہ نوری تحریر میں نقش ہے، جسے قرآن نے علم القلم کہا ہے۔
علم القلم سے مراد وہ صفات ہیں جن صفات پر کائنات کو تخلیق کیا گیا ہے۔ ماوراء ہستی، خالق نے جب چاہا کہ میرے ذہن میں موجود پروگرام موجودات کی شکل میں مظہر بن جائے، کائنات وجود میں آ گئی۔ یہ سب وجود میں آنے والا علم، علم القلم ہے۔ علم القلم میں کائنات کی تخلیق کے فارمولوں کی وضاحت ہے۔
علم القلم میں گیارہ ہزار تجلیوں کا ذخیرہ ہے۔ روحانی استاد کی نگرانی میں طالب علم جب پہلے دائرے سے واقفیت حاصل کر لیتا ہے تو اس کے مشاہدے میں گیارہ ہزار تجلیاں آ جاتی ہیں۔ علم القلم میں اس بات کی تفصیل موجود ہے کہ پوری کائنات انسان کے اندر ہے۔ کائنات کا کوئی ایک ذرہ بھی انسان کے اِنر(Inner) سے باہر نہیں ہے۔
نوع انسانی کا ہر فرد جانتا ہے کہ انسان جاگنے کے بعد سو جاتا ہے اور سونے کے بعد جاگتا ہے۔ کوئی آدمی جتنے گھنٹے سونے کی عادت ڈال لیتا ہے اسی مناسبت سے نیند اس کی طبیعت کا تقاضہ بن جاتی ہے۔
                جس طرح انسان کے اندر نگاہ بیداری میں کام کرتی ہے۔
اسی طرح نگاہ سونے کی حالت میں بھی کام کرتی ہے۔
دیکھنا بیداری میں ہو یا نیند میں،
انسان کے ذہن کی یہ عادت ہے کہ
وہ گہرے نقوش کو یاد رکھتا ہے
اور ہلکے نقوش کو بھلا دیتا ہے۔
 ایک آرٹسٹ جو بہت اچھا مصور ہے لیکن وہ کبھی تصویر نہیں بناتا، اس کا تعارف مصور کی حیثیت سے نہیں کرایا جا سکتا۔ یعنی کسی مصور کو اس وقت مصور کہہ سکتے ہیں جب اس کی تخلیقات منظر عام پر آ جائیں۔
خالق کائنات کو پہچاننے اور خالق کی صفات سے وقوف حاصل کرنے کے لئے تخلیقی فارمولوں سے واقفیت حاصل کرنا ضروری ہے۔ ہم کائنات کے بارے میں تفکر کرتے ہیں تو ہمیں دو بنیادی باتوں کا سراغ ملتا ہے۔ ایک یہ کہ کائنات کے اندر زندگی رواں دواں ہے۔ ساتھ ہی یہ علم ہمارا یقین بنتا ہے کہ زندگی کسی کے تابع ہے۔ افراد کائنات کو زندہ رکھنے والی ہستی جب تک فرد کو زندگی منتقل کرتی رہتی ہے، فرد متحرک رہتا ہے اور جب وہ فرد سے اپنا رشتہ توڑ لیتی ہے تو زندگی بکھر جاتی ہے۔ یہ ایک ایسا عمل ہے جو پوری کائنات کے افراد میں جاری و ساری ہے۔
ماوراء ہستی کے ذہن سے نکلا ہوا ایک لفظ، لا شمار علوم پر محیط ہے۔ لامتناہی صفات کا حامل ہے، غیر متغیر ہے اور کبھی نہ رکنے والی مسلسل حرکت ہے۔
ازل تا ابد حرکت کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔
عقدہ یہ کھلا کہ زندگی مسلسل حرکت کا نام ہے۔ جب انسان شعوری حواس میں زندگی بسر کرتا ہے، تو کیفیات الگ ہوتی ہیں اور جب انسان لاشعور میں زندگی بسر کرتا ہے تو کیفیات مختلف ہوتی ہیں۔
قانون: حرکت کسی وقت ساقط نہیں ہوتی۔
انسان شعوری کیفیات میں ہو یا لاشعوری کیفیات میں، مسلسل حرکت کرتا رہتا ہے۔ جب زمان و مکان کی پابندی ہوتی ہے تو زندگی کو بیداری کہا جاتا ہے اور جب زمان و مکان کی گرفت ٹوٹ جاتی ہے تو اس زندگی کو نیند کہا جاتا ہے۔عام مشاہدہ ہے کہ طبیعت آدمی کو اس بات پر مجبور کرتی ہے کہ وہ سو جائے۔ پھر مجبور کرتی ہے کہ آدمی بیدار ہو جائے۔ طبیعت اس بات کی عادی ہے کہ آدمی کو سلا کر لاشعور کو بیدار کر دیتی ہے اور طبیعت اس بات کی عادی ہے کہ آدمی کو جگا کر لاشعور کو سلا دیتی ہے۔
لاشعور سو جاتا ہے تو شعور بیدار ہو جاتا ہے۔
اور جب شعور سو جاتا ہے تو لاشعور بیدار ہو جاتا ہے۔
انسان وہی کچھ دیکھتا ہے جس کا مظاہرہ ’’کن‘‘ کے بعد ہو چکا ہے۔
اللہ کریم نے بیداری کو دن ’’نہار‘‘ اور خواب کو رات ’’لیل‘‘ کہا ہے۔ یعنی حواس دو قسم کے ہیں۔
۱۔ بیداری (دن) کے حواس۔
۲۔ نیند (رات) کے حواس۔
یہی دو حواس زندگی میں رد و بدل ہو رہے ہیں۔ حواس جب رات کے پیٹرن (Pattern) میں داخل ہوتے ہیں تو خواب بن جاتے ہیں اور حواس جب دن کے پیٹرن میں داخل ہوتے ہیں تو بیداری بن جاتے ہیں۔ حواس دن میں داخل ہوتے ہیں تو پابند ہو جاتے ہیں اور حواس رات میں داخل ہوتے ہیں تو آزاد ہو جاتے ہیں۔
علم غیب یا غیب کی دنیا، دراصل رات کے حواس (خواب) ہیں۔ علم دنیا، علم مظاہر اور مادی دنیا دن کے حواس (بیداری) ہیں۔

Topics


Aap ke khwab aur unki tabeer jild 01

خواجہ شمس الدین عظیمی

آسمانی کتابوں میں بتایا گیا ہے کہ:

خواب مستقبل کی نشاندہی کرتے ہیں۔

عام آدمی بھی مستقبل کے آئینہ دار خواب دیکھتا ہے۔



 

 

  

 

انتساب


حضرت یوسف علیہ السلام کے نام جنہوں نے خواب سن کر مستقبل میں پیش آنے والے چودہ سال کے  حالات کی نشاندہی کی

اور

جن کے لئے اللہ نے فرمایا:

اسی طرح ہم نے یوسف کو اس ملک میں سلطنت عطا فرمائی اور اس کو خواب کی تعبیر کا علم سکھایا۔