Topics
افسوس
ہے کہ باوجود اچھا خاصا سمجھدار ہونے کے میری عقل پر اس وقت پتھر پڑ گئے اور میں
یہ نہ سوچ سکا کہ جس میں اعزاز بخشنے کی طاقت ہے وہ ذات بھی تو دے سکتا ہے۔ مگر
میں سوچتا بھی تو کیسے۔ میری خلقت نار سے ہوئی تھی اور احسان فراموشی نار کا خاصہ
ہے اس واسطے کہا جا سکتا ہے کہ میں بے قصور تھا۔ احسان فراموشی کے ان ناپاک خیالات
کو روکنا میرے بس کی بات نہیں تھی۔
پہلے
شیطانی وسوسہ پر جتنے آنسو بہائوں کم ہے۔ کیونکہ پہلی بات تھی۔ مگر اس کے ساتھ ہی
یہ احساس بھی شروع ہو گیا کہ اگر خدا چاہے کہ عزازیل سے یہ تمام وجاہتیں اور
عظمتیں چھین لے یا چھین کر کسی دوسرے کو دیدے تو شاید اسے بہت کچھ دقتیں اٹھانی
پڑتیں گی اور (نعوذ باللہ من ذالک) پھر بھی کامیاب نہ ہو سکے گا۔ کیونکہ دنیا جہان
کی ہر طاقت میرے قبضہ میں آ چکی ہے اور جس کے بل بوتہ پر (توبہ، توبہ) اسے ناز ہے
وہ میرے اختیار میں ہے۔
لعنت
ہے میرے ان خیالات پر جنہوں نے مجھے کہیں کا نہ رکھا۔ اور سب کچھ چھنوا دیا۔
بہرحال اس وقت باوجود ان شیطانی وسوسوں کے مجھ سے کوئی بازپرس نہیں کی گئی تھی اور
میں بدستور حکومت اور پیغمبری کرتا رہا۔
حضور قلندر بابا اولیاء
آج تک کسی جن یا فرشتہ نے اپنی سوانح
عمری شائع نہیں کی۔ کیوں نہیں کی۔ یہ ایک راز ہے اور رکھا گیا ہے۔ دنیا میں رہنے
والے کم سمجھ انسان اسے نہیں جانتے اور نہیں جان سکتے۔ خاک کی بنی ہوئی عقل کیا
خاک سمجھے گی کہ یہ نوری اور ناری دنیا آج تک اپنی اپنی سوانح حیات لکھنے سے کیوں
گریز کرتی ہیں۔ یہ موٹی عقل کے پتلے شاید یہ سمجھتے ہیں کہ جنوں اور فرشتوں کو لکھنا
پڑھنا نہیں آتا یا انہیں لکھنے پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے لیکن یاد رہے کہ ہم نے مٹی
کے پتلوں سے پہلے کھانا سیکھا ہے، پہلے بولنا سیکھا ہے۔ اگر کسی کو یہ غرور ہے کہ
دنیا کا بے بضاعت انسان کسی معمولی سے معمولی فرشتے کا بھی مقابلہ کر سکتا ہے تو
یہ انسان کی لکھو کھا حماقتوں میں سے ایک اہم حماقت اور نادانی ہے۔