Topics

مستقبل کی نشاندہی کرنے والے خواب

سوا دو بجے رات:

سوا دو بجے جمعرات کی رات میں نے خواب میں دیکھا کہ میں سفر سے اپنے بھائی اور رشتہ دار کے ساتھ گھر واپس آ رہا ہوں۔ رات راستہ میں کسی نامعلوم ریہات میں پڑتی ہے۔ وہاں ایک کمرے میں پہلے سے کچھ لوگ سونے کے لئے لیٹے ہوئے ہیں۔ ہم بھی چارپائیوں پر دراز ہو جاتے ہیں۔ ایک چارپائی کے نیچے ایک مرا ہوا شیر نظر آتا ہے۔ یکایک شیر میں پاؤں کی طرف سے زندگی کے آثار شروع ہوتے ہیں اور کچھ دیر کے بعد شیر زندہ ہو جاتا ہے۔ ہم سب ساتھی ڈر کر چارپائیوں کے نیچے دبک جاتے ہیں۔ شیر ہر ایک کو پکڑنے کی کوشش کرتا ہے اور چند آدمیوں کو میرے سمیت اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔ پھر گرفتار شدہ آدمیوں کو ایک قلعے کی چھت پر لے جاتا ہے۔ ان گرفتار شدہ لوگوں میں میرا بھائی اور رشتہ دار شخص شامل نہیں تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے کچھ آدمی نظروں سے اوجھل ہو گئے۔ اتنے میں ایک شخص کہتا ہے کہ ٹاس کے ذریعے جس کی باری آئے گی شیر اس کو کھائے گا۔ مجھے اپنی باری کا خیال آتا ہے اور ساتھ ہی یہ بات ذہن میں آتی ہے کہ کاش کچھ مدت مل جاتی اور میں اپنے گھر والوں کے لئے ایک رقعہ لکھ دیتا کہ میں نے اپنے سب رشتہ داروں کو بخش دیا اور وہ مجھے بخش دیں۔ یہ بھی لکھتا کہ شہادت کی موت مجھے اس لئے ملی کہ دنیا میں میرے گناہ بہت زیادہ تھے۔ میں یہ سوچ رہا ہوں کہ شیر مجھے کس طرح کھائے گا۔ پہلے گردن سے پکڑ کر خون پئے گا یا بدن کے کسی حصہ کو لقمہ بنائے گا۔

(قیصر شاہ)

تعبیر:
خواب کے اندر اس بات کی کئی علامتیں ہیں کہ مجموعی طور پر خواب دیکھنے والے اور چند دوستوں کو کوئی حادثہ پیش آنے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ بخیر و عافیت اس سانحہ سے گزار دیں۔ دعا اور صدقہ اس کا ازالہ کر سکتے ہیں۔


آنکھیں پانی پانی ہو گئیں:

میری ایک سہیلی اور رشتے کا بھائی ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں۔ امید ہے کہ عنقریب دونوں رشتہ ازدواج میں منسلک ہو جائیں گے۔ میں نے ان دونوں کے متعلق خواب دیکھا ہے۔ خواب یہ ہے کہ ایک بڑا میدان ہے۔ اس میدان میں میری سہیلی اور رشتے کا بھائی دونوں دولہا دلہن کے لباس میں سہرا باندھے کھڑے ہیں۔ دونوں نے ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑا ہوا ہے۔ میں جب ان کے پاس پہنچی تو میری سہیلی زار و قطار رونے لگی۔ میری آنکھیں بھی پانی پانی ہو گئیں۔ اس کے بعد وہ دونوں مجھ سے رخصت ہو جاتے ہیں۔ ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے چل رہے تھے کہ ان دونوں کے درمیان دیوار حائل ہو گئی۔ دونوں حیران پھٹی پھٹی آنکھوں سے ایک دوسرے کو ڈھونڈتے ہیں مگر حائل شدہ دیوار کی وجہ سے ایک دوسرے کو نہیں دیکھ پاتے۔ میں دونوں کا نام لے کر آواز دیتی ہوں۔ جب وہ میرے قریب آ جاتے ہیں تو میں دونوں کے ہاتھ پکڑ کر دونوں کو پیچھے کی جانب کھینچ لیتی ہوں۔ جیسے ہی وہ دونوں پشت کی جانب آتے ہیں دیوار بھی تیزی کے ساتھ آگے بڑھتی ہے۔ چونکہ سامنے میں ہوتی ہوں۔ اس لئے دیوار مجھ سے آکر ٹکراتی ہے اور میں بھی گر جاتی ہوں۔ اس کے بعد ایک چیخ کے ساتھ میری آنکھ کھل جاتی ہے۔ دیوار گرنے کا خوف ابھی تک میرے اوپر مسلط ہے۔ خواب کی تعبیر کے ساتھ مشورہ بھی دیں تا کہ میری پریشانی دور ہو۔

(فرزانہ واحد)

تعبیر:

بی بی! آپ کی سہیلی اور رشتہ کے بھائی کے ساتھ آپ کے تعلقات شکوک و شبہات کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتے ہیں۔ خواب میں جو علامتیں دیکھی گئی ہیں وہ سب اسی طرح عمل میں آئیں گی جس طرح خواب میں پیش آئی ہیں۔ دولہا اور دلہن کے درمیان تعلقات کشیدہ ہو جائیں گے۔ شک و شبہ کی ایسی دیوار کھڑی ہو جائے گی کہ جس کوآپ باوجود کوشش کے گرا نہیں سکیں گی۔ آپ کو شدید ناکامی کا منہ دیکھنا پڑے گا اور تعلقات پھر بھی استوار نہ ہوں گے۔ دولہا و دلہن کے درمیان اگر شکوک و شبہات پیدا ہوئے تو ان کا دور ہونا آسان ہے مگر ایسی صورت میں جبکہ آپ کا ان معاملات سے کوئی تعلق نہ ہو۔ بہت بڑا میدان ازدواجی زندگی کا تمثل ہے۔ دونوں کا سہرا باندھے ہوئے دیکھنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ یہ رشتہ تکمیل کو پہنچ جائے گا۔ سہیلی کا آپ سے گلے مل کر رونا یہ ظاہر کرتا ہے کہ تعلقات کی کشیدگی کا سبب آپ کی ذات ہو گی۔ آپ کا رونا ان تمام پریشانیوں کے تمثلات کی عکاسی کرتا ہے جو شادی کے بعد آپ کو پیش آئیں گی۔ بیچ میں دیوار حائل ہونا کشیدگی کی علامت ہے۔ آپ کے اوپر دیوار گرنا اس بات کی دلیل ہے کہ آپ دونوں کے درمیان اس دیوار کو ختم کرنے میں ناکام رہیں گی۔ آپ کے لئے ہمارا مشورہ ہے کہ آپ اپنی سہیلی سے تعلقات کم کر لیجئے اور ساتھ ہی رشتہ کے بھائی میں دلچسپی لینا بھی ترک کر دیجئے۔ عافیت اسی میں ہے اور یہی مسئلہ کا حل ہے۔

چوں چوں کی آواز:

میں نے رات خواب میں دیکھا کہ میں ایک دیہات میں گھوم رہا ہوں۔ دیہات کی فضا کوخود سے بہت قریب محسوس کر رہا ہوں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ میں ہمیشہ سے اسی گاؤں میں رہتا ہوں۔ دیہات میں کچی مٹی اور پھونس سے بنے ہوئے چھوٹے چھوٹے مکانوں سے مجھے سوندھی خوشبو آ رہی ہے۔ ہر طر ف ہریالی اور اونچے اونچے درخت ہیں۔ ایک طرف رہٹ چل رہا ہے اور مٹی کے لوٹوں کے ذریعے پانی کنوئیں سے نکالا جا رہا ہے۔ یہ پانی مستقل دھار کی شکل میں زمین کو سیراب کر رہا ہے۔ میں رہٹ کے پاس کھڑا بیلوں کے گلے میں بندھی ہوئی گھنٹیوں کی جھنکار، رہٹ کی مسلسل چوں چوں اور پانی کے گرنے سے بجنے والا مسحور کن ساز سن کر تقریباً مست و بے خود تھا کہ ایک صاحب دیہات کی طرف سے آئے اور بغیر کسی تمہید کے مجھ سے کہا۔۔۔۔۔۔’’تمہاری بیوی فوت ہو گئی ہے۔‘‘ میں مضطرب اور گھبرایا ہوا اسی آدمی کے ساتھ اپنے گھر پہنچا تو معلوم ہوا کہ بیوی کی میت کو دفنا دیا گیا ہے۔

میں اس آدمی کو لے کر قبرستان میں بیوی کی قبر پر گیا۔ میں نے ابھی فاتحہ پڑھنا شروع ہی کیا تھا کہ میرے ساتھ آنے والے آدمی نے قبر سے تھوڑی سی مٹی اٹھا لی۔اب میں نے دیکھا کہ قبر کے اندر پانی بھرا ہوا ہے۔ پانی گدلا تھا اور پانی کی تہہ میں کیچڑ پر میری بیوی کی میت رکھی تھی لیکن میت پر کیچڑ کا کوئی اثر نہیں تھا۔ چہرہ بالکل صاف اور چہرے پر مسکراہٹ کھیل رہی تھی۔ میں نے بے قرار ہو کر اللہ تعالیٰ سے دعا کی، ’’اے میرا خدا! تو اس کو پھر زندہ کر دے۔‘‘ خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ مردے میں جان پڑ گئی، میں نے اسے قبر سے باہر نکالا۔ اپنا پاجامہ اور قمیض اسے پہننے کو دے دیا اور خود ایک لنگوٹی باندھ لی۔ ابھی میں اور میری بیوی قبرستان سے آ رہی رہے تھے کہ میری آنکھ کھل گئی۔گھڑی دیکھی تو صبح کے پانچ بجے کا وقت تھا۔

(عبدالطیف)

تعبیر:

آپ کی کوئی قیمتی چیز ماضی قریب میں ضائع ہو گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اس کا نعم البدل عطا فرما دیں گے۔

تجزیہ:
دیہات کے ماحول سے مانوس ہونا اس بات کی علامت ہے کہ گمشدہ چیز آپ کے نزدیک اہمیت رکھتی ہے۔ قبر کے اندر گدلا پانی اور کیچڑ آپ کے ذہنی اضطراب کا تمثل ہے۔ آپ کا فاتحہ پڑھنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ آپ نے اس نقصان پر صبر کرنے کی کوشش کی ہے۔

میت کا زندہ ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ آپ کے لاشعور نے آپ کی راہنمائی کر کے یہ بتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ اس گمشدہ چیز کے بدلے میں اللہ تعالیٰ آپ کو اس کا نعم البدل عطا فرمائیں گے اور اس سے بہتر کوئی چیز عطا ہو گی۔

مستقبل کا انکشاف:

ہر سوگھپ اندھیرا ہے۔ میں گم کردہ راہ مسافر کی طرح بھٹکتا پھر رہا ہوں۔ یکایک ہوائی جہاز کی گڑگڑاہٹ سنائی دیتی ہے اور جہاز قلابازیاں کھاتا ہوا نیچے گر جاتا ہے۔ اس جہاز میں سے ایک چینی باشندہ جس کے ہاتھ میں عجیب سا ہتھیار ہے، برآمد ہوتا ہے۔میں اس سے یہ ہتھیار چھیننے کی کوشش کرتا ہوں۔ چینی سپاہی نے مجھ سے پوچھا کہ تم ہندو ہو یا مسلمان۔ میں نے کہا کہ میں مسلمان ہوں۔ پھر دیکھا کہ خلاء میں ایک راکٹ محو پرواز ہے۔ اس راکٹ میں سے آگ نکل رہی ہے۔ اب محسوس ہوا کہ یہ آگ مجھے بھسم کر ڈالے گی۔ میں کوئی چیز راکٹ کی طرف اچھال دیتا ہوں راکٹ نشانہ کی زد میں آ کر نیچے گر جاتا ہے۔

خواب میں دیکھا کہ دو لڑکیاں میرے دونوں اطراف میں موجود ہیں۔ ایک لڑکی کے ہاتھ میں پانی سے بھری ہوئی بالٹی ہے۔ میں یہ بالٹی چھین لیتا ہوں۔ لڑکی روتے ہوئے اپنے گھر کی طرف چلی جاتی ہے اور اپنے والد کو لے کر آتی ہے۔ میں خوفزدہ ہو کر بالٹی پھینک دیتا ہوں اور ایک چھوٹی سی دیوار کی آڑ میں چھپ جاتا ہوں۔ مگر دوسری لڑکی بتا دیتی ہے کہ یہ یہاں چھپا ہوا ہے۔ لڑکی کا والد سخت سست کہہ کر مجھ سے پوچھتا ہے کہ تم نے میری لڑکی کو کیوں مارا ہے؟ میں نے عاجزی سے کہا کہ میں نے اس کو نہیں مارا میں نے تو صرف اس سے دودھ سے بھری بالٹی چھینی ہے۔ لڑکی کے والد نے کہا، ’’تم نے بالٹی کیوں لی۔ کیا تم لڑکی ہو؟ تمہیں شرم نہیں آتی تم لڑکیوں کے ساتھ مذاق کرتے ہو۔‘‘

تیسرا خواب یہ ہے کہ بشمول میرے چند لڑکے اساتذہ کے ساتھ ایک بازار میں کھڑے ہیں۔ ہمارے اسلامیاب کے ٹیچر میری طرف اشار ہ کر کے کہتے ہیں کہ دلدار کو کشمیر میں رہتے ہوئے کئی سال گزر گئے ہیں۔ یہ تو اسے بھی معلوم نہیں ہو گا کہ وادی ظلمات کس جگہ ہے۔ پھر میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر سمجھانے کے سے انداز میں مجھ سے کہا، بیٹا! وادی ظلمات کشمیر کے پرلی طرف کوہ ہمالیہ کے دامن میں واقع ہے۔ وہاں ہر وقت اندھیرا رہتا ہے۔

(دلدار محمد)

تعبیر:

خواب میں جو علامتیں اور اشارات پائے جاتے ہیں وہ ان ارادوں کو ظاہر کرتے ہیں جو ماضی قریب میں باہر جانے سے متعلق پیدا ہوئے ہیں اور عزائم کی صورت اختیار کرتے رہے ہیں۔ باہر جانے سے مراد کسی غیر ملک کا سفر ہے۔ لیکن حالات ناسازگار ہونے کی وجہ سے اس سفر کے امکانات یا تو بالکل ختم ہو چکے ہیں یا بہت ہی کم رہ گئے ہیں۔ مستقبل میں ان کے پورا ہونے کی کوئی امید بھی نظر نہیں آتی۔

تجزیہ:

دوسرا اور تیسرا خواب، پہلے خواب کے سلسلے کی ہی کڑیاں ہیں۔ ہوائی جہاز اور راکٹ کے مظاہر اور چینی سپاہی کا جہاز سے برآمد ہونا، ماضی قریب میں باہر جانے سے متعلق ارادے اور عزائم کو ظاہر کرتا ہے۔دو لڑکیوں کو دیکھنا، ایک لڑکی کے ہاتھ سے پانی سے بھری ہوئی بالٹی لے لینا اور پھر یہ کہنا کہ میں نے دودھ کی بالٹی لی ہے ایسے تمثلات کی شبیہیں ہیں اور تصورات ہیں جو باہر جانے کی صورت میں ذہن نے قائم کئے ہیں۔ دیوار کے پیچھے چھپنا اور خوفزدہ ہونا اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ آپ کے عزائم حالات سازگار نہ ہونے کی وجہ سے تشنہ کام رہ گئے ہیں۔ لڑکی کا گھر کی طرف روتے ہوئے جانااور ا س کے والد کا آپ کو سخت سست کہنا بھی یہی ظاہر کرتا ہے۔

بازار غیر ملک کا تمثل ہے۔ لڑکے اور استاد غیر ملک سے متعلق آپ کے تصورات کے تمثلات ہیں۔ کشمیر اور کوہ ہمالیہ ان تصورات اور عزائم کی بلند پروازی کی طرف اشارہ ہے۔ جبکہ وادی ظلمات اس بات کی علامت ہے کہ مستقبل میں ان ارادوں کے پورا ہونے کی کوئی امید نہیں پائی جاتی۔

مشورہ:
جاسوسی ناول پڑھنا آپ کے ذہن کو متاثر کرتا ہے۔ آپ جاسوسی ناول نہ پڑھیں ورنہ خدانخواستہ کوئی دماغی مرض لاحق ہو جائے گا۔ جاسوسی کرداروں سے متعلق جو خواب آپ نے لکھا ہے وہ خواب نہیں ہے بلکہ وہ سب کردار جو آپ بہت انہماک کے ساتھ پڑھتے ہیں خواب میں منتقل ہو گئے ہیں۔ یہی اس خواب کی تعبیر ہے۔

ٹریفک کا شور:

خواب میں اطلاع ملی کہ میرے بھائی نے نیا گھر کرایہ پر لیا ہے۔ یہ اطلاع کس نے دی مجھے معلوم نہیں، میں نے صرف آواز سنی ہے۔ آواز جیسے ہی میرے کان میں پڑی میں نے دیکھا کہ ایک خوبصورت شہر ہے۔ قطار در قطار اسٹریٹ لائٹس ایک روشن لکیر کی طرح نظر آ رہی ہیں۔ درختوں کے سائے زمین پر متحرک نقش و نگار بنا رہے ہیں۔ ٹریفک کا بے ہنگم شور ذہن پر ناگواری کے اثرات مرتب کر رہا ہے۔ بازار میں دکانیں کھلی ہوئی ہیں لیکن سامان کسی دکان پر موجود نہیں۔ میں نے ایک دکاندار سے پوچھا کہ تمہاری دکان کا سامان کیا ہوا؟ اس نے جواب دیا کہ لوگ آئے اور سامان لوٹ کر لے گئے۔ میں گھومتا پھرتا اس شہر کے کسی صاف ستھرے محلے میں جا نکلا۔ وہاں میرا بھائی مجھے ملا اور اس نے بہت ہی بڑی بلڈنگ کی دوسری منزل میں کافی کشادہ اور ہندوستانی طرز تعمیر کا ایک مکان مجھے دکھایا۔ میں نے کہا کہ مکان تو بہت اچھا ہے مگر اس کا کرایہ بہت زیادہ ہے۔

(گل خان)

تعبیر:

مستقبل میں مہمانوں کی آمد اور قیام کے امکانات ہیں۔ مہمانوں کا قیام طبیعت کے لئے بارثابت ہو گا مگر خواب دیکھنے والا اس کا اظہار نہیں کر سکے گا۔ اس خواب سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ صاحب خواب کی مالی حیثیت اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ مستقل مہمانداری کا بوجھ برداشت کیا جائے۔

تجزیہ:

خواب میں صرف آواز کا سننا اور کہنے والے کی شبیہہ سامنے نہ آنا اس بات کی علامت ہے کہ خواب دیکھنے والا دماغی کمزوری سے دوچار ہے۔ اسٹریٹ لائٹس اور شہر کی خوبصورتی، کسی محلہ میں کشادہ اور ہندوستانی طرز کے مکان کا دیکھنا اس طرف اشارہ ہے کہ موجودہ حالات میں آمدنی صرف گزر بسر کے لئے کافی ہو سکتی ہے۔ اس بات کا اظہار کہ مکان کا کرایہ زیادہ ہے اس بات کی شبیہہ ہے کہ حاصل وسائل میں سے روٹین سے ہٹ کر زیادہ خرچ دماغ اور ذہن کو متاثر کرنے کا پیش خیمہ ہے۔ بھائی اس بات کا تمثل ہے کہ آنے والا مہمان کوئی دوست یا شناسا نہیں بلکہ قریبی رشتہ دار ہے۔

سفید پتھر:

خواب میں دیکھا کہ ہم سب گھر والے چھاؤنی گئے ہیں۔ میں اور میری باجی چھاؤنی کی کشادہ اور صاف شفاف سڑک پر چہل قدمی کر رہے ہیں۔ سڑک کے کنارے ایک درہ ہے۔ ہم دونوں بہنیں اس درے میں اتر جاتی ہیں۔ ابھی درے میں چند قدم فاصلہ طے کیا تھا کہ یکدم منظر بدل گیا۔ درہ ایک بے آب و گیاہ میدان بن گیا۔ ایسا معلوم ہوا کہ درے کے تمام سفید پتھر تحلیل ہو کر میدان بن کی صورت میں نمودار ہو گئے ہیں۔ ابھی اس بات پر حیرانی ختم نہیں ہوئی تھی کہ پھر منظر بدل گیا۔ خشک اور بے آب و گیاہ میدان سر سبز و شاداب چمن نظر آنے لگا۔ آسمان پر ہلکے سفید بادل پہلے بھورے اور پھر گہرے کالے ہو کر برسنے لگے۔ دھوں دھار بارش اور بادلوں کی کڑک اور چمک نے اس میدان سے ہمارے نکلنے کے سب راستے مسدود کر دیئے۔ اس طوفان بادوباراں میں شرابور ہم دونوں ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑے مشرق کی طرف چلے جا رہے تھے۔ چلتے چلتے ایک جھونپڑی نما مکان نظر آیا۔ ہم دونوں بہنیں اس مکان کے قریب کھڑی ہو جاتی ہیں۔ یہ مکان بھی اپنی نوعیت کا نرالا مکان ہے۔ صحن میں باغ اور پھول پھلواری تو تھی ہی مکان کی چھت پر بھی درخت ہی درخت نظر آئے۔ کچھ وقفہ کے بعد اس مکان سے ایک آدمی باہر نکلا جس نے نیلی وردی پہنی ہوئی ہے۔ ہمیں باہر کھڑے دیکھ کر اس نے اندر آنے کی دعوت دی۔ کچھ پس و پیش کے بعد ہم اندر چلے گئے۔ مکان میں ایک کمرہ ہے۔

کمرے کے ساتھ چھوٹا سا برآمدہ ہے۔ برآمدے میں چارپائی بچھی ہوئی ہے۔ چارپائی پر ایک بڑھیا لیٹی ہے۔ بڑھیا نے سفید رنگ کی کامدار ساڑھی پہن رکھی ہے اور گٹھیا کے مریض کی طرح درد سے کراہ رہی ہے۔ وہ آدمی جو ہمیں گھر میں لایا تھا، اس کمرہ میں لے جاتا ہے۔ سفید رنگ کے کپڑے دے کر ہم سے کہتا ہے کہ بھیگے ہوئے کپڑے اتار دو اور یہ پہن لو۔ اس کمرہ کے اندر ایک اور کمرہ ہے۔ ہم دونوں بہنیں کپڑے لے کر اس کمرے میں گھس گئیں۔ اس کمرہ میں بہت ساری رضائیاں رکھی ہوئی ہیں۔ اور دو تین جوان لڑکیاں رضائیوں میں دبکی ہوئی ہیں۔ میری باجی بھی ان کے ساتھ رضائی اوڑھ کر بیٹھ جاتی ہے۔ میں نے کمرہ سے باہر آ کر بڑھیا کی خیر و عافیت پوچھی۔ بڑھیا نے میرے سر پر ہاتھ رکھا اور پوپلے منہ سے کہا، ’’تو میری بیٹی ہے۔‘‘ تھوڑی دیر کے بعد ایک جوان العمر عورت گلابی ساڑھی زیب تن کئے برآمدہ میں آ گئی۔ اس نے بڑھیا سے نہایت بدکلامی سے بات کی بڑھیا نے کہا کہ یہ میرے لڑکے کی دلہن ہے۔ اس دوران کمرے میں موجود لڑکیاں اور میری باجی بھی برآمدہ میں آ گئیں۔ ساس بہو کا جھگڑا شروع ہو گیا۔ بڑھیا کی بہو نے غصہ کی حالت میں سب کے سامنے ساڑھی اتار دی۔ میں نے عورت کی اس حرکت کو بہت ناگوار محسوس کیا۔ بڑھیا نے پلنگ سے اتر کر اتری ہوئی ساڑھی کو اٹھا لیا اور مجھ سے کہا کہ تم بہت اچھی بیٹی ہو، لو یہ ساڑھی پہن لو۔ میں بڑھیا سے لے کر یہ ساڑھی الٹی سیدھی اپنے جسم پر لپیٹ لیتی ہوں۔ اب مجھے گھر واپس جانے کا خیال آتا ہے لیکن میری باجی گم ہو جاتی ہیں اور اپنی بہن کی جدائی برداشت نہ کر کے میں رونے لگتی ہوں اور روتے روتے میری آنکھ کھل جاتی ہے۔

(فاطمہ)

تعبیر و تجزیہ:

پورا خواب شروع سے آخر تک نامساعد حالات کی طرف اشارہ کرتا ہے لیکن ساتھ ہی خواب کے اجزائے ترکیبی یہ ظاہر کرتے ہیں کہ بہت جلد ایسے حالات رونما ہو جائیں گے جو خوشی، اطمینان اور کامیابی کے باعث بنیں گے۔ پے در پے اچھے حالات پیش آئیں گے اور بار بار خوشیاں سامنے آئیں گی۔

خواب کی بہت سی قسمیں ہوتی ہیں۔ اس قسم کا خواب جس میں ماضی اور مستقبل کے حالات پوری طرح کڑی در کڑی زنجیر کی طرح سامنے آئیں بہت اہمیت رکھتا ہے۔ یہ خواب بھی اس ہی قسم کا خواب ہے۔ خواب کی فلم میں ہر تصویر زنجیر کے حلقوں کی طرح ایک دوسرے کے ساتھ وابستہ اور پیوست ہے۔ ماضی کے اچھے دن، زمانہ حال کی پریشانیاں اور مستقبل میں پیش آنے والی آسانیاں خواب میں فلم کی صورت اختیار کر گئیں ہیں۔ صاف اور کشادہ سڑک پر چہل قدمی یا تفریح میں ماضی کے اچھے دنوں کے نقوش پوشیدہ ہیں۔ درہ اور بے آب و گیاہ میدان سے زمانہ حال کی پیچیدگیوں، مایوسیوں اور پریشانیوں کا انکشاف ہوتا ہے۔ سرسبز اور شاداب چمن اور بارش خوش آئند مستقبل کا تمثل ہے۔ جھونپڑی نما مکان، مکان میں سبزہ اور پھر بڑھیا، ماضی کے اچھے دنوں کی تصویر کشی ہے۔ ساس بہو کا مکالمہ اور بہو کی بدتہذیبی کو محسوس کرنا موجودہ پریشان حالی کا مظہر ہے۔ بڑھیا کا ساڑھی دینا اور قبول کرکے جسم پر لپیٹ لینا مستقبل کی پے در پے خوشیوں اور آسانیوں کو ظاہر کرتا ہے۔ گھر واپس جانے کا خیال ماضی کی عکاسی کرتا ہے۔ بہن کا گم ہونا، ماضی کی راحت بخش اور آرام دہ زندگی کے ختم ہونے کی علامت ہے۔ جبکہ رونا خوش آئند مستقبل کا پیش خیمہ ہے۔

خواب میں تفکر:

رات کے پچھلے پہر خواب دیکھا کہ میں اپنے دوست کے گھر گیا ہوں۔ دوست تو مجھے ملا نہیں، دوست کی چھوٹی بہن نے کہا، چلو میں تمہیں بھائی کے پاس لے چلتی ہوں۔ یہ لڑکی مجھے ایک نو تعمیر شدہ مکان میں لے گئی۔ اس گھر میں دوست کے بجائے میری ملاقات اپنے شعبہ کے انچارج سے ہوئی وہ مجھ سے بہت اچھی طرح پیش آئے۔ تھوڑی دیر کے بعد ان کی بیگم آئیں۔ انچارج صاحب نے اشارہ سے کچھ کہا اور وہ چلی گئیں۔ میں وہاں سے رخصت ہوتے وقت اپنا تھیلا بھول گیا جس میں میرے چند ضروری کاغذات تھے۔ میں دوبارہ گیا اور کہا کہ جناب میں یہاں اپنا تھیلا بھول گیا ہوں۔ انچارج صاحب نے کہا پھر کسی وقت آ کر لے جانا میں نے عرض کیا کہ جناب میں اس وقت اپنے گھر میں سویا ہوا ہوں اور آپ کے پاس خواب کی حالت میں موجود ہوں۔ پھر تشریح کرتے ہوئے کہا، ’’جس طرح کوئی آدمی خواب میں کہیں چلا جاتا ہے اسی طرح میں بھی آپ کی خدمت میں حاضر ہو گیا ہوں اور واقعہ یہ ہے کہ اس وقت میں خواب دیکھ رہا ہوں۔ میرا جسم گھر میں سویا ہوا ہے۔‘‘

پھر میں نے خواب میں ہی سوچنا شروع کر دیا کہ یہ مکان جس میں اس وقت یہ صاحب موجود ہیں وہ نہیں ہے جس میں یہ پہلے مقیم تھے۔ میں نے ان سے سوال کیا کہ آپ نے مکان تبدیل کر دیا ہے؟ انہوں نے کہا، ’’ہاں! میں نے مکان تبدیل کر لیا ہے۔‘‘

عرض ہے کہ تعبیر و تجزیہ کے ساتھ اس امر پر بھی روشنی ڈالی جائے کہ خواب کی حالت میں یہ بات میرے ذہن میں کیوں رہی کہ میں خواب دیکھ رہا ہوں اور یہ بات میں نے کس طرح محسوس کی کہ بیداری کی طرح خواب میں بھی سوچ رہا ہوں۔ یہ سوال اس لئے پیدا ہوتا ہے کہ جب آدمی سو کر اٹھتا ہے تب اس کے حافظے میں یہ بات ہوتی ہے کہ میں نے سونے کی حالت میں کچھ دیکھا ہے۔ لیکن یہ صورت حال مختلف ہے کہ خواب میں یہ بات سامنے آ جائے کہ یہ سب حرکات خواب میں سرزد ہو رہی ہیں۔ حافظہ کا یہ محسوس کرنا کہ خواب میں اسی طرح غور و فکر کیا جا رہا ہے جس طرح بیداری میں سوچا جاتا ہے بہت عجیب معلوم ہوتا ہے۔ میرے ساتھ اس طرح کیفیت کبھی پیش نہیں آئی نہ آج تک کسی شخص نے مجھے اس قسم کی بات بتائی ہے۔ استدعا ہے، میرے سوال پر تفصیلی روشنی ڈالی جائے۔

(منیر چوہدری)

جواب:

عزیز بھائی۔ تفصیل کی گنجائش نہیں ہے۔ اختصار کے ساتھ چند سطور میں جواب پیش خدمت ہے۔

ہمیں پہلے یہ غور کرنا ہے کہ انسان فطرت سے کس طرح وابستہ ہے۔ وہ جن چیزوں کو دیکھتا ہے، سنتا، چھوتا اور چکھتا ہے ان کے طور طریقے انسان کے اپنے ہاتھ میں نہیں ہیں۔ فطرت کے ہاتھ میں ہیں۔ فطرت کی تعریف تو بہت وسیع ہے۔ مختصراً یہ کہہ سکتے ہیں کہ اندرون کائنات ایک عمل جاری اور ساری ہے۔ جس کا نام فطرت ہے۔ اس عمل کی حدود میں وصول گاہیں پائی جاتی ہیں۔ یہ وصول گاہیں فطرت کی نشریات کو، جو ہمہ وقت موصول ہوتی ہیں نوٹ کرتی رہتی ہیں۔ وصول کرنے کی قدریں، وصول گاہوں کی شعوری حدود سے ایک تناسب رکھتی ہیں۔

لوح محفوظ کا قانون یہ ہے کہ وصول گاہوں کا زون جتنا اپنی ذات کے لئے ہوتا ہے، اتنا ہی اپنی ذات کو ترجیح دیتا ہے اور ذات کی حدود میں دور کرتا رہتا ہے۔ اگر یہ زون وقتی طور پربیرون ذات کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے تو ایسی نشریات بھی وصول کر لیتا ہے جو ذات کے شعور کے دائرہ سے باہر ہوتی ہیں اور ان نشریات کو نوٹ کرنے کے بعد خواب میں بیان کر دیتا ہے۔ شعور ان نشریات کے زمان و مکان معین نہیں کر سکتا۔ وہ یہ نہیں بتا سکتا کہ یہ واقعہ ماضی کا ہے یا مستقبل کا اور کیا پیش آیا ہے یا آئندہ کیا پیش آئے گا۔ شعور چونکہ زمان و مکان معین نہیں کر سکتا اس لئے بیداری کے واقعات سے ان کا ربط ملانے سے قاصر رہتا ہے اور جیسے ہی قاصر ہونے کا احساس پیدا ہوتا ہے، شعور کہنے لگتا ہے کہ یہ خواب تھا۔ بالکل اسی طرح خواب کی حالت میں جب یہ احساس پیدا ہو جاتا ہے تو فوراً ذہن میں یہ بات آتی ہے کہ میں خواب کی حالت میں ہوں اور خواب در خواب دیکھ رہا ہوں۔

ایسا نہیں ہے کہ آپ ہی کے ساتھ خواب در خواب دیکھنے کی صورت پیش آئی ہو۔ ایسا ہوتا ہے لیکن کم ہوتا ہے۔

تعبیر:
آپ کے خواب میں ترقی سے متعلق تمثلات پائے جاتے ہیں۔ تشریح اس طرح ہے کہ خواب دیکھنے والے صاحب کسی سفارش سے پر امید ہیں لیکن طبیعت اس بناء پر مطمئن نہیں ہے کہ دوسرا سینئر آدمی جو مستحق ہے، رکاوٹ بنا ہوا ہے۔ ترقی دینے والے صاحب ان دونوں باتوں سے اب تک بے خبر ہیں۔ ان کے سامنے یہ مسئلہ ہی موجود نہیں ہے۔ یعنی سفارش، ترقی اور سنیارٹی وغیرہ وغیرہ۔

وہاں صرف ایک چیز پیش نظر ہے کہ آئندہ محکمہ جاتی رو سے ایک آدمی کو ترقی دی جائے اور بس۔ چنانچہ خواب میں یہ محسوس ہونا کہ خواب دیکھ رہا ہوں اس بات کی علامت ہے کہ محکمہ جاتی روٹین اب تک حرکت میں نہیں آیا۔ یہ بات کہ ترقی کب دی جائے ابھی تک زیر بحث نہیں ہے۔

محکمہ جاتی معاملہ اور پر امید شخصیت دونوں میں کوئی رابطہ نہیں پایا جاتا۔ خواب دیکھنے والے کے ذہن نے یہ محسوس کر لیا اس ہی لئے خواب در خواب ہو گیا۔ دوست کی تلاش، لڑکی کی راہنمائی اور نوتعمیر شدہ مکان یہ سب ترقی سے متعلق امید کی شبیہیں ہیں۔ شعبہ کے انچارج سے مکالمہ میں یہ جملہ کہ تھیلہ پھر کسی وقت آ کر لے جانا، اس طرف نشاندہی ہے کہ فی الحال ترقی کا مسئلہ محض امیدوں کی حدوں تک محدود ہے۔

ٹیلی فون کی آواز:

میں نے دیکھا کہ میں اپنی دکان پر بیٹھا ہوں۔ ٹیلی فون کی گھنٹی بجتی ہے۔ ریسیور اٹھانے پر پتہ چلتا ہے کہ گاؤں میں میرے چچا صاحب فوت ہو گئے ہیں۔ میں دکان بند کر کے گھر گیا۔ گھر والوں کو اس حادثۂ جانکاہ کی خبر دی اور گاؤں کی طرف روانہ ہو گیا۔ گاؤں پہنچ کر دیکھا تمام رشتہ دار رو رہے ہیں۔ مجھ سے رشتہ داروں کا بلک بلک کر رونا دیکھا نہ گیا اور میں گھر سے باہر آ گیا۔ میرے ماموں بھی باہر ہی میرے پاس آ کر کھڑے ہو گئے۔ کچھ دیر کے بعد عزیز و اقارب پانی بھرنے کے لئے آئے۔ میں نے بھی پانی بھرنے میں ان کی مدد کی۔ پھر دیکھا کہ میرا بھائی بھی میرے پاس آ کر کھڑا ہو گیا ہے اور ہم دونوں ٹہلتے ٹہلتے گاؤں سے باہر نکل گئے۔ گاؤں سے باہر ایک ندہ بہہ رہی ہے۔ میں ندی کے پاس جا کر اندی کے پانی کو دیکھتا ہوں۔ اسی دوران مجھے ریل چلنے کی آواز سنائی دیتی ہے۔ پھر دیکھا کہ گاؤں کے ایک مکان سے بچہ نکلا اور دوڑتا ہوا ریل کی پٹڑی کے درمیان جا کر بیٹھ گیا۔ میری نظر جب اس بچہ پر پڑی تو مجھے خیال آیا کہ اگر فوراً بچے کو نہ ہٹایا گیا تو بچہ ریل کے نیچے آ جائے گا۔ یہ تو یاد نہیں کہ بچے کا کیا ہوا البتہ ریل آئی اور اسٹیشن پر آ کر کھڑی ہوگئی۔ ریل سے کچھ مسافر اترے اور کچھ سوار ہوئے اور ریل پھر حرکت میں آ گئی۔ اس کے بعد دیکھا کہ ریل ایبٹ آباد پہنچ کر رکی اور میں بھی ایبٹ آباد پہنچ گیا۔ شہر میں بارش ہو رہی تھی، اتنی تیز بارش کہ سڑکیں بند ہو گئی تھیں۔ میں گھٹنوں گھٹنوں پانی میں سے گزر ہی رہا تھا کہ میری آنکھ کھل گئی۔

(علی گوہر)

تعبیر:
خواب کے آغاز میں اس سفر کے اشارات پائے جاتے ہیں جو عنقریب زیر اہتمام ہے لیکن آخری مظاہر اور درمیان کے کچھ تمثلات سفر کو پوری طرح نتیجہ خیز ثابت نہیں کرتے۔ فائدہ ضرور ہو گا لیکن اتنا نہیں جتنی توقع کی جا رہی ہے ۔ البتہ تشویش کی کوئی بات نہیں، اللہ تعالیٰ بہتری کریں۔

Topics


Aap ke khwab aur unki tabeer jild 01

خواجہ شمس الدین عظیمی

آسمانی کتابوں میں بتایا گیا ہے کہ:

خواب مستقبل کی نشاندہی کرتے ہیں۔

عام آدمی بھی مستقبل کے آئینہ دار خواب دیکھتا ہے۔



 

 

  

 

انتساب


حضرت یوسف علیہ السلام کے نام جنہوں نے خواب سن کر مستقبل میں پیش آنے والے چودہ سال کے  حالات کی نشاندہی کی

اور

جن کے لئے اللہ نے فرمایا:

اسی طرح ہم نے یوسف کو اس ملک میں سلطنت عطا فرمائی اور اس کو خواب کی تعبیر کا علم سکھایا۔