Topics
واضح رہے کہ آج کل عام خیال یہ ہے کہ
اگر کسی معاملہ میں کسی شخص کو بزرگوں سے رائے لینے کی ضرورت پڑے اور اتفاق سے
کوئی بزرگ اس وقت نہ ملے تو اسے چاہئے کہ اپنی بیوی سے مشورہ لے اور بیوی جو مشورہ
دے اس کا الٹ کرے۔ کامیابی ہو گی۔ یہ الٹے مشورے پر عمل کرنا اس بات کی یادگار ہے
جو حوا نے آدم ؑ کو رائے دی تھی۔ اگر آدم ؑ بیوی کے مشورہ کے خلاف عمل کرتے اور
پھل نہ کھاتے تو یقیناً کامیابی تھی مگر انہوں نے عورت کے مشورہ کے مطابق سیدھا
سادہ عمل کر لیا اور آخر کار انہیں نقصان پہنچ گیا۔
بہرحال
آدم ؑ نے مجبور ہو کر ڈرتے ڈرتے وہ خوشہ حوا کے ہاتھ سے لے لیا اور اللہ کا نام
لے کر کھا گئے۔ یہ عورت کی پہلی غلطی تھی۔ جس پر مرد نے عمل کیا۔ ابھی وہ گیہوں
معدہ تک بھی نہ پہنچا ہو گا کہ کل حلہ ہائے بہشتی آدم ؑ اور حوا کے جسم سے گر پڑے
اور تاج تقرب ان کے سروں سے ایسے اڑ گیا جیسے کوئی پرندہ ہوا میں اڑ جائے۔
حلہ
ہائے بہشتی کی نشانی اب بھی جسم انسانی میں ناخن کی شکل میں موجود ہے۔ حلہ ہائے
بہشتی تمام و کمال ایسے تھے جیسے انسان کی انگلیوں پر ناخن ہیں اور یہ محض یادگار
کے نام پر چھوڑ دیئے گئے ہیں۔ اور یہ واقعہ بھی ہے کہ انسان انتہائی مسرور حالت
میں قہقہے لگا کر ہنس رہا ہو اور اتفاق سے اپنے ناخن دیکھ لے تو اس کے دل پر ایک
اداسی چھا جاتی ہے اور وہ ایک لمحہ کے لئے بھول جاتا ہے کہ کس بات پر اسے ہنسی آ
رہی تھی۔ اگر کسی شخص کو میرے اس دعوے پر شبہ ہو تو جب چاہے تو تصدیق کر سکتا ہے
یعنی ہنسی کے وقت اگر ناخن دیکھ لے تو ہنستے ہنستے بھی کچھ اداسی سی محسوس کرنے
لگتا ہے۔
خیر
تو یہ جملہ معترضہ تھا اسے چھوڑ دیئے اور یہ سنیئے کہ جب آدم ؑ اور حوا کے جسم سے
بہشتی لباس اتر گیا اور وہ برہنہ ہو گئے تو انہیں بڑی شرم محسوس ہوئی۔ قریب ہی
انجیر اور عود کے درخت تھے۔ انہوں نے آگے بڑھ کر اپنے پتے آدم اور حوا کو
دیدیئے۔ تاکہ مغز پوشی ہو سکے۔
یہاں
یہ بھی عرض کر دینا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ آدم اور حوا کے جسم سے بہشتی لباس
اترنے کے بعد بھی ساکنان جنت انہیں برہنہ نہ دیکھ سکے تھے۔ کیونکہ پروردگار نے
باوجود عتاب کے اپنے خلیفہ کے ساتھ ستر پوشی کی رعایت رکھی تھی اور اہالیان جنت سے
قوت باصرہ کا صرف وہ حصہ چند سیکنڈ کے لئے الگ کر لیا تھا۔ جس کی مدد سے وہ ان
دونوں کو کامل برہنہ دیکھ سکتے۔ البتہ جسم کا عام حصہ لوگوں کو ننگا نظر آ رہا
تھا۔ اور درخت انجیر و عود نے محض اسی باعث اپنے پتے پیش کئے تھے۔ البتہ آدم ؑ
حوا کو برہنہ دیکھ سکتے تھے اور حوا آدم ؑ کو۔ اس واسطے ان پتوں نے بہت کام
دیااور فوراً ہی ایک دوسرے نے اپنی اپنی ستر پوشی کر لی۔
اسی
یادگار میں آج آدم ؑ کی اولاد برہنگی کو ناجائز قرار دیتی ہے اور ایک دوسرے کو
ننگا دیکھ لینا سخت گناہ کی بات جانتی ہے۔ لیکن آپ کو یاد رکھنا چاہئے کہ میں نے
یہ فرسودہ خیال لوگوں کے دلوں سے نکالنا شروع کر دیا ہے اور اگر آپ لوگ تھوڑی بہت
معلومات رکھتے ہیں تو آپ کو معلوم ہو گیا ہو گا کہ میری یہ تحریک برہنگی کتنی
زوروں پر ہے۔ جس چیز کو میرے ازلی دشمن آدم ؑ نے اپنے واسطے باعث شرم قرار دے کر
انجیر کے پتے استعمال کئے تھے وہ آج میں اس کی اولاد کے لئے باعث فخر قرار دے رہا
ہوں۔ کتنی دلچسپ کامیابی ہے کہ آدم ؑ نے اپنی برہنگی دور کرنے کیلئے دوسروں کی
مدد سے لباس حاصل کیا اور آج اسی آدم ؑ کی اولاد اپنی برہنگی تیار کرنے کے لئے
خود اپنا لباس جسم سے اتار کر پھینک رہی ہے۔ یہ دیکھ دیکھ کر میں ہوا میں قہقہوں
کی آوازیں بلند کر رہا ہوں۔ اور یہ آوازیں قدامت پسند لوگوں کی آنکھوں سے
ٹکراتی ہیں اور آنسو بن کر گرنے لگتی ہیں اور دنیا کا نا سمجھ انسان ان آنسوئوں
کو قدیم تہذیب کے شکستہ مزار پر پھولوں کی طرح چڑھا رہا ہے۔ مگر نہیں سمجھتا کہ اس
مزار کا ذرہ ذرہ سرتا پیاس بن گیا ہے۔ اور ان آنسوئوں کو اپنے پیاسے وجود میں
پیوست کر کے دنیا کی نظروں سے ہمیشہ کے لئے اوجھل کر دیتا ہے۔
حضور قلندر بابا اولیاء
آج تک کسی جن یا فرشتہ نے اپنی سوانح
عمری شائع نہیں کی۔ کیوں نہیں کی۔ یہ ایک راز ہے اور رکھا گیا ہے۔ دنیا میں رہنے
والے کم سمجھ انسان اسے نہیں جانتے اور نہیں جان سکتے۔ خاک کی بنی ہوئی عقل کیا
خاک سمجھے گی کہ یہ نوری اور ناری دنیا آج تک اپنی اپنی سوانح حیات لکھنے سے کیوں
گریز کرتی ہیں۔ یہ موٹی عقل کے پتلے شاید یہ سمجھتے ہیں کہ جنوں اور فرشتوں کو لکھنا
پڑھنا نہیں آتا یا انہیں لکھنے پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے لیکن یاد رہے کہ ہم نے مٹی
کے پتلوں سے پہلے کھانا سیکھا ہے، پہلے بولنا سیکھا ہے۔ اگر کسی کو یہ غرور ہے کہ
دنیا کا بے بضاعت انسان کسی معمولی سے معمولی فرشتے کا بھی مقابلہ کر سکتا ہے تو
یہ انسان کی لکھو کھا حماقتوں میں سے ایک اہم حماقت اور نادانی ہے۔