Topics
شام کے تقریباً ساڑھے
پانچ بجے تھے کہ میں نے خواب دیکھا۔ اپنے ماتحت افسر کے ساتھ جٹ لائن سے صدر کی جانب
جا رہا ہوں۔ اچانک گرجا کے سامنے، آسمان کی بلندیوں سے ایک مینار نیچے آتے دیکھا۔
اس مینار پر عربی رسم الخط میں کچھ لکھا ہوا تھا۔ میں نے اپنے ساتھی سے کہا، دیکھو
کتنا حسین مینار ہے۔ اس نے میری بات کی تائید کی اور چھلاوے کی طرح غائب ہو گیا۔
میں مینار کو دیکھتا رہا۔ یہ مینار نیچے آتے آتے ایک مسجد کی چھت پر قائم ہو گیا۔
پھر یہی مینار میرے اوپر جھکا۔ جب میں نے ہاتھ بڑھا کر اسے چھونے کی کوشش کی تو یہ
اوپر اٹھ گیا۔ جب ہاتھ نیچے کر لیا تو پھر میرے اوپر جھک گیا۔ دل میں خیال آیا کہ
یہ آسمانی مینار ہے۔ بغیر وضو کے نہیں چھونا چاہئے۔ جیسے ہی وضو کرنے کا خیال دل
میں پیدا ہوا۔ الٰہ دین کے چراغ کی طرح فوراً پانی کا نل سامنے وجود ہو گیا۔ میں
نے اس نل سے وضو کیا۔ میرے ساتھ اور بہت سے لوگوں نے بھی وضو کیا۔ وضو سے فارغ ہو
کر کھڑا ہی ہوا تھا کہ آنکھ کھل گئی۔
(عبدالکریم)
تعبیر:
آپ کے خواب کی تعبیر یہ
ہے کہ کوئی غریب گھرانہ ہے۔ یہ گھرانہ خواب دیکھنے والے صاحب سے مانوس ہے۔ اس
گھرانے کے افراد اگرچہ کسی اعانت کے متمنی نہیں ہیں لیکن مستحق ضرور ہیں۔ خواب کے
پس منظر میں کچھ شبیہیں ایسی بھی ہیں جو طبیعت کا رجحان ظاہر کرتی ہیں۔ لیکن طبیعت
اس کشمکش میں مبتلا ہے کہ جو کچھ کیا جائے خالصتاً اللہ کے لئے کیا جائے مگر اس کی
سبیل کیا ہو؟
آسمانی مینار کا تمثل اور
دوسرے حضرات کا وضو کرنا ایسے مظاہر ہیں جو طبیعت کے پاکیزہ جذبات کو پیش پیش
رکھنا چاہتے ہیں۔ لیکن وسائل محدود نظر آنے لگتے ہیں۔ کیونکہ مینار کو چھونے کی
خواہش پوری نہیں ہوئی۔
یکایک زبردست تیز آندھی آ
گئی ہے اور مجھے اڑ کر لے گئی۔ خیریت سے ایک مقام پر اترا۔ سامنے بہت خوبصورت مسجد
ہے۔ ایک دم خیال آیا کہ یہ مسجد نبویﷺ ہے۔ خدا کے حضور سجدہ شکر ادا کیا کہ اللہ
پاک نے اس گنہگار کو یہ موقع عطا فرمایا کہ نماز بھی پڑھ لوں گا اور زیارت بھی ہو
جائے گی۔ مسجد میں داخل ہو کر نماز ادا کی۔ ذرا آگے بڑھا تو ایک بند دروازہ نظر
آیا۔ دروازہ کھول کر اندر گیا تو وہاں ایک شخص بیٹھا ہوا ملا۔ اس مرد خدا نے حضورﷺ
کے روضۂ اطہر کی طرف اشارہ کیا۔ میں انتہائی بے قراری کے عالم میں والہانہ انداز
سے آگے بڑھا۔ روضۂ اقدس کی جالیوں کو ہاتھ سے چھوا اور آنکھوں سے بوسہ دیا۔ اپنی خوش
نصیبی پر نازاں ہو ں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے دیار حبیبﷺ میں اس وقت بھیجا ہے جب
یہاں کوئی بھی نہیں ہے۔ میں تنہا ہوں۔ جس طرح چاہوں اپنے آقاﷺ کے حضور نذرانہ
عقیدت پیش کر سکتا ہوں۔ کیف و مستی سے سرشار آقائے دو جہاں کے روضۂ انور کے دائیں
جانب بیٹھ گیا۔ معلوم ہوتا تھا کہ کائنات کے اندر موجو دپورا گداز میرے دل میں
منتقل ہو گیا ہے۔ نہ جانے اتنا رونا کہاں سے آگیا کہ روتے روتے ہچکی بندھ گئی۔
ایسا لگتا تھا کہ آنکھوں کے ذریعے آنسوؤں کی آبشار گر رہی ہے۔ میری آنکھیں پانی ہو
گئیں۔یہ پانی جب چہرہ کو دھوتا ہوا منہ کے قریب سے گزر کے نیچے ٹپکا تو اس کا
ذائقہ نمکین تھا۔ اس سارے عرصہ میں اللہ تعالیٰ سے رو رو کر، گڑگڑا کر دعا مانگتا
رہا، ’’اے اللہ! اے میرے پروردگار! میرے اور تمام مخلوق کے خالق، میرے آقا میں آپ
کا بندہ ہوں۔
آپ خالق ہیں میں آپ کی
مخلوق ہوں۔ اپنے حبیب کے صدقے میں میرے سب گناہ معاف فرما دے۔‘‘ بہت دیر تک بندہ
اپنے خالق کے حضور آنسوؤں کے نذرانہ کے ساتھ عاجزانہ التجائیں کرتا رہا۔ جب قرار
آیا، اٹھا تو حضور انورﷺ کے مزار اقدس کو چوما۔
ہاتھوں سے چھوا، آنکھوں
سے لگایا تو دل کی آنکھیں وا ہو گئیں۔ نظر آیا کہ مزار اقدس و مطہر پر اللہ تعالیٰ
کی تجلیات نچھاور ہو رہی ہیں۔ روضۂ مبارک کے چاروں طرف فرشتوں کی صفیں حضور فخر
کائنات علیہ الصلوٰۃ والسلام پر درود و سلام بھیج رہی ہیں۔
فرشتوں کے جسموں سے
روشنیاں پھوٹ رہی ہیں۔ میں ان روشنیوں کو مرکری لائٹ سے تشبیہہ دے سکتا ہوں۔ ادب و
احترام کا یہ عالم ہے کہ ہر فرشتہ سر جھکائے تقریباً رکوع کی حالت میں ہے۔ جب اللہ
کی مخلوق فرشتے، یک زبان ہو کر یا نبی سلام علیک، یا رسول سلام علیک یا حبیب سلام
علیک کہتے تھے تو دل کے تار جھنجھنا اٹھتے تھے۔ واپس ہونے کا حکم ہوا۔ نماز کی
ادائیگی ہوئی اور حضورﷺ کے روضۂ اطہر کی شبیہہ آنکھوں اور دل میں نقش کر کے افتاں
و خیزاں واپس ہوا۔
در اقدس سے باہر آ کر چپل
تلاش کی مگر نہ ملی نہ جانے کون لے گیا۔ واپس اندر آ کر اس شخص سے پوچھا جو روضۂ
مبارک کے قریب بیٹھا تھا اس اللہ کے بندے نے بھی لاعلمی کا اظہار کیا اور میری
آنکھ کھل گئی۔
(غلام علی)
تعبیر و تجزیہ:
حضور انور کے روضۂ مطہرہ
کی زیارت با سعادت پر آپ کو بہت مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ یہ سعادت ہر مسلمان
کو نصیب کرے۔ آمین!
خواب میں دو قسم کے
رجحانات پائے گئے جن کے مابین طبیعت فیصلہ نہیں کر سکتی کہ جو طریقۂ کار زیر بحث
ہے وہ خالص عمل خیر ہے یا نہیں۔ لیکن اس کے آخری حصے بتاتے ہیں کہ زیر بحث تجویز
خالص عمل خیر کی حیثیت رکھتی ہے جس میں کوئی آلائش نہیں۔
میں نے دیکھا کہ میں اپنے
سابقہ کالج میں داخلہ لینے جا رہا ہوں۔ جبکہ مجھے ایم بی بی ایس کئے ہوئے کئی سال
گزر گئے ہیں۔ کالج میں میرے پروفیسر مجھے ملے ان پروفیسر کی مشابہت میرے ایک دوست
جیسی ہے۔ وہاں سے ایک بڑے ہال میں جاتا ہوں، وہاں قرآن شریف کی تلاوت ہو رہی ہے۔
جس طرح کالج شروع ہونے سے پہلے ہوتی ہے۔ وہاں ایک صاحب کو ٹوپی کی ضرورت پیش آئی۔
میں نے اپنی ٹوپی ان کو دے دی۔ اس ٹوپی کا رنگ کالا ہے۔ میں نے اپنے سر پر ہاتھ
پھیر کر دیکھا تو میرے سر کے بال غائب تھے۔ عبادت کے بعد مجھے ایک اور صاحب ملتے
ہیں۔ وہ مجھ سے کہتے ہیں کہ آپ کے والد کا مضمون ’’علم المواقبت الصلوٰۃ‘‘ ضرور
شائع ہونا چاہئے اور مزید کہا کہ آپ اس کالج میں علم النفسیات پر لیکچر دیں۔ ہم
کالج میں آپ کا تقرر کر دیتے ہیں۔ پھر میں نے دیکھا کہ میں کالج کی لائبریری میں
ہوں۔ ایک طالب علم نے مجھ سے ایک کتاب چھین لینے کی کوشش کی میں نے اس کو ڈانٹ دیا
اور کہا تمہیں معلوم نہیں ہے کہ میں کون ہوں؟ پھر میں نے بہت سے میگزین ایک ٹرے
میں رکھ کر طلباء میں تقسیم کر دیئے۔
ڈاکٹر ولی محمد)
تعبیر:
چند ماہ پیشتر سے یعنی ماضی قریب میں آپ کی ملاقات کسی ایسے شخص سے ہوئی ہے جس کی
طبیعت میں اتفاقیہ طور پر غلط قسم کی رسمیں جڑ پکڑ گئی ہیں۔ ان رسموں میں غلط
قسموں کے عقائد بھی ہو سکتے ہیں۔ گفتگو اور معمولات میں جب وہ چیزیں پیش آتی ہیں
تو دماغ کبھی ان کو قبول کرتا ہے اور کبھی ناقبول کرتا ہے۔ شعور اور تحت الشعور
میں یہ کشمکش جاری رہتی ہے۔ نتیجہ میں یہ سب باتیں لاحاصل ہیں۔
پورے خواب میں ساری
شبیہیں اسی قسم کے اشارات پر مشتمل ہیں۔ میری ناچیز رائے یہی ہے کہ فضول باتوں کے
سوچنے میں وقت ضائع نہ کیا جائے۔ زیادہ سے زیادہ وقت عملی کوششوں میں صرف کیا
جائے۔
تعبیر:
خواب میں کالج میں داخلہ کے لئے جانا، پروفیسر سے ملاقات ہونا اور پروفیسر میں
مشابہت تلاش کرنا، کسی شخص سے ملاقات کی طرف اشارہ ہے۔ اپنی ٹوپی کسی دوسرے صاحب
کو دے دینا اور ٹوپی اتارنے کے بعد سر کے بال غائب ہونے میں یہ بات پوشیدہ ہے کہ
اس شخص سے عقائد کے متعلق بحث ہوتی رہتی ہے۔ قرآن پاک کا پڑھا جانا بھی یہی ظاہر
کرتا ہے۔ والدصاحب مرحوم کا مضمون شائع کرنے کی تاکید اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ
آپ کے جو بھی عقائد ہیں آپ ان کو نہ چھوڑیں۔ صحیح یا غلط کے بارے میں کچھ نہیں کہا
جا سکتا۔ یہ تو صرف اللہ تعالیٰ کے ہی علم میں ہے۔
خواب میں دیکھتا ہوں کہ
میں ہاتھ میں کتابیں لئے کہیں سے پڑھ کر آ رہا ہوں۔ راستے میں مظاہرہ ہو رہا ہے
اور مظاہرین کو فوجی پکڑ رہے ہیں۔ یہ دیکھ کر میں نے دوڑنا شروع کر دیا۔ جب میں
پولیس کے قریب پہنچا تو ایک فوجی نے مجھے ڈانٹ کر کہا۔ فوراً بس میں بیٹھ جاؤ۔ میں
نے جواب دیا کہ میں تو خود ہی بس میں سوار ہونا چاہتا تھا۔ میرے اس جواب پر وہ
ہنسا اور کہا، شاید تمہیں معلوم نہیں کہ یہ بس تھانے جا رہی ہے۔ اور مجھ سے پوچھا
کیا تم خوشی سے تھانے جانا چاہتے ہو۔ میں نے کہا میں کیوں تھانے جانے لگا۔ میں تو
اپنے گھر جانا چاہتا ہوں۔ فوجی نے کہا تمہیں ہر حالت میں تھانے جانا پڑے گا۔ میں
نے بحث کے سے انداز میں اس سے کہا کہ تم لوگ بھی عجیب ہو۔ راہ چلتے شریف لوگوں کو
پکڑ کر تھانے لے جاتے ہو اور یہ جو تمہارے سامنے کھڑے تباہی مچا رہے ہیں انہیں تم
نہیں پکڑتے۔ میری اس بات پر وہ قائل ہو گیا اور کہا، ’’اچھا بابا! ہم تمہیں تمہارے
گھر چھوڑ دیں گے۔‘‘ میں بس میں سوار ہوا۔ بس میرے گھر سے اگلے سٹاپ پر رکی۔ بس سے
نیچے اترا تو دیکھا بہت سے لڑکے بازو پر کالی پٹی باندھے جلوس کی شکل میں نعرے
لگاتے ہوئے آ رہے ہیں۔ میں گھبرایا کہ یک نہ شد نہ دو شد۔ ایک ہنگامہ سے بچ کر نکلا
تھا کہ دوسرے ہنگامے میں پھر پھنس گیا ہوں۔ آخر میں گھر کس طرح پہنچوں گا؟ ابھی
میں گھر جانے کا راستہ تلاش ہی کر رہا تھا کہ وسل بجاتی ہوئی پولیس کی بھاری جمعیت
آ گئی۔ پولیس کو دیکھ کر میں ایک پل کے کنارے بیٹھ گیا۔ پولیس کی گاڑیاں آئیں اور
گزر گئیں لیکن مجے کسی نے کچھ نہیں کہا۔ میں نے ہنگامے والی سڑک کو چھوڑ کر ایک
شارٹ کٹ راستہ اختیار کیا اور گھر کی طرف روانہ ہو گیا۔ راستے میں ایک مسجد آئی۔
مسجد کے مینار شہید ہو چکے تھے۔ گنبد اور محرابوں میں دراڑیں پڑ گئیں تھیں۔ مسجد
کے اندر چند نمازی بیٹھے ہوئے نظر آئے۔ ان میں سے ایک لڑکا بے قرار ہو کر دعا
مانگتا ہوا نظر آیا۔ دعائیہ الفاظ ذہن نشین نہیں رہے۔ البتہ اس کا مفہوم یہ تھا کہ
’’یا خدا! مجھے میرے ماں باپ تک پہنچا دے۔ میں کبھی ان ہنگاموں میں حصہ نہیں
لونگا۔‘‘ فجر کی نماز کا وقت تھا کہ میں خواب سے بیدار ہو گیا۔
(شجاع الدین)
تعبیر:
خواب میں سارے تمثلات اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ گزشتہ چند مہینوں میں طبیعت
بہت سی باتوں کے صحیح اور غلط ہونے کے بارے میں الجھتی رہی ہے لیکن بہت کچھ سوچنے
کے باوجود طبیعت کوئی فیصلہ نہیں کر سکی۔ اس لئے دماغ متضاد خیالات کی آماجگاہ بن چکا
ہے۔ ان خیالات کے پس پردہ جو تاریکیاں کارفرما ہیں وہ سب خواب بن کر سامنے آ گئیں۔
بارہ بجے شب سویا تو خواب
میں دیکھا کہ میں اپنے ماموں کے گھر کے سامنے کھڑا ہوں۔ سامنے سڑک پر بارات گزر
رہی ہے۔ دولہا سر باندھے گھوڑے پر سوار ہے۔ دلہن دولہا کے پیچھے بیٹھی ہوئی ہے۔
میری نظر جب دلہن پر پڑی تو محسوس ہوا کہ یہ میری بہن ہے۔ جیسے ہی یہ خیال ذہن میں
آیا، بارات رک گئی۔ دولہا کو گھوڑے سے اتار لیا گیا اور دلہن کود کر گھوڑے کی گردن
پر سوار ہو گئی۔ ایک صاحب آگے بڑھے اور دلہن کو زبردستی نیچے کھینچ لیا۔ دلہن بہت گھبرائی
لیکن فوراً جست لگا کر پھر گھوڑے پر سوار ہو گئی اور دولہا کا ہاتھ پکڑ لیا اور
اٹھا کر گھوڑے پر بٹھا لیا۔ بارات میں سے گھنی مونچھوں والا ایک بدصورت آدمی
تقریباً دوڑتا ہوا آیا اور دولہا دلہن کو نیچے گرا دیا۔ لیکن اس مرتبہ جست لگا کر
دولہا پھر گھوڑے پر سوار ہو گیا اور دلہن کا ہاتھ پکڑ کر اپنی گود میں بٹھا لیا۔
اب کیا دیکھتا ہوں کہ میرے ماموں اچانک نمودار ہوئے اور انہوں نے بھی دلہن دولہا
کو نیچے پھینک دیا اور خود گھوڑے پر سوار ہوئے۔ گھوڑے کو زور سے چابک ماری اور
گھوڑا ہوا سے باتیں کرتا ہوا نظروں سے اوجھل ہو گیا۔
میرے ماموں جس وقت نمودار
ہوئے اس وقت وہ بہت حسین اور خوبصورت نظر آئے لیکن جب وہ گھوڑے پر سوار ہوئے تو ان
کی خوبصورتی بدصورتی میں بدل چکی تھی۔ اس کے بعد کیا ہوا، یہ معلوم نہیں۔
(محمود اعظم)
تعبیر و تجزیہ:
خواب کے مظاہر میں ایسا
ماحول پایا جاتا ہے جس میں سیاست کے دو نظریات کا تصادم ہے۔ ذہن کبھی ایک نظریہ یا
اس کے تاثرات کو قبول کرتا ہے اور کبھی دوسرے نظریہ کو یا اس کے تاثرات کو۔ لیکن
فیصلہ کن نکتہ پر نہیں پہنچتا اور یکے بعد دیگرے دونوں کو روک دیتا ہے۔ بارات کا
گزرنا اور دلہن کا گھوڑے پر سوار ہونا، سیاسی نظریات کی طرف اشارہ ہے۔ گھوڑا سیاست
کا تمثل ہے۔ دلہن اور دلہن سے قربت داری
کا تصور سیاست کے مختلف نظریات کی علامت ہیں۔
یہ تمثل سیاسی نظریات سے
تعلق رکھتا ہے ایسے بنیادی نظریات جن میں کچھ عقائد بھی شامل ہیں۔ طبیعت چند وجوہ
سے کسی ایک نکتہ پر دونوں کو رد کر دیتی ہے۔ یہاں رد سے مراد عقائد کا رد نہیں
بلکہ عقائد سے پیدا ہونے والے منطقی نظریات کا رد ہے۔
خواب کا بالکل آخری حصہ ایسے اشارات پر مشتمل ہے جو فیصلہ کن نتیجہ پر پہنچنے سے
انکار کرتے ہیں اور بات لاینحل رہ جاتی ہے۔ اس وجہ سے طبیعت ان چیزوں کو مانوس سمجھ
رہی ہے اور تحت الشعور ان سے الگ رہنے کا میلان رکھتا ہے۔
Aap ke khwab aur unki tabeer jild 01
خواجہ شمس الدین عظیمی
آسمانی کتابوں میں
بتایا گیا ہے کہ:
خواب مستقبل کی
نشاندہی کرتے ہیں۔
عام آدمی بھی
مستقبل کے آئینہ دار خواب دیکھتا ہے۔
انتساب
حضرت یوسف علیہ السلام کے نام جنہوں نے خواب سن کر
مستقبل میں پیش آنے والے چودہ سال کے حالات
کی نشاندہی کی
اور
جن
کے لئے اللہ نے فرمایا:
اسی طرح ہم نے یوسف کو اس ملک میں سلطنت عطا فرمائی اور
اس کو خواب کی تعبیر کا علم سکھایا۔