Topics
چالیس
سال گزر نے کے بعد یہ پتلہ آسمان پر واپس منگا لیا گیا۔ اور ایک دن مقرر کر کے
جمیع ملائکہ ہفت افلاک اور ساکنان جنت اور تمام روئے زمین کے فرشتے بلائے گئے۔
مجھے بھی حاضری کا حکم ملا چنانچہ وقت مقررہ پر ہم سب زیر سایہ عرش جمع ہو گئے۔
مٹی
کا پتلہ سامنے لایا گیا۔ اور روح آدم کو بارگاہ خداوندی سے حکم ہوا کہ قالب آدم
ؑ میں داخل ہو جا۔ اول تو وہ اس اندھیری کوٹھری کی قید سے کچھ جھجکی۔ لیکن غور
کرنے پر اسے قلب آدم ؑ میں کچھ نظر آ گیا۔ اور وہ لا الہ الا اللہ محمد الرسول
اللہ پڑھتی ہوئی قلب آدم ؑ میں سما گئی۔
پتلہ
نے آنکھیں کھول دیں۔ سب سے پہلے آدم کی نظر جس طرف پڑی وہ کلمہ طیبہ تھا جو بخطِ
نور ساق عرش پر تحریر تھا۔
’’لا
الہ الا اللہ محمد الرسول اللہ‘‘
آدم
نے متحیر انداز میں پوچھا۔ اے پروردگار عالم یہ کس خوش نصیب کا نام ہے جو تیرے نام
پاک کے برابر تحریر ہے۔ ارشاد ہوا۔ اے آدم ؑ یہ نام پیغمبر آخر الزماں کا ہے۔ جو
تمہاری اولاد میں ہو گا اور جس وقت تم اپنے گناہوں کی پاداش میں ہمارے دربار سے
فیصلہ کا انتظار کر رہے ہو گے تو یہی تمہارا فرزند تمہاری سفارش کرے گا۔ اور میں
اس کی سفارش پر تمہارے گناہ بخش دوں گا۔
چونکہ
قلب آدم ؑ میں روح کی آمد سے پہلے میں داخل ہو چکا تھا۔ اس واسطے یہ کیسے ممکن
تھا کہ میرا اثر زائل ہو جاتا۔ پروردگار کی یہ بات سن کر آدم ؑ نے سوچا یہ عجیب
بات ہے کہ باپ کی سفارش بیٹا کرے گا۔ تو گویا اس حساب سے باپ کا رتبہ بیٹے سے کم
ہو گیا اور باپ بیٹے کا محتاج ہوا۔ یہ خیال فاسد طوالت کی منزل طے کرنا چاہتا ہی
تھا کہ عالم الغیب کی طرف سے جبرئیل ؑ کو ہدایت ہوئی۔
’’آدم
کے سینہ سے فوراً یہ خیال فاسد دور کرو۔ ورنہ یہی وسوسہ اس کی تباہی کا سبب بن
جائے گا۔‘‘
جبرائیل
ؑ بحکم خداوندی آگے بڑھے اور سینہ آدم کو چیر کر خیال فاسد کا غالب حصہ نکال لیا
اور باحتیاط خاص جنت میں ایک علیحدہ مقام پر دفن کر دیا گیا۔ باقی نصف حصہ جو اس
خیال فاسد کا جو قلب آدم ؑ میں رہ گیا تھا۔ اس نے نفس امارہ کی شکل اختیار کر لی۔
اور وہی نفس امارہ آج تک اولاد آدم کے ساتھ ہے اور جب یہ نفس امارہ آدم زاد کو
کسی گناہ کے ارتکاب کی طرف مائل کرتا ہے تو میں اس کی تائید و حمایت کرتا ہوں۔ بس
یہ صورت ہے آدمی کے گناہ گار بننے کی۔ اگر وہ خیال فاسد پوری طرح آدم ؑ میں رہ
جاتا تو آپ اندازہ کیجئے کہ آدم کی طرف سے کیا کچھ نہ ہوا کرتا۔ مگر وہ انتہائے
فساد پروردگار عالم کو منظور تھا ۔ اس لئے خیال بد کا بڑا حصہ قالب آدم ؑ سے
علیحدہ کر کے جنت میں دفن کرا دیا گیا۔
حضور قلندر بابا اولیاء
آج تک کسی جن یا فرشتہ نے اپنی سوانح
عمری شائع نہیں کی۔ کیوں نہیں کی۔ یہ ایک راز ہے اور رکھا گیا ہے۔ دنیا میں رہنے
والے کم سمجھ انسان اسے نہیں جانتے اور نہیں جان سکتے۔ خاک کی بنی ہوئی عقل کیا
خاک سمجھے گی کہ یہ نوری اور ناری دنیا آج تک اپنی اپنی سوانح حیات لکھنے سے کیوں
گریز کرتی ہیں۔ یہ موٹی عقل کے پتلے شاید یہ سمجھتے ہیں کہ جنوں اور فرشتوں کو لکھنا
پڑھنا نہیں آتا یا انہیں لکھنے پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے لیکن یاد رہے کہ ہم نے مٹی
کے پتلوں سے پہلے کھانا سیکھا ہے، پہلے بولنا سیکھا ہے۔ اگر کسی کو یہ غرور ہے کہ
دنیا کا بے بضاعت انسان کسی معمولی سے معمولی فرشتے کا بھی مقابلہ کر سکتا ہے تو
یہ انسان کی لکھو کھا حماقتوں میں سے ایک اہم حماقت اور نادانی ہے۔