Topics

انسان خواب اور بیداری کے حواس کا مجموعہ ہے

قرآن پاک کے بیان کردہ قانون کی روشنی میں اصل انسان حواس کا پابند کبھی نہیں ہوتا۔ حواس ہمیشہ انسان کے پابند رہے ہیں۔

آیئے! یہ تلاش کریں کہ انسان کو حواس، سوچنا، سمجھنا، متاثر ہونا، غم زدہ یا خوش ہونا، زندہ رہنے کی کوشش کرنا یا موت سے ہم آغوش ہو جانا کہاں سے ملے ہیں۔ اور ان کی حیثیت کیا ہے؟

اللہ کریم فرماتے ہیں:

’’اے آدم! تو اور تیری بیوی جنت میں رہو اور جہاں سے تمہارا دل چاہے خوش ہو کر کھاؤ پیو (تمہارے اوپر زمانیت اور مکانیت کی کوئی پابندی نہیں) لیکن اس درخت کے قریب نہ جانا ورنہ تم اپنے اوپر قید و بند کا عذاب مسلط کر لو گے۔‘‘

(قرآن)

درخت معنوی نقطۂ نظر سے ایک ایسی چیز کو کہا جاتا ہے جس میں شاخ در شاخ پتے اور پھل پھول کی موجودگی پائی جاتی ہے۔ اللہ کریم کے فرمان کا مفہوم یہ ہے، ’’اے آدم! زمان و مکان کی پابندی قبول نہ کرنا ورنہ تو اس میں اس طرح جکڑ جائے گا جس طرح کسی درخت میں شاخ میں سے شاخ اور پھر شاخ میں سے شاخ اور ہر شاخ میں بے شمار پتے ہوتے ہیں اور جب تو خوشی کے بدلے قید کی زندگی قبول کر لے گا تو اپنے اوپر ظلم کرے گا۔‘‘

اور جب شیطان کے بہکانے سے آدمؑ نے قید و بند کی زندگی کو اپنا لیا تو جنت نے آدم و حوا کو رد کر دیا۔ چونکہ انسان جنت کے حواس کھو بیٹھا تھا جو اس کے اپنے اصلی حواس ہیں اس لئے انسان کو زمین پر پھینک دیا گیا جہاں وہ پابندی اور صعوبت کے حواس میں گرفتار ہے۔ زمین کے اوپر کام کرنے والے حواس مفروضہ ہیں۔ یہ بات مبنی بر حقیقت اس لئے ہے کہ یہ انسان کے اصل حواس نہیں بلکہ نافرمانی کے بعد مسلط شدہ عارضی حواس ہیں۔ انسان کے اصل حواس وہ ہیں جہاں اس پر زمان و مکان کی حد بندیاں عائد نہیں ہوتیں۔ اگر انسان ان عارضی اور فکشن حواس کے تسلط سے نجات پا جائے تو پھر وہ اپنے اصل اور آزاد حواس کو حاصل کر سکتا ہے۔

اصل حواس میں غم، پریشانی، جذباتی کشمکش، اعصابی کشاکش اور دل و دماغ کا کرب نہیں ہے۔

نوع انسانی کی تاریخ میں ایک بھی مثال پیش نہیں کی جا سکتی کہ انسان بیداری اور سونے کی حالتوں میں سے کسی ایک حالت پر قدرت رکھتا ہو۔ انسان جس طرح سونے پر مجبور ہے بالکل اسی طرح بیداری بھی اس کی طبیعت کا ایسا تقاضہ ہے جس کو کسی صورت میں رد نہیں کر سکتا۔ بیداری کے اعمال و واقعات میں انسان کا دماغ جس طرح توہمات، خیالات، تصورات، احساسات اور عمل کرنے کی تحریکات کی آماجگاہ بنا رہتا ہے، بالکل اسی طرح خواب میں انسانی دماغ ایک لمحہ چین سے نہیں بیٹھتا۔ خواب کے اندر کئے ہوئے اعمال اگر حافظہ کی گہرائی میں نقش ہو جاتے ہیں تو وہ اسی طرح یاد رہتے ہیں جس طرح بیداری میں کیا ہوا عمل یاد رہتا ہے۔ اگر بیداری کا عمل حافظہ کی گہرائی میں نقش نہ ہو تو وہ اسی طرح بھول کے خانے میں جا پڑتا ہے جس طرح خواب میں کئے ہوئے اعمال فراموش ہو جاتے ہیں۔ یہ کوئی تمثیل نہیں ہے۔ عام تجربات اور مشاہدات ہیں جس سے ہر شخص کو واسطہ پڑتا ہے۔

انسان خواب اور بیداری کے حواس کا مجموعہ ہے۔ اگر انسان کے اندر خواب کے حواس نہ ہوتے تو انسان کبھی بھی مستقبل میں قدم نہیں رکھ سکتا تھا، جنت جہاں ماضی ہے وہاں مستقبل بھی ہے جو انسان کا اصل مقام اور وطن ہے۔ اگر بیداری کے حواس کو خواب کے حواس پر غلبہ حاصل ہو جاتا تو انسان غیب کی دنیا میں اپنے لئے کوئی مقام منتخب نہیں کر سکتا تھا۔

 

Topics


Aap ke khwab aur unki tabeer jild 01

خواجہ شمس الدین عظیمی

آسمانی کتابوں میں بتایا گیا ہے کہ:

خواب مستقبل کی نشاندہی کرتے ہیں۔

عام آدمی بھی مستقبل کے آئینہ دار خواب دیکھتا ہے۔



 

 

  

 

انتساب


حضرت یوسف علیہ السلام کے نام جنہوں نے خواب سن کر مستقبل میں پیش آنے والے چودہ سال کے  حالات کی نشاندہی کی

اور

جن کے لئے اللہ نے فرمایا:

اسی طرح ہم نے یوسف کو اس ملک میں سلطنت عطا فرمائی اور اس کو خواب کی تعبیر کا علم سکھایا۔