تمام زمینوں (Screens) پر نشر ہونے والی اطلاع ایک ہے
الہامی کتابوں کے ماہر، علمائے باطن کہتے ہیں:
انسان صرف اس زمین پر ہی آباد نہیں ہے اور بھی بے شمار سیاروں میں انسانوں کی آبادیاں ہیں اور ہر سیارہ میں زمین ہے۔ دوسرے سیاروں کی زمین پر زندگی کی طرزیں گو مختلف ہیں، لیکن تقاضے سب کے یکساں ہیں۔ جس طرح زمین پر آباد انسان کے اندر خواب اور بیداری کے حواس کام کرتے ہیں بالکل اسی طرح دوسرے لا شمار سیاروں میں آباد انسانوں میں بھی بیداری اور خواب کے حواس کام کرتے ہیں۔
خواب کے حواس ہوں یا بیداری کے حوا س ہوں دونوں کے تقاضے یکساں ہوتے ہیں۔ فرق اتنا ہے کہ بیدار ی میں حواس زمان و مکان کے پابند ہوتے ہیں اور خواب میں حواس زمان و مکان کے پابند نہیں ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ کوئی انسان خواب میں کئے ہوئے اعمال یا دیکھے ہوئے واقعات میں ترتیب قائم نہیں رکھ سکتا۔ کیونکہ اسے بیداری کے ایسے حواس میں زندگی گزارنے کی عادت پڑجاتی ہے جہاں وہ ہر قدم پر پابند ہے۔
روحانی سائنسدان قلندر بابا اولیاءؒ بتاتے ہیں کہ کہکشانی نظاموں اور ہمارے درمیان بڑا مستحکم رشتہ ہے۔ پے در پے جو خیالات ہمارے ذہن میں آتے ہیں وہ دوسرے نظاموں اور ان کی آبادیوں سے ہمیں وصول ہوتے رہتے ہیں۔
اللہ کریم نے انسان کے اندر یہ صلاحیت ودیعت کی ہے کہ وہ غیب سے آگاہی حاصل کر سکے اس لئے انسان کے اندر ایسے حواس کی موجودگی ضروری ہے، جن سے وہ غیب سے متعارف ہو جائے۔ خواب میں کام کرنے والے حواس دراصل وہ صلاحیت ہے جو نوع انسان کو غیب سے نہ صرف قریب کرتی ہے بلکہ غیب کے اندر داخل کر دیتی ہے۔ بیداری میں کام کرنے والے حواس کی رفتار خواب میں کام کرنے والے حواس کی رفتار سے ساٹھ ہزار گنا کم ہے۔
قانون: خواب ایسے حواس کی نشاندہی کرتا ہے جن کے ذریعے انسان کے اوپر غیب کا انکشاف ہوتا ہے۔
قرآن پاک میں ہے:
’’ہم داخل کرتے ہیں رات کو دن میں اور داخل کرتے ہیں دن کو رات میں۔‘‘
(آل عمران)
’’ہم ادھیڑ لیتے ہیں رات پر سے دن کو۔‘‘
(الحج)
قرآن پاک نوع انسانی پر واضح کرتا ہے کہ بیداری کے حواس اور خواب کے حواس ایک دوسرے کے ساتھ چپکے ہوئے ہیں بالکل اس طرح جیسے ایک ورق میں دو صفحے چپکے ہوتے ہیں۔ الگ الگ ہونے کے باوجود ورق ایک ہی رہتا ہے لیکن دونوں صفحے ایک دوسرے کے ساتھ مل کر یک جان ہوگئے ہیں۔
انسان کے اندر کام کرنے والے حواس بیداری کے ہوں یا خواب کے، غیب سے براہ راست ایک ربط رکھتے ہیں کیونکہ ایک ہی عبارت الگ الگ دو صفحوں پر تحریر ہے اس لئے اس کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا جاتا ہے۔ انسان نے اپنی نادانی کی وجہ سے ایک حصے کا نام ظاہر اور دوسرے حصے کا نام غیب رکھ لیا ہے۔ فی الواقع یہ طرز فکر اللہ کے بیان کردہ قانون کے خلاف ہے۔ اللہ کریم فرماتے ہیں:
’’ہم داخل کرتے ہیں رات کو دن میں اور داخل کرتے ہیں دن کو رات میں۔‘‘
یعنی رات اور دن کے حواس ایک ہی ہیں فرق یہ ہے کہ ہم نے ان حواس میں سے ایک کو اپنے اوپر مسلط کیا ہوا ہے چونکہ یہ تسلط خود ہمارا اختیار کردہ ہے اس لئے ہم نے اس پابندی میں مقید ہو کر خود کو پابند کر لیا ہے اور اس پابندی نے ہمیں مکان (Space) اور زمان(Time) کی زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے۔