Topics
جب
تک حضرت ادریس ؑ کے دوست جسمان زندہ رہے۔ اسی بت کی پرستش کرتے رہے۔ لیکن عام طور
سے بت پرستی کی رسم رائج نہیں ہوئی تھی۔ جسمان کے انتقال کے بعد جب ان کا اثاثہ
وارثوں نے تقسیم کیا تو اس میں ایک بت بھی پس ماندگان کو ملا۔ ہر شخص پتھر کی یہ
شبیہ دیکھ کر حیرت میں رہ گیا۔ مگر کسی کی سمجھ میں نہ آیا۔ عین اسی وقت پر جب کہ
وہ سب لوگ اس شبیہ کے متعلق اپنی اپنی حیرت کا اظہار کر رہے تھے۔ میں ایک مقدس
صورت میں اس گروہ کے پاس گیا اور بزرگانہ انداز میں ایک نہایت ہی بلیغ اور نتیجہ
خیز تقریر کر کے بت پرستی کے مستقبل کو نہایت شاندار بنا دیا۔
میں
نے کہا کہ یہ بت دراصل حضرت ادریس ؑ کی ملکیت ہے اور اس میں بہت بڑا راز ہے۔ میں
اس کے متعلق سب کچھ اس لئے جانتا ہوں کہ ادریس ؑ میرے بہت گہرے دوست تھے اور ان کے
تمام راز ہائے پیغمبری سے میں واقف ہوں۔ دراصل ان کی کامیابی کا راز ہی یہ بت ہے
وہ اس کی عبادت کرتے تھے اور جو کچھ چاہتے تھے۔ اس بت کے ذریعہ کرا لیتے تھے۔ یہ
بت ان کی ریاضت سے بہت خوش تھا اور ان کا ہر کام پورا کر دیا کرتا تھا۔ چونکہ
ادریس ؑ کو ذاتی وجاہت اور عظمت محض اسی بت کے ذریعہ میسر آئی تھی اس واسطے انہوں
نے یہ بات اپنی قوم سے چھپائے رکھی۔ کیونکہ وہ جانتے تھے کہ اگر قوم پر یہ راز فاش
ہو گیا تو پھر ہر گھر میں اسی قسم کا بت تیار ہو جائے گا۔ اور لوگ میرے محتاج نہ
رہیں گے جو کچھ چاہیں گے۔ گھر بیٹھے اس بت سے کرا لیا کریں گے اس واسطے انہوں نے
پوری احتیاط کے ساتھ اس کی عبادت کی اور قوم کی نظروں سے اوجھل رکھا۔ اب اتفاقیہ
انہیں آسمان پر جانا پڑا تو وہ اپنے رازدار دوست جسمان کو یہ بت دے گئے تھے اور
ہدایت کر گئے تھے کہ کسی کو اس بھید کا پتہ نہ چلے۔ مگر افسوس ہے کہ جسمان کی موت
نے یہ راز فاش کردیا۔ ورنہ سوائے ہم تینوں آدمیوں کے اور کسی کو اس اہم راز کی
خبر نہ تھی۔
مجھے
افسوس ہے کہ میں نے ادریس ؑ کی اجازت لئے بغیر آپ بھائیوں سے یہ بات بیان کر دی۔
دراصل اگر مجھے اس بت کی توہین اور تحقیر کا خطرہ نہ ہوتا تو میں اب بھی اسے راز
ہی رکھتا۔ لیکن مجھے یہ اندیشہ تھا کہ آپ لوگ لا علمی میں اس بت کو پتھر کی بے
کار مورت سمجھ کر پھینک دیں گے۔ آہ۔ اگر ایسا ہو جاتا تو کون جان سکتا ہے کہ یہ
مقدس بت ہماری قوم پر کیسی تباہی بھیج دیتا۔ کیونکہ کوئی معبود اپنی توہین اور
تذلیل گوارا نہیں کر سکتا۔
دراصل
ہم لوگ اندھے ہیں اور کچھ نہیں جانتے۔ ورنہ نیک لوگوں کی مقدس مورتیاں ہمارے لئے
سب کچھ بن سکتی ہیں۔ اب آپ لوگ غور کیجئے کہ بظاہر اس بت کی صورت حضرت ادریس ؑ کی
سی ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہمارا دین اور دنیا اس کے ہاتھ میں ہے۔ یہ جس سے خوش
ہو جائے بس اسے نہال کر دیتا ہے اور جس سے خفا ہو جائے اسے کسی گھر کا نہیں
چھوڑتا۔
ادریس
ؑ ہی کو دیکھو وہ کتنی باعزت زندگی بسر کرتے تھے۔ خیر اب راز فاش ہو چکا ہے۔ یہ
خاص چیز کسی کی ملکیت نہیں رہ سکتی۔ اس لئے مجھے باقی باتیں بھی بتا دینی چاہئیں۔
امید ہے ہم سب ان سے معقول فائدہ اٹھا سکیں گے۔ حضرت ادریس ؑ کے جانے کے بعد ہمیں
ضرورت ہے کہ ہم کسی کے محتاج نہ رہیں۔ اگر ہم لوگ اسی قسم کے بت اپنے اپنے گھروں
میں رکھیں اور ان کی عبادت کر کے انہیں خوش کرتے رہیں تو ہم سب بغیر کسی امداد کے
خوش و خرم رہ سکتے ہیں۔ ہماری ہر ضرورت پوری ہو سکتی ہے۔ یہ بت ہماری ہر طرح امداد
کریں گے اور ہم سب بغیر کسی امداد کے من مانی ترقیاں کر لیں گے۔
میری
تقریر نے وہی اثر کیا جس کی مجھے توقع تھی پھر انہوں نے عہد کیا کہ اپنے ہاں ایسی
ہی شبیہ رکھیں گے اور کسی کے محتاج رہنا پسند نہ کریں گے ۔ ان واقعات کے تھوڑے ہی عرصے
بعد ایک بت تھا روزانہ اسی کی پوجا ہوا کرتی تھی۔
حضرت
ادریس ؑ کے زمانہ میں پانچ ایسی مقدس ہستیاں بھی تھیں جن کی زاہدانہ زندگی دوسروں
کے لئے مثال بن رہی تھی۔ چنانچہ دستور کے مطابق جب ان میں سے کوئی مرتا تھا تو اسی
کے نام پر ایک بت تیار ہو جاتا تھا اور اس بات کا نام بھی وہی رکھ دیا جاتا ہے۔
چنانچہ حضرت ادریس ؑ کی قوم میں رفتہ رفتہ یہی پانچ بت زیادہ مقبول ہوئے جن کے نام
وذ، سواع، یغوث، یعوق اور نسر تھے۔ ان ہی پانچ بتوں پر اس زمانہ کی ’’مفارساز‘‘
شریعت قایم تھی۔ قوم کے بچے بچے کا ان ہی پانچ خدائوں پر ایمان تھا۔ قال اللہ
تعالیٰ وقار لاتذرن الہتکم ولا تذرن و قاولا سواعاً ولا یغوث و بعوق و نسواہ۔
جب
حضرت نوح علیہ السلام کے زمانہ میں طوفان آیا اور تمام دنیا غرق ہو گئی تو یہ سب
بت بھی ختم ہو گئے تھے۔ لیکن طوفان کے بعد جب دنیا از سر نو مرتب ہوئی تو خدا نے
اپنا کام کیا اور نیاز مند نے سب سے پہلے پانچ بت مہیا کر کے انہیں ناموں سے مشہور
کر دیا اور ہر بت کے ساتھ ایک خودساختہ مقدس تاریخ بھی منسوب کر دی۔ چنانچہ اس طرح
بت پرستی بدستور قائم رہی۔ اگر طوفان نوح کے بعد میں غفلت کرتا تو یقیناً بت پرستی
کا خاتمہ ہو چکا تھا۔ مگر وہ تو وقت پر سوجھ گئی اور میں نے اپنے شاندار کارنامے
کو بے نام و نشان ہونے سے بچا لیا۔
طوفان کے بعد اتفاق سے پانچ قبیلوں کو
زیادہ عروج حاصل ہوا چنانچہ میں نے حالات پر غور کرنے کے بعد قبیلہ بنی کلب کو
وذدیت سونپا اور بت سواع کو قبیلہ ہذلیل کے سپرد کیا۔ اور مذحج قبیلہ کو یغوث دیا
اور یعوق بت کو قظاعہ قبیلہ کے حوالہ کیا اور نسر کو قبیلہ حمیر کے حصہ میں دے دیا
اور اس طرح بت پرستی کی ایک ایسی مضبوط بنیاد رکھ دی ہے جس پر آج تک کفر و الحاد
کے بڑے بڑے محل تیار ہو رہے ہیں اور ہوتے رہیں گے۔
حضور قلندر بابا اولیاء
آج تک کسی جن یا فرشتہ نے اپنی سوانح
عمری شائع نہیں کی۔ کیوں نہیں کی۔ یہ ایک راز ہے اور رکھا گیا ہے۔ دنیا میں رہنے
والے کم سمجھ انسان اسے نہیں جانتے اور نہیں جان سکتے۔ خاک کی بنی ہوئی عقل کیا
خاک سمجھے گی کہ یہ نوری اور ناری دنیا آج تک اپنی اپنی سوانح حیات لکھنے سے کیوں
گریز کرتی ہیں۔ یہ موٹی عقل کے پتلے شاید یہ سمجھتے ہیں کہ جنوں اور فرشتوں کو لکھنا
پڑھنا نہیں آتا یا انہیں لکھنے پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے لیکن یاد رہے کہ ہم نے مٹی
کے پتلوں سے پہلے کھانا سیکھا ہے، پہلے بولنا سیکھا ہے۔ اگر کسی کو یہ غرور ہے کہ
دنیا کا بے بضاعت انسان کسی معمولی سے معمولی فرشتے کا بھی مقابلہ کر سکتا ہے تو
یہ انسان کی لکھو کھا حماقتوں میں سے ایک اہم حماقت اور نادانی ہے۔