Topics

حوا کی سزا


          آدم کے مقدمہ کا فیصلہ سنانے کے بعد بی بی حوا طلب کی گئیں۔ ارشاد ہوا۔

اے حوا تم جانتی ہو کہ اس معاملہ میں آدم ؑ سے زیادہ تم قصور وار ہو اور تمہیں نے آدم ؑ کو مجبور کر کے وہ پھل کھلایا۔ آدم ؑ کو محض اس جرم میں سزا دی گئی کہ باوجود ہماری ممانعت کے تمہاری تقریر سے وہ مجبور ہو گئے اور انہوں نے تمہارا کہنا مانتے وقت یہ نہ سوچا کہ پروردگار کے احکام کی نافرمانی ہو رہی ہے چونکہ تم آدم ؑ سے زیادہ قصور وار ہو اس لئے تمہارے واسطے ذیل کی پندرہ سزائیں تجویز کرتے ہیں۔

            پہلی سزا

          جنت اور اس کی نعمتوں سے محرومی کے بعد دنیا کی مصیبت جس سے قیامت تک تمہاری اولاد کو چھٹکارہ نہ مل سکے گا۔

            دوسری سزا

          دنیا میں رہنے کے بعد ہر مہینے کی ایک ایسی مصیبت جس کی ناپاکی سے تم کئی دن تک پریشان رہو اور عبادت سے محروم رہو۔

            تیسری سزا

          عمل کی موجودگی میں روحانی اور جسمانی تکالیف جس سے زندگی میں بار بار پالا پڑے گا۔

            چوتھی سزا

          وضع حمل کی ایک ایسی سخت تکلیف جس کے سامنے دنیا کی تمام جسمانی تکلیفیں ہیچ ہیں۔

            پانچویں سزا

          مرد کی مستقل محکومیت اور غلامی جس سے زندگی بھر چھٹکارہ نہ مل سکے گا۔

            چھٹی سزا

          مرد کو اختیار طلاق تا کہ وہ کسی حال میں تمہارا محکوم اور مطیع قرار نہ پائے۔

            ساتویں سزا

          طلاق یا بیوگی کے بعد ایک ایسی مدت کا قرار جس میں تمہیں دنیا کے لذایذ سے محرومی رہے۔

            آٹھویں سزا

          مرد کے مقابلہ میں تمہارا حق میراث جو مرد کے مقابلہ میں ہر لحاظ سے کم ہو۔

          نویں سزا

          تم اور تمہاری بیٹیاں قیامت تک پیغمبری سے محروم اور اس کی نااہل رہیں گی۔

          دسویں سزا

          جمعہ کی نماز اور اس کے انمول ثواب سے محرومی تا کہ ہر ہفتہ اپنے کبیرہ گناہ کو یاد کر سکو۔

            گیارھویں سزا

          جہاد کی شرکت میں حاصل ہونے والے فضائل اور ان کے ثواب سے محرومی۔

            بارھویں سزا

          نقصان عقل۔ کہ اس میں ہمیشہ مرد کا دست نگر بن کر رہنا پڑے گا۔

            تیرھویں سزا

          دین اور مذہب کی عملی خدمتوں سے اندرونی قوتوں کا فقدان ہونے کے باعث محرومی یا کمی۔

            چودھویں سزا

          شہادت اور گواہی کے وقت کی ذلت کہ تمہاری شہادت مرد کے مقابلہ میں کمزور سمجھی جائے گی۔

            پندرھویں سزا

          مرد کے مقابلہ میں ہر قسم کی عزت و عظمت کی کمی تا کہ ہر وقت تمہارا یہ زبردست گناہ تمہارے سامنے رہے۔

          یہ حکم سنانے کے بعد پروردگار نے چند ملائکہ کو حکم دیا کہ حوا کو زمین پر پھینک دو۔ تا کہ یہ اپنے کئے کی سزا پا سکیں۔ چنانچہ فرشتوں نے حکم خداوندی کے ماتحت بیچاری بی بی حوا کو آسمان سے نیچے ڈال دیا۔ اوروہ بارعایت خداوندی زندہ سلامت جدہ کی سر زمین پر آ پڑیں اور حضرت آدم ؑ کو فراق کی سزا جو دی گئی تھی اس پر عملدرآمد ہو گیا۔ یعنی آدم ؑ کوہ سر اندیپ میں پھینکے گئے اور بی بی حوا جدہ میں۔

 

طائوس کی سزا

          بی بی حوا کا مقدمہ ختم ہونے کے بعد طائوس پیش ہوا۔ حکم ہوا:

اے طائوس تیری خطا گو زیادہ نہیں ہے لیکن یہ قصور کسی طرح معاف نہیں کیا جا سکتا کہ تو نے ہماری ممانعت عام کے باوجود کسی غیر کو جنت میں جانے کا موقع دیا حالانکہ تو واقف تھا کہ جنت میں ساکنان فردوس کے علاوہ کسی غیر کو جانے کی اجازت نہیں ہے۔ بس تیرے اس قصور کے عوض ہم حسب ذیل تین سزائیں تجویز کرتے ہیں۔

            پہلی سزا

          اخراج جنت کے بعد تیسرے جسم کی تمام خوبصورتی واپس لے لی جائے اور نشانی کے طور پر کہیں کہیں اس کی یادگار باقی رہے۔

            دوسری سزا

          تیرے چھ سو بازو ہیں ان سب کو واپس لے کر صرف دو بازو تیرے پاس باقی رہنے دیئے جائیں۔

            تیسری سزا

          چونکہ تیرے پیر گناہ کی معاونت کے لئے حیہ کے پاس گئے تھے اس واسطے ان کی خوبصورتی سلب کر کے بدصورت کر دیا جائے۔

         

          فیصلہ سنانے کے بعد پروردگار نے چند فرشتوں کو حکم دیا کہ طائوس کو آسمان سے نیچے گرا دو۔ تا کہ یہ اپنے کئے کی سزا پائے۔ چنانچہ طائوس ہدایت کے مطابق زمین پر پھینک دیا گیا اور یہ بیچارہ ملک حبش میں آ کر گرا۔

          یہاں مجھے ایک اور بات عرض کرنی ہے۔ بعض انسانی مورخین نے لکھا ہے کہ طائوس قابل میں آ کر گرا تھا لیکن میری تحقیق کا ماحصل یہ ہے کہ وہ حبش میں آیا۔ بہرحال میں انسانہ مورخین کی اس معاملہ میں تردید مناسب نہیں سمجھتا۔ کیونکہ اس وقت میں خود آسمان پر تھا اور میں نے اس کی ضرورت ہی نہیں سمجھی تھی کہ ان چھوٹی چھوٹی باتوں پر غور کروں۔ اگر اس وقت یہ خیال ہوتا کہ ایک نہ ایک دن مجھے اپنی سوانح عمری لکھنی پڑے گی اور اس میں یہ چھوٹی باتیں بھی درج کرنی پڑیں گی۔ تو میرے لئے اس بات کی تحقیقات کچھ مشکل نہ تھی۔ ذرا سی دیر میں معلوم کر سکتا تھا۔ بہرحال یہ ایسی اہم بات نہیں ہے۔ جس کے لئے تحقیقات کرنے کی ضرورت ہو۔ اگر انسانہ مورخ یہ ہٹ دھرمی کریں کہ وہ قابل میں گرا تھا تو بہت اچھا۔ نیاز مند کو کیا غرض پڑی ہے کہ اس کی تردید کرتا پھرے۔ بہرحال یہ یقینی بات ہے کہ اسے فیصلہ خداوند کے بعد زمین پر پھینک دیا گیا۔

 

Topics


Shaitan Ki Sawaneh Umri

حضور قلندر بابا اولیاء

آج تک کسی جن یا فرشتہ نے اپنی سوانح عمری شائع نہیں کی۔ کیوں نہیں کی۔ یہ ایک راز ہے اور رکھا گیا ہے۔ دنیا میں رہنے والے کم سمجھ انسان اسے نہیں جانتے اور نہیں جان سکتے۔ خاک کی بنی ہوئی عقل کیا خاک سمجھے گی کہ یہ نوری اور ناری دنیا آج تک اپنی اپنی سوانح حیات لکھنے سے کیوں گریز کرتی ہیں۔ یہ موٹی عقل کے پتلے شاید یہ سمجھتے ہیں کہ جنوں اور فرشتوں کو لکھنا پڑھنا نہیں آتا یا انہیں لکھنے پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے لیکن یاد رہے کہ ہم نے مٹی کے پتلوں سے پہلے کھانا سیکھا ہے، پہلے بولنا سیکھا ہے۔ اگر کسی کو یہ غرور ہے کہ دنیا کا بے بضاعت انسان کسی معمولی سے معمولی فرشتے کا بھی مقابلہ کر سکتا ہے تو یہ انسان کی لکھو کھا حماقتوں میں سے ایک اہم حماقت اور نادانی ہے۔