Topics

ہیڈ پیغمبر

 

          اس ترقی درجات کے زمانہ میں زمین کی دنیا نے پھر ایک کروٹ بدلی۔ میں آسمانوں پر محو تدریس تھا اور آسمانی دنیا کو دولت علم و عبادت سے مالا مال کر رہا تھا۔ ادھر زمین کی بچی بچائی مخلوق پھر سمٹ سمٹا کر ایک مرکز پر جمع ہو گئی تھی اور اپنی کھوئی ہوئی وقعت اور نگاہ التفات ڈھونڈ رہی تھی۔

          مجھے اطلاع ملی کہ میری قوم کے بہت سے افراد جو کسی زمانہ میں فرشتوں کی جنگ میں فنا کئے گئے تھے اور جن کو پروردگار نے کسی مصلحت سے ادھر ادھر روپوش ہو جانے کی اجازت دے دی تھی آج پھر بے سروسامان پھر رہے ہیں اور انہیں کوئی سچا راستہ دکھانے والا نہیں ہے۔ یہ حالات معلوم کر کے میرا جی بے حال ہو گیا۔ دل نے کہا، چھوڑ ان مشاغل کو۔ تیری قوم بے یارومددگار اور ڈانواں ڈول پھر رہی ہے۔ انہیں راستہ بتا۔ تا کہ وہ بھی تیری طرح مصروف عبادت ہو کر قرب الٰہی حاصل کر سکیں۔ مگر مشکل یہ تھی کہ اگر میں قومی لیڈری کے حصول کی درخواست کرتا ہوں تو جنت اور اس کی سکونت ہاتھ سے جاتی ہے اور یہ عظمت وقار جو آج میسر ہے وہ پھر نہیں رہے گا۔ مجھے اب سے بہت پہلے کے واقعات یاد تھے جو بداعمالیوں کے باعث اہل زمین پر گزر چکے تھے اور جن کے تصور سے اب بھی روح پر سکتہ کا عالم طاری ہو جاتا ہے۔

          ایک طرف جنت تھی اور ایک طرف قومی رہبری۔ میرے دل کی دنیا میں دونوں جنگ کر رہی تھیں۔ کبھی اعزاز ذاتی کا غلبہ ہو جاتا تھا اور کبھی حب قومی کا۔ کبھی سوچتا تھا کہ قوم کی رہبری کے لئے زمین پر جانا پڑے گا تو یہ آسمانی سکونت چھن جائے گی اور کبھی یہ احساس پریشان کرتا تھا کہ قومی خدمت پر ہزار راحتیں قربان کر دینی چاہئیں۔ غرض عجیب ذہنی کشمکش میں مبتلا تھا کہ بارگاہ خداوندی سے حکم ملا۔

تم اگر چاہو تو ہم تمہیں تمہاری قوم کا راہبر بنا کر بھیج سکتے ہیں تا کہ تم ان بھٹکے ہوئے لوگوں کو صراط مستقیم پر لگا کر قومی فرض ادا کرو اس کے بعد بھی تمہارے ساتھ یہ رعایت رہے گی کہ تم جب چاہو آسمان پر بلا روک ٹوک آ سکتے ہو اور جب چاہو اپنی قوم میں جا سکتے ہو۔ تمہارے لئے ہفت افلاک اور جنت الفردوس کے داخلہ میں کوئی رکاوٹ نہ ہو گی۔

          اندھے کو کیا چاہئے دو آنکھیں۔ میں تو خود یہ چاہتا تھا کہ کسی طرح مجھے ان درجات کے ہوتے ہوئے بھی قومی رہبری کا موقع مل جائے۔ چنانچہ میں نے خالق کائنات سے عرض کی ہے:

’’اے پروردگار عالم! تو عالم الغیب ہے۔ تو نے دل کی بات جان کر مجھے بامراد فرمایا ہے۔ اب میں تجھ سے امداد و اعانت طلب کرتا ہوں کہ مجھے زمین پر بھیجنے سے پہلے اتنی طاقت دیدے کہ ضرورت کے وقت میں کسی کام میں معذور نہ رہوں اور روئے زمین کے ذرہ ذرہ کو مطیع اور فرماں بردار بنا سکوں‘‘

          دریائے رحمت نے میری یہ آرزو بھی آغوش میں لے لی اور بصد اعزاز مجھے اپنی قوم کی رہبری کے لئے بھیج دیا اور بے شمار ملائکہ کی فوج بھی میرے ساتھ کر دی۔

Topics


Shaitan Ki Sawaneh Umri

حضور قلندر بابا اولیاء

آج تک کسی جن یا فرشتہ نے اپنی سوانح عمری شائع نہیں کی۔ کیوں نہیں کی۔ یہ ایک راز ہے اور رکھا گیا ہے۔ دنیا میں رہنے والے کم سمجھ انسان اسے نہیں جانتے اور نہیں جان سکتے۔ خاک کی بنی ہوئی عقل کیا خاک سمجھے گی کہ یہ نوری اور ناری دنیا آج تک اپنی اپنی سوانح حیات لکھنے سے کیوں گریز کرتی ہیں۔ یہ موٹی عقل کے پتلے شاید یہ سمجھتے ہیں کہ جنوں اور فرشتوں کو لکھنا پڑھنا نہیں آتا یا انہیں لکھنے پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے لیکن یاد رہے کہ ہم نے مٹی کے پتلوں سے پہلے کھانا سیکھا ہے، پہلے بولنا سیکھا ہے۔ اگر کسی کو یہ غرور ہے کہ دنیا کا بے بضاعت انسان کسی معمولی سے معمولی فرشتے کا بھی مقابلہ کر سکتا ہے تو یہ انسان کی لکھو کھا حماقتوں میں سے ایک اہم حماقت اور نادانی ہے۔