Topics
حضور
قلندر بابا اولیائؒ پاکستان بننے کے بعد پہلے راولپنڈی تشریف لے گئے وہاں کچھ عرصہ
قیام کرنے کے بعد کراچی کو اپنا مسکن بنایا اور اردو ڈان میں سب ایڈیٹر کے فرائض
انجام دیتے رہے۔ اس کے بعد کچھ مختلف رسائل اور ہفت روزہ میں کہانیاں قلمبند کیں۔
شاعرانہ کلام کی اشاعت کے ساتھ غیر معمولی افسانے بھی لکھے۔ ماہنامہ نقاد کراچی
میں ملازمت اختیار کی اس زمانے میں نقاد میں ایک سلسلہ وار کہانی شیطان کی سوانح
عمری کے عنوان سے قسطوں میں چھپنا شروع ہو گئی۔ شیطان کی سوانح عمری اور معمے کی
بنیاد پر ماہنامہ نقاد عوام میں بے انتہا مقبول ہوا۔
حضرت
خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب بتاتے ہیں کہ میرا چشم دید ہے کہ ماہنامہ نقاد کے دفتر
کے سامنے لوگوں کی بڑی بڑی قطاریں لگی رہتی تھیں۔ شیطان کی سوانح عمری اس قدر
دلچسپ اور حیرت انگیز ہے کہ پڑھنے کے بعد ذہن کے دریچے کھل جاتے ہیں اور عام پڑھا
لکھا آدمی بھی علم کے ذخیرے سے مستفیض ہو کر اپنے اندر علم کا سمندر موجزن دیکھتا
ہے۔
برسوں
کی تلاش کے بعد یہ کتاب ایک لائبریری میں ملی تو میں نے محسوس کیا کہ اس کتاب کو
منظر عام پر آنا چاہئے تا کہ لوگوں کی علمی استعداد میں اضافہ ہو۔ کتاب کی اشاعت
میں یہ جذبہ بھی کارفرما ہے کہ یہ کتاب مرتبہ جناب ظفر نیازی اس وقت طباعت سے
آراستہ ہوئی جب حضور قلندر بابا اولیائؒ ماہنامہ نقاد میں کام کرتے تھے۔ مرحوم
محترم ظفر نیازی صاحب (اللہ ان کی مغفرت فرمائے) اور ان کے صاحبزادگان کے شکریہ کے
ساتھ شیطان کی سوانح عمری پیش خدمت ہے۔ اللہ تعالیٰ اسے خاص و عام کے لئے قبول
فرمائے۔
حضور قلندر بابا اولیاء
آج تک کسی جن یا فرشتہ نے اپنی سوانح
عمری شائع نہیں کی۔ کیوں نہیں کی۔ یہ ایک راز ہے اور رکھا گیا ہے۔ دنیا میں رہنے
والے کم سمجھ انسان اسے نہیں جانتے اور نہیں جان سکتے۔ خاک کی بنی ہوئی عقل کیا
خاک سمجھے گی کہ یہ نوری اور ناری دنیا آج تک اپنی اپنی سوانح حیات لکھنے سے کیوں
گریز کرتی ہیں۔ یہ موٹی عقل کے پتلے شاید یہ سمجھتے ہیں کہ جنوں اور فرشتوں کو لکھنا
پڑھنا نہیں آتا یا انہیں لکھنے پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے لیکن یاد رہے کہ ہم نے مٹی
کے پتلوں سے پہلے کھانا سیکھا ہے، پہلے بولنا سیکھا ہے۔ اگر کسی کو یہ غرور ہے کہ
دنیا کا بے بضاعت انسان کسی معمولی سے معمولی فرشتے کا بھی مقابلہ کر سکتا ہے تو
یہ انسان کی لکھو کھا حماقتوں میں سے ایک اہم حماقت اور نادانی ہے۔