Topics

ناامیدی اور مایوسی سے نظر آنے والے خواب

ناخوشی کی لہریں:

علی الصباح خواب میں دیکھا کہ صدر ایوب ہمارے گھر بغیر پیشگی اطلاع کے آ گئے ہیں۔ مجھ سے انہوں نے کہا کہ وہ میرے ڈاکٹر لڑکے سے ملنا چاہتے ہیں۔ چنانچہ ملے اور انہوں نے دوا لی۔ اس کے بعد مجھ سے کہا کہ مجھے دوسرے لڑکے سے بھی ملوا دیجئے۔ چنانچہ ان سے بھی ملوا دیا گیا۔صدر ایوب نے اپنے لئے دعا کرائی جب صدر باہر جانے لگے تو مکان کے باہر صدر کو دیکھنے  کے لئے بڑا زبردست ہجوم تھا۔ ان کا اس زبردست ہجوم میں جانا نامناسب ہی نہیں بلکہ خطرناک معلوم ہوا۔ اس لئے ان کو عقبی دروازے سے نکال کر رخصت کیا۔

(وزیر علی)

تعبیر:
آپ کا ذہن لڑکے سے متعلق معذوری پر سوچتا رہتا ہے۔ طبیعت امید و ناامیدی کے درمیان معلق رہتی ہے۔ کبھی خوشی اور کبھی ناخوشی کی لہریں خیالات میں پیدا ہوتی ہیں۔ وہ اس قسم کے خوابوں کا سبب ہیں۔

تاریک امیدیں:

میں نے خواب میں دیکھا کہ میں اپنی سمدھن کے جھولے میں بیٹھی جھول رہی ہوں کہ ایک نیولا وہاں رکھی ہوئی الماری کے پیچھے سے نکل کر غرانے لگتا ہے۔ میں اس سے کہتی ہوں، جا! سانپ ڈھونڈ کے کھا لے۔ وہ سیدھا میرے کمرے میں جاتا ہے اور قرآن پاک جس الماری میں رکھا ہے اس کی طرف دیکھ کر غرانے لگتا ہے۔ میں اس بات کا انتظار کرتی ہوں کہ الماری کے نیچے سے سانپ نکلے گا لیکن سانپ تو نہیں نکلا البتہ الماری کے پیچھے سے ایک لڑکی نمودار ہوئی جو سرخ قمیض پہنے ہوئے تھی۔ میں اس لڑکی سے پوچھتی ہوں، تم کون ہو؟ وہ کہتی ہے، میں رحمت ہوں۔ میں دوڑ کر اس کو اپنی گود میں اٹھا لیتی ہوں اور اس سے دعا کے لئے کہتی ہوں۔ وہ میری پیٹھ تھپتھپانے لگتی ہے۔ میں اس کو اپنے بھائی بہنوں اور ماں باپ کے پاس لے جاتی ہوں اور وہ ہر ایک کی پیٹھ تھپتھپا کر دعائیں دیتی ہے۔ اس کے بعد میں اسے اپنے کمرئے میں چھوڑ دیتی ہوں جہاں وہ پھر اسی الماری میں واپس چلی جاتی ہے۔
(روبینہ کوثر)

تعبیر:
طبیعت امیدوں کے بارے میں تاریکی سے گھری ہوئی ہے۔ یہ تاریکی دماغ اور دل پر بسا اوقات گراں گزرتی ہے۔
تجزیہ:
نیولے کا غرانا اور جھولے میں جھولنا خیالی امیدوں کی نشاندہی کرتا ہے۔ الماری کے پیچھے سے لڑکی کا نمودار ہونا اور اس کا تھپتھپانا ان امیدوں میں کشش ظاہر کرتا ہے۔ لڑکی کا دوبارہ اپنی جگہ واپس جانا اس بات کی دلیل ہے کہ امید میں تاریک پہلو نمایاں ہے۔ خواب کے ابتدائی مناظر خیالی اور نقش بر آب امیدوں کی طرف اشارہ ہیں۔

لاکھوں سال کے واقعات:

میں نے خواب میں دیکھا کہ میرے بچپن کا ایک دوست کراچی کے کسی ہوٹل میں مقیم ہے۔ خواب ہی میں دیکھا کہ تین ہفتے گزر گئے اور میرا دوست کہیں جانے کی تیاری کر رہا ہے۔ خواب میں اس کی شخصیت عجیب مضحکہ خیز ہے۔ اس کا ہاتھ زیادہ سے زیادہ ایک فٹ لانبا اور انگلیاں بالکل ننھی ننھی سی ہیں۔ اس کی حالت اتنی عجیب ہے کہ لوگوں کو دیکھ کر ہنسی آ جاتی ہے۔ مگر میں محض اس لئے کہ اس کا دل نہ ٹوٹ جائے اس سے ہمدردی کا اظہار کرتا ہوں اور اس طرح اچانک جانے کی وجہ پوچھتا ہوں تو وہ وجہ بتانے سے انکار کر دیتا ہے۔ آخر میں شدت جذبات سے اپنے دوست کو گلے لگا لیتا ہوں تو وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگتا ہے اور بتاتا ہے کہ جس دوست کے ساتھ وہ مقیم ہے وہ اس کو یہاں سے جانے پر مجبور کر رہا ہے۔ پھر وہ کہتا ہے کہ میں گھر کیسے جاؤں، میری والدہ سوتیلی ہے مجھے بے تحاشہ مارتی ہے۔

درخواست ہے کہ اس خواب کا تجزیہ ضرور کیجئے اور یہ بھی بتایئے کہ خواب میں جبکہ میں چند گھنٹے سے زیادہ نہیں سویا تو چند دن یا چند ہفتے کیسے گزر گئے؟

(وسیم احمد)

تعبیر:
محسوسات میں ناتوانی اور شکوک جگہ پا گئے ہیں اس سے انسان کے اوپر مایوسی اور ناامیدی کا غلبہ ہو جاتا ہے اور انسان زندگی کے ہر عمل میں خود کو عضو معطل سمجھنے لگتا ہے۔ جتنی جلدی ممکن ہو اس قسم کے خیالات کو رد کر دیجئے۔

جزیہ:
چھوٹی سی شخصیت کا نظر آنا آپ کی اپنی طبیعت کا تمثل ہے۔ ننھی ننھی انگلیاں یہ مطلب ظاہر کرتی ہیں کہ آپ کے اندر زندگی کے تقاضے افسردہ اور ناقابل اعتماد ہیں۔ زندگی جن اصولوں کی بنیاد پر قائم ہے وہ متزلزل ہو گئے ہیں۔ آپ فیصلے کرتے ہیں اور نتائج کا انتظار کئے بغیر بدل ڈالتے ہیں۔ آپ کی طبیعت میں خوف سوتیلی ماں کی مار سے ظاہر ہوتا ہے۔ دوست کو شدت جذبات سے گلے لگانا اور اس کا پھوٹ پھوٹ کر رونا اس بات کی علامت ہے کہ ابھی طبیعت میں اتنی سکت ہے کہ آپ اس قسم کے تمام تصورات کو ختم کر کے ولولہ انگیز زندگی اپنا سکتے ہیں۔

لوح محفوظ کا قانون ہمیں یہ بتاتا ہے کہ انسان کے اندردو قسم کے حواس کام کرتے ہیں۔ ایک قسم کے حواس بیداری میں اور دوسری قسم کے حواس خواب میں کام کرتے ہیں۔ بیداری میں کام کرنے والے حواس انسان کو پابند اور مقید زندگی میں گرفتار کرتے ہیں اور خواب کے حواس انسان کو پابندی اور قید سے آزاد کر دیتے ہیں۔

غیب، مکانیت اور زمانیت سے ہمیشہ مارواء ہوتا ہے۔ چونکہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو یہ صلاحیت ودیعت کی ہے کہ وہ غیب سے آگاہی حاصل کر سکے اس لئے انسان کے اندر ایسے حواس کی موجودگی ضروری تھی جن سے وہ غیب سے روشناس ہو جائے۔ بیداری میں کام کرنے والے حواس کی رفتار پرواز خواب میں کام کرنے والے حواس کی رفتار پرواز کی نسبت کم ہوتی ہے۔ ذہن کی رفتار خواب میں اس قدر تیز ہو جاتی ہے کہ ایک لمحہ میں ہزاروں میل کی زمانیت اور مکانیت کو پھلانگ لیا جاتا ہے۔ آپ نے چند دن یا چند ہفتے خواب میں گزارے ہیں۔ فی الواقع ذہن کی صلاحیت اتنی ہے کہ وہ خواب میں لاکھوں سال کے واقعات و حالات کو سمیٹ لیتی ہے۔
ہیرے اور ستارے:

رات کا وقت اور نخلستان کا منظر ہے۔ دور دور تک کھجوروں کے جھنڈ نظر آتے ہیں اور حد نگاہ تک ریگستان دکھائی دے رہا ہے۔ نیلگوں آسمان پر ہیروں کی طرح ستارے جھلمل جھلمل کر رہے ہیں۔ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا کے خوشگوار جھونکے مست و بے خود کئے دے رہے ہیں۔ ماحول خوابناک فضا میں ڈھلا ہوا محسوس ہو رہا ہے۔ خانہ بدوشوں کے خیمے نخلستان کی زینت میں اضافہ کا باعث بنے ہوئے ہیں۔ میں خود کو خیموں کے قریب پاتا ہوں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ میں تلاش روزگار میں بھٹک رہا ہوں اور اس راہگزر پر آ نکلا ہوں۔ دل ملول ہے اور فکر معاش دماغ کو بے چین کئے ہوئے ہے۔ اچانک خانہ بدوشوں کا مشعل بردار رقص شروع ہو جاتا ہے۔ خانہ بدوش جوان لڑکے، لڑکیاں ہاتھوں میں دف لئے پھولوں کی ڈالیاں اٹھائے ایک دائرے میں رقص کر رہے ہیں۔ اس جشن رقص میں دوسرے لوگوں کے ساتھ انتہائی انہماک کے ساتھ میں بھی شریک ہوں سارے تفکرات، تمام آلام اور سب مایوسیاں میرے ذہن سے حرف غلط کی طرح مٹ گئی ہیں۔ میں خود کو ایک نارمل انسان محسوس کر رہا ہوں۔ عجیب پر اسرار اور ولولہ انگیز سماں ہے۔

چاند گہرے سرمئی اندھیروں کو چیرتا ہوا جگمگاتے ستاروں کے جلو میں کسی نامعلوم منزل کی طرف رواں دواں ہے۔ ریگستان کا ذرہ ذرہ چاند کی دودھ جیسی چاندنی میں ڈوبا ہوا ہے۔ ریگستان کے سفید ذرات اس طرح چمک رہے ہیں کہ معلوم ہوتا ہے کہ پوری بساط پر صاف شفاف چاندنی کا فرش بچھا ہوا ہے۔ الغرض ایک عجیب سماں ہے جس کی منظر کشی الفاظ میں نہیں کی جاسکتی۔ یکایک یہ ناقابل فراموش منظر نظروں سے اوجھل ہو جاتا ہے۔ دوسرے منظر میں، میں خود کو ایک پرانے شاہی محل کے بلند و بالا دروازے پر کھڑا پاتا ہوں۔ اس محل کی خوبصورتی بھی الفاظ میں بیان نہیں کی جا سکتی۔ بس یہ سمجھ لیجئے کہ نقش و نگار اور پوری شان و شوکت سے آراستہ و پیراستہ قدیم شاہی محل ایک عجوبہ ہے۔ کچھ لوگ حریر و دیبا کے لباس میں ملبوس محل کے اندر باہر آ جا رہے ہیں۔ میں ایک طرف کھڑا ہونق بنا یہ سب کچھ دیکھ رہا ہوں۔ پھر ایک نامعلوم جذبے کے زیر اثر محل کے اندر چلا جاتا ہوں۔ وہاں حسین و جمیل چاند کے سانچے میں ڈھلی ہوئی ملکہ نظر آتی ہے۔ ہیروں، یاقوت اور زمرد سے جڑی ہوئی پوشاک پہنے تخت شاہی پر ملکہ جلوہ افروز ہوتی ہے اور اس کے سرپر جواہرات سے مرصع تاج ہے۔ اس تاج میں سے چاند کی طرح شعاعیں پھوٹ رہی ہیں، گھٹاؤں کی طرح سیاہ اور بل کھاتی دراز زلفیں دوش مرمریں پر بکھری ہوئی ہیں۔ کنیزیں اس تخت کے آس پاس سر جھکائے مؤدبانہ کھڑی ہیں۔ غلام مور چھل لئے پشت کی جانب کھڑا ہے۔ میں حیرت سے مبہوت اس ملکہ کے روبرو حاضر ہوں۔ غلام اور کنیزیں مجھے قہر بھری نظروں سے دیکھ رہی ہیں۔ ملکہ مخروطی انگلیوں والا ہاتھ جو رنگ حنا سے مزین ہے، میری طرف بڑھاتی ہے اور مجھے قریب آنے کا اشارہ کرتی ہے میں سہما ہوا لرزہ براندام آگے بڑھتا ہوں۔ ملکہ غلام اور کنیزوں کو وہاں سے ہٹا دیتی ہے۔ اور پروقار مسکراہٹ کے ساتھ میری طرف بڑھتی ہے۔ محل میں میرے آنے کا سبب دریافت کرتی ہے۔ میں نے عرض کیا کہ راجہ صاحب کی علالت کی خبر سن کر عیادت کے لئے حاضر ہوا ہوں۔ ملکہ کچھ دیر خاموش رہ کر کہتی ہے کہ تمہیں دینے کے لئے میرے پاس چند چیزیں موجود ہیں، پہلے وہ بولے پھر راجہ صاحب کی مزاج پرسی کے لئے چلے جانا۔ ملکہ مجھے مہر بند صندوقچی دے کر کہتی ہے کہ اسے بھی ہرگز نہ کھولنا۔ جب اس کا وقت آئے گا تو یہ خود بخود کھل جائے گی اور نہ یہ جاننے کی کوشش کرنا کہ اس کے اندر کیا ہے؟ یہ بھی وقت آنے پر خود ہی معلوم ہو جائے گا۔ جیسے ہی میں صندوقچی لینے کے ہاتھ ہاتھ بڑھاتا ہوں بلکہ مجھے کھینچ لیتی ہے۔ مجھ پر نشہ طاری ہو جاتا ہے۔

فوراً ملکہ تالی بجاتی ہے اور ایک نیز ہاتھ میں چاندی کی قینچی لئے حاضر ہوتی ہے اور اس قینچی سے ملکہ اپنی کتاب لانبی زلف تراش کر رومال میں باندھ دیتی ہے اور یہ رومال مجھے دے کر رخصت کر دیتی ہے۔ میں دوسرے کمرے میں جاتا ہوں۔ راجہ ایک چھپر کھٹ پر گاؤ تکیہ کے سہارے لیٹا ہوا ہے۔ چہرے سے بیماری ظاہر ہوتی ہے۔ مجھے دیکھ کر اٹھنے کی کوشش کرتا ہے لیکن میں جلدی سے اس کے پاس پہنچ کر لیٹے رہنے کی درخواست کرتا ہوں۔ راجہ مجھ سے خیریت معلوم کرتا ہے ، میں بھی اس کی بیماری پر اظہار افسوس کرتا ہوں۔ راجہ نے مجھ سے پوچھا کیا تمہیں تمہاری امانت مل گئی؟ میں کہتا ہوں، ہاں مل گئی۔ راجہ بھی مجھے صندوقچی کھولنے سے منع کرتا ہے اور انہی ہدایات کو دہراتا ہے جو ملکہ نے مجھے دی تھیں۔

(محمد حبیب)

تعبیر:
جس دور میں آپ نے یہ خواب دیکھا ہے اس کی روئداد مندرجہ ذیل ہے۔ آپ نے مستقبل سے متعلق امیدیں قائم کر کے حصول معاش میں کوششیں کیں۔ کچھ ذمہ داریاں اچانک پیش آ گئیں۔ ان ذمہ داریوں کی وجہ سے توقعات پوری نہیں ہو سکیں۔ اس ناکامی کا آپ کے دل ودماغ پر شدید اثر ہوا اور ناامیدی سے بھرے اندھیروں میں آپ اس طرح گھر گئے کہ مایوسی آپ پر مسلط ہو گئی۔

تجزیہ:
خواب میں راہگزر کی شبیہہ اور نخلستان کا تمثل اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ آپ اس دور میں امید و بیم کے چکر میں گھرے ہوئے تھے۔ ٹھنڈی ہوا کے خوشگوار جھونکے، رقص اور رقص میں آپ کی محویت ، ان امیدوں کا انکشاف کرتی ہے جو آپ نے مستقبل سے وابستہ کی تھیں۔ جوان لڑکے اور الڑ دوشزائیں اور ایک دائرہ ان ذمہ داریوں کی شبیہیں ہیں جن کی وجہ سے امیدیں مسرت و یاس میں تبدیل ہو گئیں۔ ریگستان کے سفید ذرات اور بساط پر چاندی کا فرش آئندہ سے وابستہ امیدوں کے تمثلات ہیں۔ اس خواب میں امید و یاس کے تمثلات کا بار بار اعادہ ہوا ہے۔ لاشعوری کیفیات کا تمثل ملکہ اور شعوری کیفیات کا مظہر بیمار راجہ ہے۔ صندوقچی اس بات کی علامت ہے کہ انشاء اللہ حالات سازگار ہو جائیں گے۔ خواب میں یہ بات بھی الم نشرح ہے کہ اس دور کے مقابلہ میں جس دور میں یہ خواب دیکھا گیا تھا اس وقت حالات بہتر ہیں۔

میں تم سے محبت کرتی ہوں:

میں نے خواب میں دیکھا کہ کسی رشتہ دار کے یہاں دعوت میں مدعو ہوں۔ مگر یہ بات ذہن میں نہیں ہے کہ یہ تقریب کس سلسلہ میں منعقد ہوئی ہے۔ میں نے باورچی خانہ میں ایک لڑکی کو روٹی پکاتے دیکھا۔ لڑکی میری ماموں زاد کی ہم شکل ہے۔ لڑکی نے مجھ سے کہا کہ میں تم سے محبت کرتی ہوں۔ میں نے اس بات کا کوئی جواب نہیں دیا۔ پھر دیکھا کہ میں اپنے چچا کے گھر ہوں۔ وہاں میں نے چچازاد بہن کو دیکھا۔ باتیں کرتے ہوئے میں نے دیکھا کہ اس کے سر میں سفید بال ہیں۔ لڑکی نے جب یہ محسوس کیا کہ میں اس کے سفید بال دیکھ کر چونک گیا ہوں تو اس نے جلدی سے اپنا سر دوپٹہ سے چھپا لیا۔ میں یہ سوچتے ہوئے کہ سر کے بال نزلہ سے سفید ہوئے ہیں، گھر سے باہر آ جاتا ہوں۔ دروازے میں میرے چچا کھڑے ہیں۔ دیکھا کہ ایک اور آدمی ہے جو چچا سے کہتا ہے، ’’میں تمہاری لڑکی سے شادی کروں گا۔‘‘ چچا کہتے ہیں کہ جب ثروت کی شادی اردن کے ولی عہد سے ہو سکتی ہے تو میری لڑکی کا رشتہ کسی اونچے گھرانے میں کیوں نہیں ہو سکتا۔ اتنے میں ایک آدمی اور آتا ہے وہ بھی پہلے آدمی کی طرح لڑکی سے شادی کا تذکرہ کرتا ہے۔ چچا کے انکار کرنے پر وہ چچا کو دھمکی دیتا ہے۔ چچا اپنی لڑکی کو آواز دے کر کہتے ہیں کہ دروازے کو اند رسے تالا ڈال دو۔ میں کہتا ہوں کہ یہ دونوں آدمی غنڈے ہیں۔ پھر میں نے دیکھا کہ چچا کے برابر والے گھر میں آگ لگ گئی ہے۔ لوگ آگ بجھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ میں اور چچا پاس کھڑے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔ دو تین گھر جلنے کے بعد آگ بجھ گئی۔ میں اپنے دل میں یہ کہتے ہوئے کہ یہ سب انہی غنڈوں کی شرارت ہے اپنے گھر آ گیا۔ اس کے بعد آنکھ کھل گئی۔

(معراج الدین)

تعبیر:
آپ کے اوپر انتہائی درجہ مایوسی مسلط ہے۔ ذہن کسی جستجو کے نتیجہ خیز ثابت ہونے کی طرف سے مایوس ہے۔

تجزیہ:
آپ کے خوابوں میں مایوسی کے تمثلات ہیں۔ کسی لڑکی کا دیکھنا اور اس کی شباہت تلاش کرنا اس بات کا ثبوت ہے کہ طبیعت کسی بھی کوشش کو اپنے حق میں مفید نہیں سمجھ رہی۔ خواب میں اسی تمثل کا اعادہ چچا کی لڑکی اور اس کے سفید بالوں میں ہوا ہے۔ آخر میں جو شبیہہ آگ کی صورت میں ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک طرف کسی بات پر اصرار ہے اور دوسری طرف مایوسی بالمقابل کھڑی ہے۔ بہرکیف طرز فمل میں اعتدال پسندی سے بہتری کے امکانات ہیں۔

 

Topics


Aap ke khwab aur unki tabeer jild 01

خواجہ شمس الدین عظیمی

آسمانی کتابوں میں بتایا گیا ہے کہ:

خواب مستقبل کی نشاندہی کرتے ہیں۔

عام آدمی بھی مستقبل کے آئینہ دار خواب دیکھتا ہے۔



 

 

  

 

انتساب


حضرت یوسف علیہ السلام کے نام جنہوں نے خواب سن کر مستقبل میں پیش آنے والے چودہ سال کے  حالات کی نشاندہی کی

اور

جن کے لئے اللہ نے فرمایا:

اسی طرح ہم نے یوسف کو اس ملک میں سلطنت عطا فرمائی اور اس کو خواب کی تعبیر کا علم سکھایا۔