Topics
جی
تو نہیں چاہتا کہ ’’بھری بزم میں راز کی بات کہہ دوں‘‘ لیکن میں انسان کی طرح
دھوکے باز نہیں کہ اپنے نقصان کا خیال کر
کے جھوٹ بولوں یا اپنی اچھی اچھی باتیں تو بڑے بڑے عنوانات کے ماتحت شاندار الفاظ
میں کہہ دوں اور بری باتیں چھپا لوں۔ جانتا ہوں کہ اس عنوان کے ماتحت میں جو کچھ
بھی لکھوں گا۔ اس سے میرے مشن کو بہت نقصان پہنچ جائے گا لیکن کچھ پرواہ نہیں جب
اوکھلی میں سر دیا ہے تو موسلوں سے کیا ڈروں گا۔ جو حق بات ہے اسے کیوں چھپائوں۔
جو کچھ میں کر رہا ہوں اور پھر بھی کرتا رہوں گا۔ اس کے لئے عمر پڑی ہے آج جھوٹ
بول کر کیوں ’’انسان‘‘ ہوں اگر میری نئی اسکیمیں اور ہتھکنڈے ظاہر ہو گئے تو کس کی
مجال ہے کہ میرے راستے میں روڑے اٹکا سکے۔
سنیئے!
آج کل میرے دفتر میں کام کی بہت زیادتی ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ میں نے اور
میری کمپنی نے ایک ہی وقت میں بے شمار تحریکیں زیر عمل کر لی ہیں۔ گو کام کی یہ
زیادتی ذاتی طور پر مجھے کچھ تکلیف نہیں دیتی لیکن ان سب پر کنٹرول میں کافی دقت
پیش آ رہی ہے۔
جب
موجودہ وقت کیلئے ہماری ’’مجلس تحریک ساز‘‘ مختلف تجاویز پیش کر رہی تھیں۔ تو میں
نے بحیثیت صدر کے صرف ایک ہی رائے دی تھی کہ ہم سب کو ہر طرف سے غافل ہو کر صرف
مسلمان قوم پر ’’مہربان‘‘ ہونا چاہئے تا کہ اپنی دیرینہ عداوت کی پیاس بجھا سکیں۔
لیکن افسوس ہے کہ مجھے اپنے دوستوں کی رائے سے یہ تجویز واپس لینا پڑی۔ کیونکہ ان
سب کا مشورہ یہ تھا کہ ہمیں نا انصافی نہیں کرنی چاہئے۔ صرف مسلمان قوم کو منتخب
کر کے باقی سب کو آزاد کرنا انصاف کا کون کر دینا ہے۔ کیا باقی قومیں آدم کی
اولاد نہیں ہیں۔ اگر ہیں تو پھر ہمیں اپنے وسیع ذرائع کو حرکت میں لانے سے گریز کی
کیا ضرورت ہے۔ بہتر ہے کہ ضرورت کے لحاظ سے یا تو فرداً فرداً انسانوں سے بدلہ لیا
جائے یا بحیثیت قوم۔ لیکن اس انتقام کے نشانہ پر ان سب کو لے آنا چاہئے جن کا
تعلق آدم کی اولاد سے ہے۔ چنانچہ اس سلسلہ میں جغرافیائی حالات پر اچھی طرح غور
کرنے کے بعد ہم نے مختلف ملکوں کے لئے ان کی مناسبت سے مختلف تجاویز منظور کیں۔
ضرورت تو اس بات کی ہے کہ میں ہر ملک کے لئے منظور شدہ حالات کو اس کتاب میں لکھ
دوں لیکن یہ بے نتیجہ سی بات ہے کیونکہ یہ کتاب اردو زبان میں شائع ہو رہی ہے اور
اردو سوائے ہندوستان اور پاکستان کے کہیں بھی رائج نہیں ہے۔ پس میں صرف دو باتیں
بیان کروں گا۔ جن کا تعلق ان ملکوں سے ہے یعنی صرف دو تجویزیں جو ان ملکوں کے
باشندوں کے لئے ہماری مجلس تحریک ساز نے تیار کی ہیں۔ ہاں اس کا وعدہ کرتا ہوں کہ
جس جس زبان میں مجھے سوانح عمری لکھنے کی ضرورت محسوس ہوتی رہے گی۔ یا جن زبانوں
میں اسے شائع کرنے کے لئے بھیجوں گا۔ وہ زبان جہاں بولی جاتی ہو گی ان سب مقامات
کے متعلق تجاویز بھی اس میں درج کروں گا۔ مثلاً کل کو اگر یہ کتاب کسی نے انگریزی
میں شائع کی یا کرنے کا ارادہ کیا تو یورپ کے ان تمام خطوں کے حالات بھی بھیج دوں
گا۔ جہاں جہاں انگریزی رائج ہے یا اگر جرمن زبان میں کسی شخص نے اس کتاب کا ترجمہ
کیا تو جرمنی کے لئے جو تجاویز ہماری مجلس کے زیر عمل ہیں وہ صراحت کے ساتھ لکھ
دوں گا۔ اسی طرح عربی، فارسی، ترکی، چینی، جاپانی، لاطینی وغیرہ وغیرہ زبانوں کے
لئے وہاں کے حالات بھیج سکتا ہوں۔ جس شخص کو ضرورت ہو مجھ سے منگا لے۔ فی الحال
آپ پاکستان اور ہندوستان کے متعلق تجاویز کے حالات سنیئے۔
یہ
تو قریب قریب ناممکن ہے کہ میں اس مختصر سی کتاب میں ان تمام تجویزوں کا حال درج
کردوں جو ان ملکوں کیلئے ہماری مجلس تحریک ساز نے اپنے آئندہ یا موجودہ پروگرام میں
شامل کی ہیں۔ تاہم چند اہم تجاویز کا ذکر کردینا ضروری ہے مثلاً۔
میں
نے اولاد آدم میں یہ اسپرٹ پیدا کی کہ وہ لباس کے جھگڑے میں نہ پڑیں۔ کیونکہ کپڑے
پہننے سے انسانی جسم کو دھوپ نہیں مل سکتی اور دھوپ کا غسل صحت کیلئے ضروری ہے۔
مجھے اعتراف ہے کہ مغرب کے بعض حصوں میں مجھے اس تحریک کا حوصلہ افزا نتیجہ ملا۔
مگر ایشیا کے کم عقل باشندوں نے یہ مشہور کر دیا کہ یہ تحریک اخلاق اور تہذیب کی
دشمن ہے تاہم یہ کیسے ممکن تھا کہ میری کوشش رائیگاں جائے۔ دیکھنے والے دیکھ رہے
ہیں کہ بڑے بڑے خاندانوں کی نوجوان لڑکیاں اور عورتیں کوشش کرتی ہیں اس بات کی کہ
ان کے جسم کا زیادہ سے زیادہ حصہ ننگا نظر آئے اور لوگ اسے دیکھیں۔ ورنہ آپ ہی
بتا دیجئے کہ عریانی کے کیا معنے ہیں۔ آپ سمجھ لیجئے کہ یہ ننگا رہنے کی کوشش وہ
لڑکیاں کرتی ہیں جن کی دادی یعنی اماں حوا نے دوسروں سے لباس مانگ کر جنت میں اپنی
سترپوشی کی تھی۔ اس کے علاوہ میرے مشن کی تعلیم کا بیشتر حصہ آسمانی تعلیم کی ضد
پر منحصر ہے۔ اس واسطے آپ ہر معاملے کو سامنے رکھیئے اور اندرازہ کیجئے کہ اخلاق
اور تمدن کیا چاہتا ہے۔ اور میری تعلیم کیا گُل کھلا رہی ہے۔ خدا نے بندے سے کہا
کہ شراب نہ پی۔ میں نے کہا پی۔ کچھ میری طرف آئے اور اور کچھ پرانی لکیر کے فقیر
ہو کر ان دیکھے خدا کی طرف۔ اُدھر سے زنا۔جوا۔فسق و فجور۔بے شرمی۔بے حیائی اور خدا
جانے کس کس چیز کی ممانعت ہوئی اور میری طرف سے ان سب چیزوں کے جواز کاپروپیگنڈہ
ہوا۔ نتیجہ خود دیکھ لیجئے۔ میری طرف کتنے ہیں اور اس خدا کی طرف کتنے ہیں۔ جس کو
تمام جہاں پر خدائی کا دعویٰ ہے۔
اگر
اس معاملے میں انصافانہ غور کیا تو آپ کو معلوم ہو جائے گا۔ کہ انسانی آبادی کا
تین چوتھائی حصہ میرے قبضہ میں آ چکا ہے۔ اور اگر یہی رفتار رہی اور میرے بھولے
بھالے شکار اسی طرح غفلت کی نیند سوتے رہے تو وہ دن دور نہیں جب دنیا والے 99%میری
تعلیم اور میرے مشن کے مجسم اشتہار بن جائیں گے۔
آخر
میں ایک بات اورعرض کر دوں اور وہ یہ کہ میں نے طوالت کے خوف سے اپنے موجودہ اور
زیرعمل پروگرام کو بیان نہیں کیا ہے۔ کیونکہ وہ بہت ہی طویل ہے۔ اور صرف اس کے لئے
موجودہ کتاب سے دوگنی ضمانت کی ضرورت ہے پس میں احتیاطاً تازہ مشاغل کو محفوظ
رکھتا ہوں۔ اگر ناظرین نے ضرورت محسوس کی تو انشاء اللہ وہ علیحدہ کتاب کی صورت
میں پیش کروں گا۔ جو غالباً موجودہ سے کہیں زیادہ ضخیم ہو گی اور چونکہ آجکل کے
واقعات درج کروں گا اس واسطے دلچسپ بھی زیادہ ہو گی۔
میں
جانتا ہوں کہ میرے حالات پڑھنے والوں کو ابھی سے میری آئندہ زندگی اور اگلے
پروگرام کو سمجھنے کی بیتابی ہو گی لیکن مجھے افسوس ہے کہ میں قبل از وقت اپنی
اسکیم ظاہر کر کے رخنہ اندازی کی دعوت نہیں دینا چاہتا۔
تاہم
ضروری معلوم ہوتا ہے کہ تازہ مشاغل کا ایک ہلکا سا خاکہ بتا دوں۔ یہ تو آپ کو
معلوم ہی ہے اور آپ نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا ہے کہ ستمبر۱۹۳۹ء میں میرے مریدوں نے
جرمنی سے ایک نہایت کارآمد آواز بلند کی اور ایک ایسی خون ریز جنگ کی بنیاد رکھی
جس کے نتیجہ میں نسل آدم کے کروڑوں لہلہاتے پودے تہس نہس ہو گئے۔ میں نے شروع میں
اندازہ لگایا تھا کہ کم از کم دنیا کی ایک چوتھائی آبادی کو اس تحریک میں مبتلا
کر کے فنا کر دوں گا۔ مگر جرمنی کے ایک بزدل مرید نے میری یہ اسکیم کمزور کر دی۔
اور وقت سے پہلے ہی جی چھوڑ بیٹھا۔ بہرحال ۱۹۴۴ء تک اس جنگ میں جو لطف
آیا وہ میری معقول کامیابی کہی جا سکتی ہے۔ چونکہ میری یہ اسکیم ادھوری رہ گئی
تھی۔ اس لئے جنگ کے خاتمے کے بعد بھی میں نے اپنی تمام فوجوں کیلئے اعلیٰ کمانڈروں
کو ہدایات بھیج دیں۔ کہ پھر کسی نہ کسی طرح انسان کو آمادہ فساد کرو اور جلد سے
جلد دنیا کی چوتھائی آبادی کو خون میں نہلا دو۔
خدا
کا شکر ہے کہ میرے فوجی افسروں نے اس حکم کی اہمیت کو فوراً سمجھ لیا اور ساری
دنیا میں ایک ایسی کیفیت پیدا کر دی ہے کہ اب جس طرح نظر اٹھا کر دیکھیئے خون ہی
خون نظر آتا ہے۔ اس سلسلے میں نا انصافی ہو گی اگر میں اپنے چینی نمائندوں کی حسن
کارکردگی کو نہ سراہوں۔ جنہوں نے بڑی جانفشانی کے ساتھ چین میں ایسے حالات پیدا کر
دیئے جن کی بدولت میں وسیع و عریض ملک کی اینٹ سے اینٹ بج گئی۔ اسی طرح فلسطین،
یونان، ہندوستان، برما، انڈونیشیا، ہالینڈ، جاوا وغیرہ بہت سے ممالک میں میرے
ساتھیوں اور دوستوں نے جو کارہائے نمایاں سر انجام دیئے ہیں۔ ان کی تفصیلات بھی
انسان ضعیف البنیان کے کانوں تک پہنچ چکی ہیں۔ اور پھر لطف کی بات یہ ہے کہ ان
تمام خونیں حوادث میں اگرچہ 100%میرا ہاتھ ہے لیکن آپ ہی بتایئے کبھی کسی طرف سے
مجھ پر کوئی الزام آیا؟ اسی لئے تو کہتا ہوں کہ یہ مٹی کا پتلہ انسان دعوے تو
آسمانی کرتا ہے۔ مگر عقل اتنی بھی نہیں رکھتا کہ اپنے گرد و پیش کے حالات کو صحیح
رنگ میں پہچان سکے۔ فلسطین کے خون خرابہ کو یہودیوں کے سر تھوپا جاتا ہے۔ یونان
میں عوام کے جذبات کو ملزم گردانتا ہے۔ ہندوستان کے سابقہ فسادات کی ذمہ داری
ہندوئوں کی ذہنیت پر ڈالتا ہے۔برما کی قتل و غارت گری کو انسانوں کی پارٹی ندی ندی
کا نتیجہ کا نتیجہ قرار دیتا ہے۔ انڈونیشیا کی تباہی کا ذمہ دار ہالینڈ کی سامراجی
ذہنیت کو ٹھہراتا ہے۔ اور نادان یہ نہیں سمجھتا کہ قصور کٹھ پتلی کا نہیں ہوتا۔
بہرحال
یہ بات آدم کو تسلیم کر لینی چاہئے کہ میں نے انتقام کی حقیقت کو پوری طرح سمجھ
لیا ہے۔ اور نہایت کامیابی کے ساتھ اپنی اس پیاس کو بجھا رہا ہوں۔ موجودہ دور کے
انسان نے بھی میرے کار ہائے نمایاں کو اچھی طرح دیکھا ہے اور جو کچھ اگلے چند
برسوں میں کرنے والا ہوں وہ بھی سامنے آ جائے گا۔ اگرچہ اس کی تفصیل بتانی
’’ابلیسی مشن‘‘ کے مفاد کے خلاف ہے۔ تاہم اشارتاً بتائے دیتا ہوں کہ اگر انسان میں
کچھ دم خم ہے تو میرے فولادی مشن کو ناکام بنانے کی کوشش کرے۔
میں
نے ایک جدید پروگرام کے تحت اپنے چند ہوشیار ساتھیوں کو امریکہ اور روس میں بھیج
دیا ہے اور کچھ لوگ انگلینڈ میں مقرر کئے ہیں۔ تینوں پارٹیاں میری بتائی ہوئی
سائنٹفک ترکیبوں پر عمل کریں گی اور دنیا کو ایک بار پھر یاد دلا دیں گی کہ ابلیس
مرا نہیں زندہ ہے اور اس کا جذبہ انتقام آج تک جوان ہے۔
نامناسب
نہ ہو گا اگر اس سلسلہ میں ہندوستان اور پاکستان میں عمل میں لانے والی تحریکوں کی
طرف بھی اشارہ کر دوں۔ میں نے فیصلہ کیا ہے کہ ہند میں سابقہ فسادات میں جو کسر رہ
گئی ہے اسے پورا کرنے کے لئے عوام کے جذبات کو تربیت دوں۔ اس مقصد کے لئے میں نے
خاص طور پر کئی عمدہ آدمی منتخب کئے ہیں۔ جن کے نام فی الحال ظاہر نہیں کرنا
چاہتا۔ البتہ یہ اشارہ کر دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ ایک اپنی تحریک کا سردار میں
نے ہند کے ایک ایسے ’’عقلمند‘‘ انسان کو تجویز کیا ہے جس کی بات ہندی اور پاکستانی
اخبارات اکثر اپنے متعصبانہ خیالات کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔ جسے باوجود کافی عقل و
دانش رکھنے کے یہ لوگ ’’دیوانہ لیڈر‘‘ کہتے ہیں اور جب یہ کوئی میرے مطلب کی تقریر
کرتا ہے تو کہتے ہیں کہ بکواس کر رہا ہے۔ حالانکہ وہ تقریر کا ماسٹر ہے اور اپنے
مخالفین کو دن میں تارے دکھا دیتا ہے۔ بہرحال مجھے اپنے اس انتخاب پر فخر ہے اور
یقین ہے کہ وہ میرا سچا رفیق ثابت ہو گا۔ اور تمام ملک میں ایک نہ ایک دن اس کا
’’لوہا‘‘ مانا جائے گا۔ اگر خدا نے اسے جلدی نہ اٹھا لیا تو میں اس کے ہاتھوں وہ
کچھ کرا دوں گا کہ بنی نوع انسان کو اگر اس کی پہلے سے خبر ہو جائے تو خوف کے مارے
اس کا دم نکل جائے۔ مجھے اپنے چیلے پر اس لئے بھی فخر ہے کہ وہ ہزار مخالفتوں کے
باوجود میری طرح اپنے ارادوں پر اٹل نظر آتا ہے۔ خدا اس کی عمر میں برکت دے اور
وہ میرے ناتمام مشن کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے میں نمایاں امداد دے سکے۔
پاکستان
سے بھی میں غافل نہیں ہوں اس ملک کے لوگوں کو ہرگز یہ نہ سمجھنا چاہئے کہ ان کے
پاس ’’لاحول‘‘ کا ہتھیار ہے۔ اس لئے وہ میری گرفت سے بچ رہیں گے۔ میں نے اس ملک
میں بھی جگہ جگہ اپنے ایجنٹ مقرر کر دیئے ہیں۔ جنہوں نے باقاعدگی سے اپنا کام شروع
کر دیا ہے اور اکثر مقامات سے ان کی شان دار کامیابیوں کی اطلاعات آ رہی ہیں۔ جن
کی تفصیل اپنی کسی اگلی کتاب میں بیان کروں گا۔ فی الحال تو پڑھنے والوں سے ایک
درخواست ہے کہ وہ میری سوانح عمری کو پڑھنے کے بعد فوراً کسی آگ میں پھینکوا دیں۔
کہیں ایسا نہ ہو کہ اس کتاب میں، میں نے جو راز وقت سے پہلے ظاہر کر دیئے ہیں وہ
طشت ازبام ہو کر میری ناکامی کا سبب بن جائیں۔ اس سلسلہ میں تمام ناظرین سے وعدہ
کرتا ہوں کہ جو لوگ یہ کتاب پڑھنے کے بعد جلا ڈالیں گے یا کسی اندھے کنوئیں میں
پھینک دیں گے قیامت کے روز میں ان کے گناہ اپنے کھاتے میں لکھوا کر انہیں جنت میں
بھجوا دوں گا۔
دوستوں
کا دوست
’’ابلیس‘‘
حضور قلندر بابا اولیاء
آج تک کسی جن یا فرشتہ نے اپنی سوانح
عمری شائع نہیں کی۔ کیوں نہیں کی۔ یہ ایک راز ہے اور رکھا گیا ہے۔ دنیا میں رہنے
والے کم سمجھ انسان اسے نہیں جانتے اور نہیں جان سکتے۔ خاک کی بنی ہوئی عقل کیا
خاک سمجھے گی کہ یہ نوری اور ناری دنیا آج تک اپنی اپنی سوانح حیات لکھنے سے کیوں
گریز کرتی ہیں۔ یہ موٹی عقل کے پتلے شاید یہ سمجھتے ہیں کہ جنوں اور فرشتوں کو لکھنا
پڑھنا نہیں آتا یا انہیں لکھنے پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے لیکن یاد رہے کہ ہم نے مٹی
کے پتلوں سے پہلے کھانا سیکھا ہے، پہلے بولنا سیکھا ہے۔ اگر کسی کو یہ غرور ہے کہ
دنیا کا بے بضاعت انسان کسی معمولی سے معمولی فرشتے کا بھی مقابلہ کر سکتا ہے تو
یہ انسان کی لکھو کھا حماقتوں میں سے ایک اہم حماقت اور نادانی ہے۔