Topics
مور(طائوس)کا
مقدمہ طے ہونے کے بعد حیّہ(سانپ) کی باری آئی یہ بے حد حسین جانور تھا۔ تمام جسم
پر نہایت ہی دل فریب رنگ کے پر تھے۔ اور چار پیروں سے چلتا تھا۔ موجودہ وقت کی
حالت اور جسم سے کہیں زیادہ بڑا اور پیارا قد تھا۔ اس کے جسم اور منہ سے مشک اور
عنبر کی خوشبو آیا کرتی تھی۔ جس طرف سے نکل جاتا تھا پیچھے خوشبوئوں کی سرور
انگیز دنیا چھوڑ جاتا تھا۔ جنت میں اپنے مخصوص امتیازات کے باعث بہت ہی معزز اور
ممتاز سمجھا جاتا تھا۔ جنت کے تمام باشندے حیّہ کی دوستی کو اپنے لئے باعث فخر
جانتے تھے۔ آج بیچارہ نیاز مند کی دوستی کے باعث ملزم کے کٹہرے میں کھڑا اپنے
مقدمے کا فیصلہ سننے کا منتظر تھا۔ بارگاہ انصاف سے آواز آئی۔
حیّہ! ہم نے تجھے اپنی بہت سی مخلوق
سے زیادہ حسن صورت دیا۔ طرح طرح کی نعمتیں تجھے بخشیں، عزت دی، عظمت دی اور اپنی
لاتعداد مہربانیوں سے مالا مال کیا۔ لیکن تو نے ان کی کوئی قدر نہیں کی۔ اور
باوجود ہمارے امتناعی حکم کے تو نے غیر کو جنت میں لے جانے کا گناہ کیا۔ حالانکہ
تو لے جاتے وقت بھی اچھی طرح جانتا تھا کہ سوائے ساکنان فردوس کے ہماری اجازت لئے
بغیر کوئی شخص داخل جنت نہیں ہو سکتا۔ مگر تو نے اس کی کوئی پرواہ نہیں کی اور یہ
خیال کر لیا کہ ہم تیری غداری کا حال نہ جان سکیں گے۔ اس واسطے ہم تیرے لئے حسب
ذیل تین سزائیں تجویز کرتے ہیں۔
پہلی سزا
اخراج
جنت کے ساتھ ہی تیرا تمام حسن صورت واپس لے کر تیرا چہرہ مسخ کر دیا جائے۔
دوسری سزا
جن
پیروں کے ذریعہ تو غیر کو لے کر جنت میں داخل ہوا وہ واپس لے لئے جائیں تا کہ آئندہ
پیٹ کے بل گھسٹے۔
تیسری سزا
جس
منہ میں بھٹا کر لے گیا تھا اور جہاں سے مشک و عنبر کی خوشبو آتی تھی۔ وہاں بجائے
انوار کے زہر ہلاہل بھر دیا جائے۔
مقدمہ
کا فیصلہ اور سزا کا حکم سنانے کے بعد اللہ تعالیٰ نے چند ملائکہ کو حکم دیا کہ
حیّہ کو سزائیں بھگتنے کیلئے زمین پر پھینک دو۔ چنانچہ حیّہ صاحب بصد حسرت و یاس
جسم کی ظاہری و باطنی خوبصورتی کھو کر پیروں سے بے نیاز زمین پر گھسٹ گھسٹ کر چلنے
کیلئے اس دارالحن اور داز السزا میں آگئے جہاں انسان اپنے عیش و آرام کے ذرائع
تلاش کرتا رہتا ہے۔ یہ بیچارے اصفہان میں آ کر گرے اور دنیا کے لئے درس عبرت بن
کر اپنی اولاد اور اولاد کی صورت میں آج تک زندہ ہیں۔
حضور قلندر بابا اولیاء
آج تک کسی جن یا فرشتہ نے اپنی سوانح
عمری شائع نہیں کی۔ کیوں نہیں کی۔ یہ ایک راز ہے اور رکھا گیا ہے۔ دنیا میں رہنے
والے کم سمجھ انسان اسے نہیں جانتے اور نہیں جان سکتے۔ خاک کی بنی ہوئی عقل کیا
خاک سمجھے گی کہ یہ نوری اور ناری دنیا آج تک اپنی اپنی سوانح حیات لکھنے سے کیوں
گریز کرتی ہیں۔ یہ موٹی عقل کے پتلے شاید یہ سمجھتے ہیں کہ جنوں اور فرشتوں کو لکھنا
پڑھنا نہیں آتا یا انہیں لکھنے پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے لیکن یاد رہے کہ ہم نے مٹی
کے پتلوں سے پہلے کھانا سیکھا ہے، پہلے بولنا سیکھا ہے۔ اگر کسی کو یہ غرور ہے کہ
دنیا کا بے بضاعت انسان کسی معمولی سے معمولی فرشتے کا بھی مقابلہ کر سکتا ہے تو
یہ انسان کی لکھو کھا حماقتوں میں سے ایک اہم حماقت اور نادانی ہے۔