Topics

الستُ بربکم

 
قرآن پاک کی تعلیمات ہمیں بتاتی ہیں کہ اللہ کریم نے ازل میں اپنی مخلوق کو مخاطب کر کے فرمایا:
’’ میں تمہارا رب ہوں۔‘‘
مخلوق نے اس بات کا اقرار کیا کہ
’’جی ہاں! آپ ہمارے رب ہیں۔‘‘
قرآن پاک کے الفاظ ’’الست بربکم‘‘ اور ’’قالو بلیٰ‘‘ کے معانی اور مفہوم ہماری رہنمائی اس طرح کررہے ہیں کہ ازل میں مخلوق نے اللہ کی آواز سنی، اللہ کی آواز سن کر اللہ کو دیکھا اور اللہ کو دیکھنے کے بعد مخلوق ہونے کا اعتراف کیا۔
اس آیت مبارکہ کی رو سے تخلیق کا منشاء یہ ہوا کہ اللہ یہ چاہتا ہے کہ مخلوق اس عہد کو پورا کرے جو اس نے اللہ کی آواز سن کر اور اللہ کو دیکھ کر کیا تھا۔
ہم جب اپنی پیدائش پر غور کرتے ہیں تو یہ دیکھتے ہیں کہ ہم مسلسل سفر میں ہیں۔ کہیں سے آئے ہیں اور اس زمین پر کچھ عرصہ قیام کرنے کے بعد کہیں جا رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ہم کہاں سے آئے ہیں اور کہاں چلے جاتے ہیں۔۔۔۔۔۔اور۔۔۔۔۔۔کیوں آتے ہیں، کیوں چلے جاتے ہیں؟
پیدائش۔
پیدائش کے بعد نشوونما۔
نشوونما کے بعد وسائل کی فراہمی۔
وسائل کی فراہمی کے ساتھ ساتھ دن رات، ماہ و سال کے تعین سے عمر بڑھنے میں ایک خاص توازن۔
آخر اس مرحلہ در مرحلہ نظام کے قیام کی وجہ کیا ہے؟
کیا یہ اتنا بڑا نظام بغیر کسی مقصد کے چل رہا ہے؟
اس وسیع نظام کائنات کے علاوہ ہم اپنے جسمانی نظام کا جب مطالعہ کرتے ہیں تو یہ دیکھتے ہیں کہ ہمارے اندر ایک مشینری فٹ ہے۔ اس مشینری کے کل پرزے دل ہے، پھیپھڑے ہیں، پِتّا ہے، گردے ہیں، بے شمار ایندھن جلانے کی بھٹیاں ہیں جو غذا کو Processکر کے جسمانی نظام کو قائم رکھنے کے لئے انرجی فراہم کرتی ہیں اور پھر یہ انرجی خون کی صورت میں تمام اعضاء کو منتقل کر دی جاتی ہے۔ اس پراسیس سے جو کثافت بچ جاتی ہے اس کے اخراج کا ایک معقول انتظام ہے۔ دماغ میں ایسی ایسی اطلاعات کا نزول ہوتا ہے جن اطلاعات کی رہنمائی میں انسان ترقی کرتا ہے، نئی نئی ایجادات وجود میں آتی ہیں۔۔۔۔۔۔آخر یہ سب کیا ہے؟
کیوں اللہ نے اتنا بڑا نظام قائم کیا ہے؟
اس کے بارے میں خود اللہ کہتا ہے:
’’میں چھپا ہوا خزانہ تھا، میں نے محبت کے ساتھ مخلوق کو پیدا کیا تا کہ میں پہچانا جاؤں۔‘‘
(حدیث قدسی)
سیدنا علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ارشاد عالی مقام ہے:
’’جس نے خود کو پہچان لیا، اس نے اپنے رب کو پہچان لیا۔‘‘
یہ سب باتیں اس طرف اشارہ کرتی ہیں کہ انسان کی پیدائش کا مقصد صرف یہ ہے کہ وہ اپنے خالق کا تعارف حاصل کرے۔انسان ازل سے ہی اللہ سے واقف ہے لیکن روح پر ایک پردہ  پڑ گیا ہے اور اس پردے کو ہٹانا ہی اپنے آپ کو پہچاننا ہے۔ کچھ حضرات جن پر اللہ کو دیکھنے کی طرزیں منکشف نہیں ہوتیں یہ فیصلہ صادر کر دیتے ہیں کہ اللہ کو دیکھا نہیں جا سکتا، اللہ سے ہمکلام نہیں ہوا جا سکتا۔ یہ بات قرآن پاک کی تعلیمات کے مطابق نہیں ہے۔ جبکہ اللہ خود فرماتا ہے:
’’اور کسی آدمی کی حد نہیں کہ اس سے باتیں کرے اللہ، مگر وحی کے ذریعہ یا پردہ کے پیچھے سے یا بھیجے پیغام لانے والا۔‘‘
(الشوریٰ)
اللہ کو نہ دیکھنے کی اک بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم اس بات کا یقین نہیں رکھتے کہ ہم اللہ کو دیکھ سکتے ہیں۔ جب ہمارے اندر اس بات کا یقین ہی نہیں ہے کہ ہم اللہ کو دیکھ سکتے ہیں اور اللہ کی آواز سن سکتے ہیں، اللہ سے باتیں کر سکتے ہیں، اللہ کے حضور اپنی دعائیں، اپنی درخواستیں، اپنی التجائیں روبرو ہو کر پیش کر سکتے ہیں تو ظاہر ہے کہ ہم نے خود ہی اپنے اور اللہ کے درمیان دیوار کھڑی کر لی ہے۔
قرآن پاک میں تفکر ہم پر منکشف کرتا ہے کہ مخلوق نے ازل میں اپنے خالق کو دیکھ کر، خالق کی آواز سن کر، خالق سے ہمکلام ہو کر اس کی ربوبیت کا اقرار کیا ہے۔ ربوبیت کا جب تذکرہ آتا ہے تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ رب ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ایسی واحد و یکتا ذات جو اپنی تمام صفات کے ساتھ ہمہ وقت مخلوق کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔ اسی لازوال ہستی کی صفات ہر آن، ہر لمحہ ہمیں سنبھالے ہوئے ہیں۔ ہمارے اندر زندگی بن کر دوڑ رہی ہیں، ہمارے اندر حواس کی تخلیق کر رہی ہیں یعنی زندگی کا دارومدار جن حواس پر ہے وہ حواس خالق کی صفات سے فیڈ (Feed) ہو رہے ہیں۔



Topics


Aap ke khwab aur unki tabeer jild 01

خواجہ شمس الدین عظیمی

آسمانی کتابوں میں بتایا گیا ہے کہ:

خواب مستقبل کی نشاندہی کرتے ہیں۔

عام آدمی بھی مستقبل کے آئینہ دار خواب دیکھتا ہے۔



 

 

  

 

انتساب


حضرت یوسف علیہ السلام کے نام جنہوں نے خواب سن کر مستقبل میں پیش آنے والے چودہ سال کے  حالات کی نشاندہی کی

اور

جن کے لئے اللہ نے فرمایا:

اسی طرح ہم نے یوسف کو اس ملک میں سلطنت عطا فرمائی اور اس کو خواب کی تعبیر کا علم سکھایا۔