Topics

رویائے کاذبہ ، رویائے صادقہ



ہم جو کچھ دیکھتے ہیں ان کے محرکات سے ہماری ذات پیوست ہے۔ لیکن ہماری ذات محرکات کے اشاروں کو فطرت کے مطابق صحیح صحیح سمجھنے کی پابند نہیں ہے۔ کیونکہ اس نے خواہشات کا خول اپنے اوپر پہن لیا ہے۔ خواہشات کا خول شبیہوں کو مسخ کر کے دیکھتا ہے۔ یہ ناممکن ہے کہ فطرت کے اشارے غلط ہوں۔ کسی معاملہ میں بھی فطرت کو الزام دینا صرف ہماری نافہمی ہے۔

فطرت ’’کُل‘‘ ہے۔ کُل محدود ، مجبور نہیں ہوتا۔ کُل کی تعریف ہی یہ ہے کہ وسعتوں میں آزاد ہے۔

قانون:
غلطی یا لغزش ہمیشہ محدودیت میں سرزد ہوتی ہے۔

لامتناہیت میں سرزد نہیں ہوتی۔

غلطی نام ہے حد بندی کا، جس کے بعد صحیح کی ہستی کو قطعی تسلیم کرنا پڑے گا۔ لیکن صحیح کی کوئی حد بندی نہیں۔ اس لئے کہ صحیح حقیقت ہے۔ غلطی حقیقت سے بے بہرہ ہے۔

ہماری ذات ناروا خواہشات میں پھنس جانے کی وجہ سے فطرت کے اشاروں کی جن شبیہوں کو مسخ کر کے دیکھتی ہے وہ رویائے کاذبہ ہیں۔

ہماری ذات اگر نیوٹرل ہو کر فطرت کے اشاروں کو کُل میں دیکھے تو یہ رویائے صادقہ ہوتے ہیں۔ کُل چونکہ شبہات سے آزاد ہے اس لئے کُل کے اندر تمام اشارے، لامتناہیت کا انکشاف کرتے ہیں اور لامتناہیت سب کس سب غیب ہے۔

Topics


Aap ke khwab aur unki tabeer jild 01

خواجہ شمس الدین عظیمی

آسمانی کتابوں میں بتایا گیا ہے کہ:

خواب مستقبل کی نشاندہی کرتے ہیں۔

عام آدمی بھی مستقبل کے آئینہ دار خواب دیکھتا ہے۔



 

 

  

 

انتساب


حضرت یوسف علیہ السلام کے نام جنہوں نے خواب سن کر مستقبل میں پیش آنے والے چودہ سال کے  حالات کی نشاندہی کی

اور

جن کے لئے اللہ نے فرمایا:

اسی طرح ہم نے یوسف کو اس ملک میں سلطنت عطا فرمائی اور اس کو خواب کی تعبیر کا علم سکھایا۔