Topics

ماں باپ کا حال

          میرے والد کا قومی نام چلیپا تھا۔ لیکن ان کے قوم والے انہیں رکنیت کی مناسبت سے ابوالغوی کہہ کر پکارتے تھے۔ ان کا چہرہ تقریباً ایسا تھا جیسے آج کل کے زمانہ میں ببر شیر کا ہوتا ہے۔ نہایت قد آور اور بہادر تھے۔ اگر آج کل کے حساب سے بتایا جائے تو ان کے جسم کا وزن ۱۴ من اور ۳۵ سیر تھا۔ قوم کی طرف سے ان کو شاشین کا خطاب تھا۔ شاشین کے لغوی معنی ہمارے زبان میں دل ہلا دینے والے کے ہیں۔ میرے والد کی تمام قوم پر دھاک بیٹھی ہوئی تھی وہ جس سے خفا ہوتے تھے اس کی زندگی اجیرن ہو جاتی تھی اور جس سے خوش ہوتے تھے نہال کر دیتے تھے۔ قوم کا بچہ بچہ ان کا احترام کرتا تھا۔

          اسی طرح اپنی والدہ بھی بہت طاقتور اور دلیر تھیں ان کا نام نبلیث تھا۔ ان کا چہرہ کچھ اس ساخت کا تھا کہ آج میں مثال دے کر بھی مشکل سے سمجھا سکتا ہوں۔ بہرحال ایک حد تک ان کے چہرے کی ساخت آج کل کے بھیڑیئے کی مادہ سے بہت کچھ ملتی جلتی تھی۔ ان کے متعلق عام بات یہ مشہور تھی کہ وہ اپنے زمانہ کی سب سے زیادہ حسین و جمیل مادہ ہیں۔ لیکن نہایت جنگجو اور دلیر۔ بہادر ایسی کہ جنگ میں ہزار نروں کا منہ پھیریں۔ فرشتوں سے آخری جنگ کے وقت ان کی بہادری نے وہ وہ نظارے پیش کئے کہ دیکھنے والے عش عش کر گئے لیکن مشکل یہ تھی کہ جن اور فرشتے کی جوڑ برابر کی نہیں تھی ورنہ ہماری قوم میں نبلیث جیسی بہادر مادہ کے ہوتے ہوئے شکست ناممکن تھی۔ دوران جنگ میں قوم کے بچہ بچہ کی زبان پر تھا کہ جنہ کی مائیہ ناز مادر وطن نبلیث کے زندہ ہوتے ہوئے دنیا کی کوئی طاقت ہمیں زیر نہیں کر سکتی۔

          خود میرا بھی یہی خیال تھا کہ اماں جان کی بعید از قیاس بہادری کے مقابلہ میں آ کر فرشتوں نے زبردست غلطی کی ہے اور انہیں منہ کی کھانی پڑے گی اور درحقیقت منہ کی کھانی پڑتی۔ اگر کوئی اندرونی طاقت کام نہ کر رہی ہوتی۔ بیچارے کم طاقت فرشتے ہمارے مقابلہ پر کیا جنگ کر سکتے تھے۔ یہ بھی خدا جانے کیا بات تھی کہ ہم دب گئے ورنہ وہ جوہر دکھاتے کہ فرشتوں کو چھٹی کا دودھ یاد آ جاتا۔

          اس عجیب و غریب جنگ کا سماں کچھ ایسا ناقابل فہم تھا کہ ساری قوم حیرت بیں تھی۔ فرشتوں کا وار ہم پہ بھر پور پڑا رہا تھا۔ لیکن ہمارا وار کچھ ایسا اوچھا بزدلانہ نظر آتا تھا کہ خود ہمیں حیرت ہوتی تھی۔ وہ وار کرتے تھے تو ہم پر پڑتا تھا اور جب ہم وار کرتے تھے تو ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے ہم نے ریت کے ڈھیر پر حملہ کیا۔

          اسی ناقابل فہم اور حیرت ناک جنگ میں والد اور والدہ شہید ہو گئے۔ میں بھی اس وقت شادی شدہ تھا میری جان نثار ملکہ بھی اسی لڑائی میں خدا کو پیاری ہو گئی۔ اور میرا بڑا لڑکا بھی بیچارہ اسی جنگ میں ختم ہوا۔ اس کا نام مرہ تھا۔ بیچارہ کی شادی کے دن قریب تھے۔ اگر یہ جنگ کچھ عرصہ بعد ہوتی تو وہ غریب بھی شادی کی مسرتیں دیکھ لیتا مگر افسوس ہے ہمیں اپنے دادا ہاموس کی طرف سے ایک ایسا تاوان ادا کرنا تھا جو کسی حال میں مہلت دینے کے لئے تیار نہ تھا۔ مرہ غریب بے آئی مارا گیا۔ اس نے ابھی دنیا میں پوری طرح قدم بھی نہ رکھا تھا کہ اپنے بزرگوار ہاموس جنی کے گناہوں کی پاداش میں فنا کی قربان گاہ پر چڑھا دیا گیا۔ اور اپنے دادا ابوالغوی چلیپا اور دادی نبلیث کے ساتھ ساتھ گمنامی کے عمیق سمندر میں انسانی مورخوں کی نظروں سے بہت دور ہمیشہ ہمیشہ کے لئے کھو گیا۔ اور آنے والی انسانی دنیا کے لئے غلط فہمی چھوڑ گیا۔ کہ اس کا باپ (یعنی شیطان) فرشتہ ہے اور شاید بے ماں باپ کے پیدا ہوا ہے۔ اور غالباً یہ خیال غلط بھی ہے کہ بے چارہ شیطان لاولد ہے۔ غیر شادی شدہ ہے۔ (خدا نہ کرے جو میں لاولد ہوں)۔

          خیر مجھے اس سے کوئی بحث نہیں کہ میرے لخت جگر مرہ نے دنیا کے لئے کیا چھوڑا اور اپنے ساتھ کیا لے گیا۔ مجھے تو ان نادان انسانی مورخوں پر ہنسی آتی ہے جو مٹی کی عقل لئے پھرتے ہیں۔ اور دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم تاریخ کے اندھے کنویں سے بہت دور کی کوڑی لا سکتے ہیں۔ اور جن کی تاریخی معلومات کا یہ عالم ہے کہ فرشتہ اور جن میں بھی تمیز نہیں کر سکتے۔

 

Topics


Shaitan Ki Sawaneh Umri

حضور قلندر بابا اولیاء

آج تک کسی جن یا فرشتہ نے اپنی سوانح عمری شائع نہیں کی۔ کیوں نہیں کی۔ یہ ایک راز ہے اور رکھا گیا ہے۔ دنیا میں رہنے والے کم سمجھ انسان اسے نہیں جانتے اور نہیں جان سکتے۔ خاک کی بنی ہوئی عقل کیا خاک سمجھے گی کہ یہ نوری اور ناری دنیا آج تک اپنی اپنی سوانح حیات لکھنے سے کیوں گریز کرتی ہیں۔ یہ موٹی عقل کے پتلے شاید یہ سمجھتے ہیں کہ جنوں اور فرشتوں کو لکھنا پڑھنا نہیں آتا یا انہیں لکھنے پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے لیکن یاد رہے کہ ہم نے مٹی کے پتلوں سے پہلے کھانا سیکھا ہے، پہلے بولنا سیکھا ہے۔ اگر کسی کو یہ غرور ہے کہ دنیا کا بے بضاعت انسان کسی معمولی سے معمولی فرشتے کا بھی مقابلہ کر سکتا ہے تو یہ انسان کی لکھو کھا حماقتوں میں سے ایک اہم حماقت اور نادانی ہے۔