Topics

روح کا لباس



’’تم اللہ کا کیونکر انکار کر سکتے ہو کہ تم بے جان تھے اس نے تمہیں جان بخشی پھر وہی تم کو مارتا ہے پھر تم کو زندہ کرے گا پھر تم اسی کی طرف لوٹ جاؤ گے‘‘۔

(قرآن)

انسان موت و حیات کے دو مرحلوں میں سفر کر رہا ہے۔ اس پر موت آتی ہے اور زندگی کے دائرے میں داخل ہوتا ہے۔ لیکن کسی بھی لمحے نیست و نابود نہیں ہوتا۔ یعنی موت بھی زندگی کی ایک شکل ہے۔ اگر موت کا مقصد نیست و نابود ہوتا تو آج کا پیدا ہونے والابچہ دوسرے لمحے سے تیسرے لمحے میں موجود نہ ہوتا۔ موت و حیات کے مرحلوں سے گزرنے کے لئے روح مادی جسم بناتی ہے۔ اس کی حفاظت کرتی ہے اور اسے استعمال کرتی ہے اور جب روح اس لباس کو اتار دیتی ہے تو انسان پر ایسی موت وارد ہو جاتی ہے کہ انسان اس زمین پر نظر نہیں آتا۔

فصوص الحکم میں شیخ اکبر محی الدین ابن عربیؒ فرماتے ہیں:

’’اللہ تعالیٰ خلقت انسانی کو موت سے فنا نہیں کرتا۔

موت کا مطلب عدم نہیں ہے۔

بلکہ اجزاء کا بکھرنا ہے۔‘‘

ہماری زندگی میں موت سے ملتی جلتی حالت نیند ہے۔ اللہ کریم فرماتے ہیں:

’’اور وہی ہے جو تمہاری روح قبض کر لیتا ہے اور جو کچھ تم دن میں کرتے ہو اس سے باخبر ہے۔ پھر تمہیں دن کو اٹھا دیتا ہے تا کہ یہی سلسلہ جاری رکھ کر زندگی کی معین مدت پوری کر دی جائے۔‘‘

(الانعام)

’’اللہ مرنے کے وقت لوگوں کی روحیں قبض کر لیتا ہے۔ جو مرتے نہیں ان کی نیند میں، پھر جن پر موت کا حکم کرتا ہے ان کو روک لیتا ہے اور باقی روحوں کو وقت مقررہ تک کے لئے چھوڑ دیتا ہے۔ جو لوگ تفکر کرتے ہیں ان کے لئے اس میں نشانیاں ہیں۔‘‘

(الزمر)

نیند اور موت کا موازنہ کیا جائے تو ایک بہت واضح فرق سامنے آتا ہے۔ جس طرح موت میں تمام حواس معطل ہو جاتے ہیں اسی طرح خواب میں بھی حواس معطل ہو جاتے ہیں۔ فرق صرف سانس کے آنے جانے کا ہے۔ نیند ایک ایسی موت ہے جس میں سانس کا آنا جانا جاری رہتا ہے اور موت ایک ایسی کیفیت ہے کہ جس میں حواس کے ساتھ ساتھ بانس کی آمد و شُد معطل ہو جاتی ہے۔
سائنس دانوں نے جب مختلف آلات کے ذریعے نیند کے دوران دماغ کی برقی رو کا مطالعہ کیا تو یہ برقی رو حالت بیداری کے مشابہہ ثابت ہوئی۔ گویا سونے والے انسان کا دماغ مکمل طور پر مستعد پایا گیا جو اس بات کا ثبوت ہے کہ مادی اعتبار سے تو انسان ہمارے سامنے معطل حواس میں موجود ہے لیکن اس کا دماغ حالت بیداری کی طرح متحرک اور مصروف عمل ہے۔

خواب کیا ہے۔ اس بارے میں مسلم اور غیر مسلم دانشوروں کے اپنے اپنے نظریات ہیں۔

امام غزالیؒ نے روح اور جسم کے باہمی تعلق کو مدنظر رکھ کر خواب کے بارے میں تفصیلات جمع کی ہیں۔ امام غزالیؒ کے نزدیک انسان کے اندر ہمہ وقت دو رخ کام کرتے ہیں۔ یہ دو رخ جسم اور روح ہیں۔ جب تک انسان جاگتا ہے جسم مادی دنیا میں مصروف رہتا ہے اور جب وہ سو جاتا ہے تو روح عالم بالا میں پہنچ جاتی ہے۔ جب تک انسان سوتا رہتا ہے روح عالم ارواح میں سیر کرتی رہتی ہے۔ اکابر علمائے باطن نے اس عالم کو عالم مثال کہا ہے۔

قرآن پاک میں جتنے بھی خوابوں کا ذکر آیا ہے سب کا تعلق مستقبل سے ہے یعنی خواب مستقبل بینی کا حقیقی ذریعہ ہیں۔

حجۃ اللہ البالغہ میں شاہ ولی اللہؒ فرماتے ہیں:

’’عالم موجودات میں ایک ایسا عالم بھی ہے جو غیر عنصری ہے۔ جس میں معانی ان اجسام کی صورت میں مشکل ہوتے ہیں جو اوصاف کے لحاظ سے مناسب ہوں۔ اشیاء کا وجود پہلے اس عالم میں ہوتا ہے پھر دنیا میں ہوتا ہے اور دنیا عالم مثال کا عکس ہے۔‘‘

انسان کے لاشعورمیں ازل سے ابد تک کا تمام ریکارڈ موجود ہے۔ لاشعور میں سے جس قدر علم حاصل کر لیا جائے دراصل وہی انسان کا شعور ہے۔ لاشعوری ریکارڈ میں سے جتنا زیادہ ریکارڈ کوئی انسان پڑھ لیتا ہے۔ اسی مناسبت سے وہ صاحب ادراک ہو جاتا ہے۔

اشعوری ریکارڈ میں سے جو ریکارڈ دنیاوی شعور میں نظر نہیں آتا وہ خواب میں نظر آتا رہتا ہے اور جو کچھ نظر آتا ہے وہ ماضی ہوتا ہے۔ خواب میں ملنے والے یہی اشارات ’’الہام‘‘ ہیں۔ جو رنگ، جنس، نسل اور مذہب کی تخصیص کے بغیر ہر انسان کی فطری اور روحانی صلاحیت ہے۔

قلندر بابا اولیاءؒ فرماتے ہیں:

‘‘جس کو ہم خواب دیکھنا کہتے ہیں ہمیں روح اور روح کی صلاحیتوں کا سراغ دیتا ہے۔‘‘

کم و بیش ہر زمانے میں دانشوروں نے اعتراض کیا ہے کہ خواب محض خیالات کی پیداوار ہیں۔۔۔۔۔۔میں مؤلف کتاب خواجہ شمس الدین عظیمی ابن الحاج انیس احمد انصاری عرض کرتا ہوں کہ زندگی کا تجزیہ ہماری رہنمائی کرتا ہے کہ زندگی کا ایک عمل بھی خیال سے آزاد نہیں ہے۔ زندگی کی بنیاد بھوک اور پیاس پر ہے۔ ہر پیدا ہونے والا بچہ اور ہر بوڑھا ہونے والا جوان کھانے اور پینے کے دائرے سے باہر قدم نہیں رکھ سکتا۔ لیکن اس وقت تک کھانا پینا ممکن نہیں ہے جب تک کھانے یا پینے کا خیال دماغ میں وارد نہ ہو، علیٰ ہذا القیاس۔۔۔۔۔۔زندگی کا کوئی بھی عمل چھوٹا ہو یا بڑا خیالات کے تانے بانے پر قائم ہے۔ ہم ہرگز دفتر نہیں جا سکتے اگر ہمیں دفتر جانے کا خیال نہ آئے۔ ہم سو نہیں سکتے جب تک ہمارے اعصاب یہ نہ بتائیں کہ اب جسم کو آرام کی ضرورت ہے۔ ہمیں جنسی آسودگی کا خیال نہ آئے تو ہماری نسل آگے نہیں بڑھ سکتی۔ ہمیں کچھ کرنے کا خیال نہیں آتا تو ہم منجمد ہو جاتے ہیں۔

دانشوروں کا یہ کہنا کہ خواب محض خیالات کی پیداوار ہے اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ایک مخصوص گروہ کے اس خیال کو اہمیت دی جائے کہ خواب محض خیال کی پیداوار ہے تو یہ ایک غیر سائنسی غلط رویئے کو قبول کرنے کے مترادف ہو گا۔

محمد قطب کتاب ’’شبہات حول الاسلام‘‘ میں لکھتے ہیں:

’’خوابوں کی حقیقت کا انکار وہی لوگ کرتے ہیں جو کائنات کے غیر مادی پہلو کے منکر ہیں اور یہ ایسے لوگ ہیں جن کا اوڑھنا بچھونا صرف مادیت ہے۔‘‘

سائنس ابھی ایسے مسائل سے دوچار ہے جن کے بارے میں سائنسدانوں کی معلومات ناقابل اعتبار ہیں کیونکہ سائنس دان مادی خول میں بند ہو کر کوئی فیصلہ کرتے ہیں۔ کچھ سائنس دان دعویٰ کرتے ہیں روح نام کا سرے سے وجود ہی نہیں ہے۔

سائنسدانوں کے نزدیک کوئی انسان غیب کی دنیا سے اپنا رشتہ استوار نہیں کر سکتا جبکہ ہر سائنسدان پر ایسا وقت آتا ہے کہ اس کا مادی وجود تو ہوتا ہے لیکن اس کے اندر حرکت(روح) نہیں ہوتی۔ سائنس کہتی ہے کہ زندگی کا دارومدار آکسیجن پر ہے۔ ہمارا روزمرہ کا مشاہدہ ہے کہ جب سائنسدان یا کوئی آدمی مرتا ہے تو فوری طور پر جسمانی اعضاء منتشر نہیں ہو جاتے جبکہ فضا میں آکسیجن بھی موجود ہوتی ہے۔

شاہ عبدالعزیز محدث دہلویؒ نے ایک کتابچہ ’’تحقیق الرویا‘‘ خواب کی حقیقت پر قلمبند کیا ہے۔ علامہ ابن قیم نے ’’روح کی حقیقت‘‘ پر ایک کتاب لکھی ہے، جس میں خواب سے استدلال کیا گیا ہے۔

قلندر بابا اولیاءؒ خواب اور بیداری کا موازنہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

’’خواب اور بیداری کے اعمال و واقعات یکساں ہیں۔ دونوں میں قدریں مشترک ہیں۔‘‘

بیداری کے اعمال و واقعات کے بارے میں فرماتے ہیں:

’’جس طرح عالم بیداری میں ہم جن چیزوں کی طرف متوجہ نہیں ہوتے وہ ہمیں یاد نہیں رہتیں۔

ہم صرف ان چیزوں کو یاد رکھتے ہیں جن چیزوں کی طرف ہماری توجہ رہتی ہے۔

اسی طرح عالم خواب میں بھی جو چیزیں ہماری توجہ کا مرکز بنتی ہیں وہ چیزیں ہمارے حافظے میں محفوظ رہتی ہیں۔باقی محو ہو جاتی ہیں۔

بیداری کا بڑے سے بڑا وقفہ بے خیالی میں گزرتا ہے۔

اور خواب کا بھی بہت سا حصہ بے خبری میں گزر جاتا ہے۔

کتنی مرتبہ خواب کی بڑی اہمیت ہوتی ہے۔

اور کتنی ہی دفعہ بیداری کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔‘‘

جن چیزوں پر ہماری توجہ ٹھہر جاتی ہے ہم ان چیزوں کو بیان کر دیتے ہیں۔ مطلب یہی ہے کہ جن چیزوں کی طرف توجہ مرکوز ہوتی ہے وہ چیزیں ہمارے حافظے میں نقش ہو جاتی ہیں اور جن چیزوں کی طرف ہم متوجہ نہیں ہوتے ہمیں یاد نہیں رہتیں۔ یہی حال خواب اور خواب میں دیکھے ہوئے حالات و واقعات کا ہے۔ کچھ خواب ہمیں برسوں یاد رہتے ہیں اور بہت زیادہ خواب بھول کے خانے میں جا پڑتے ہیں۔

ان حقائق سے یہ منکشف ہوا کہ اصل بات متوجہ ہونا ہے، خواہ یہ متوجہ ہونا بیداری میں ہو یا خواب میں ہو۔

Topics


Aap ke khwab aur unki tabeer jild 01

خواجہ شمس الدین عظیمی

آسمانی کتابوں میں بتایا گیا ہے کہ:

خواب مستقبل کی نشاندہی کرتے ہیں۔

عام آدمی بھی مستقبل کے آئینہ دار خواب دیکھتا ہے۔



 

 

  

 

انتساب


حضرت یوسف علیہ السلام کے نام جنہوں نے خواب سن کر مستقبل میں پیش آنے والے چودہ سال کے  حالات کی نشاندہی کی

اور

جن کے لئے اللہ نے فرمایا:

اسی طرح ہم نے یوسف کو اس ملک میں سلطنت عطا فرمائی اور اس کو خواب کی تعبیر کا علم سکھایا۔