Topics
میں
جانتا تھا کہ آدم ؑ پر قابو پانا آسان نہیں۔ اس واسطے موقع کی تلاش میں رہا۔ گو
اس عرصہ میں اپنی ذلت انگیز زندگی سے بارہا مجھے خون کے آنسو رونا پڑے۔ لیکن میں
نے ہمت نہ ہاری اور بدستور انتقام کے مختلف پہلوئوں پر غور کرتا رہا۔
ایک
دن اپنے جی میں ایک پروگرام تیار کر کے اور اپنی شکل فرشتوں کی سی بنا کر جنت کے
دروازے پر گیا۔ مگر مجھے کسی نے اندر جانے نہ دیا۔ نہ کسی نے یہ پہچانا کہ میں کون
ہوں۔ لیکن اس کے باوجود میری دال نہ گلی۔ حالانکہ میں فرشتے کی شکل میں گیا تھا
اور میں نے روکنے والوں سے یہی کہا کہ میں ایک مقرب فرشتہ ہوں۔ آج جنت کی سیر کو
جی چاہا تو اس طرف آ نکلا۔ لیکن داخلہ کے پاسپورٹ پر جنت کے پاسبان مسٹر رضوان کے
دستخط نہ ہو سکے۔ مجبوراً باہر کھڑا رہا۔ اس انتظار میں کہ ممکن ہے کہ جنت میں سے
کوئی شخص ایسا باہر نکلے جس پر میرے جادو بھرے الفاظ اثر کر سکیں۔
بعض
دنیاوی مورخین نے بتایا کہ مجھے اس انتظار میں کھڑے کھڑے تین ہزار سال گزر گئے۔
لیکن میں اس کی تصدیق نہیں کر سکتا۔ کیونکہ میں اندرونی بے چینیوں کے باعث اتنا
ہوش ہی نہیں رکھتا تھا کہ انتظار کی مدت شمار کرتا۔ ہاں یہ ضرور یاد ہے کہ انتظار
کا زمانہ بہت ہی طویل اور تکلیف دہ تھا۔ ایک دن میری خوش قسمتی کامیابی کا لبادہ
اوڑھے ہوئے طائوس کی شکل میں جنت سے برآمد ہوئی۔
میں
نے مور کو جنت کے دروازے پر کھڑا دیکھا تو اس کے قریب گیا اور کہا:
اے
دوست! بہت دن کے بعد تم نظر آئے۔ میں ارادہ کر ہی رہا تھا کہ اندر جا کر تم سے
پوچھوں کہ اب ملنا جلنا کیوں چھوڑ دیا۔ مگر شکر ہے کہ تم آ گئے۔ مجھے تم سے ایک
کام ہے۔ کیا میں امید کروں کہ تم اسے پورا کر دوگے۔
مور
نے حیرت سے مجھے دیکھا اور پوچھا کہ آپ کون ہیں۔ میں نے آپ کو پہچانا نہیں۔ میں
نے فوراً جواب دیا۔ اوہو۔ تم اتنی جلدی بھول گئے۔ تم نے مجھے بار بار دیکھا ہو گا۔
میں اللہ تعالیٰ جل جلالہ کا بہت ہی محبوب فرشتہ ہوں۔ دن رات اس کی عبادت میں
مصروف رہتا ہوں۔ اس وجہ سے ادھر کم آنا جانا ہوتا ہے۔ آج بیٹھے بیٹھے جنت کی سیر
کو جی چاہا اس لئے ادھر آ نکلا۔ یہاں آ کر مجھے بہت حیرت ہوئی۔ یہ جنت کے دربان
بہت ہی بداخلاق معلوم ہوتے ہیں۔ مجھ جیسے فرشتے کو بھی جنت میں جانے سے روکتے ہیں
مگر دوست! مجھے تمہارے اخلاق حسنہ اور مہمان نوازی سے یہ امید نہیں تھی کہ تم بھی
ان لوگوں کی طرح مجھ سے غیروں جیسا سلوک کرو گے۔
مور
نے یہ سن کر کہا۔ ہاں میں تو ایسا ہی ہوں۔ کیا حرج ہے اگر تم جنت کی سیر کر لو۔
لیکن یہ لوگ تمہیں شاید اس لئے روکتے ہیں کہ وہ تم سے واقف نہیں ہیں۔ مگر یہ تو
بتائو کہ تم جنت میں جا کر کیا کرو گے۔ جو کچھ تم بارگاۂ صمدیت میں کرتے رہتے ہو۔
وہی یہ لوگ جنت میں کرتے ہیں۔ تم وہاں عبادت کرتے ہو۔ یہ یہاں مصروف عبادت ہیں۔
میں
نے کہا یہ ٹھیک ہے۔ لیکن اس سیر سے میرا منشا یہ بھی ہے کہ جنت کے کل راز اور یہاں
کے باشندوں کی عبادت کا حال دیکھ کر اپنا شوق عبادت بڑھائوں اور پہلے سے زیادہ شوق
کے ساتھ خالق کائنات کی عبادت کر سکوں۔
مور
بولا۔ تو پھر میرے لائق جو کام ہو بتائو۔ میں کرنے کو تیار ہوں۔ میں نے کہا۔ تم
مجھے اپنے ساتھ اندر لے چلو۔ یہ لوگ جب مجھے تمہارے ساتھ دیکھیں گے تو کوئی اعتراض
نہیں کریں گے۔ یہ سن کر طائوس نے جواب دیا۔ اے اجنبی دوست! مجھ میں تو یہ طاقت
نہیں ہے کہ کسی کو اندر جنت میں پہنچا سکوں۔ البتہ میرا ایک دوست ہے۔ وہ تمہیں
یہاں کی سیر کرا دے گا۔ میں نے کہا۔ تو پھر اسے ہی بلا دو۔ ممکن ہے کہ وہ مجھے جانتا
ہو اور اگر وہ نہ بھی جانتا ہوا تو تم اسے سمجھا دینا کہ یہ ایک مقرب فرشتہ ہے اور
اپنی عبادت بڑھانے کے لئے جنت کی سیر کرنا چاہتا ہے۔ وہ تمہارا کہنا ضرور مان لے
گا۔
مور
یہ سن کر جنت میں گیا اور تھوڑی ہی دیر میں اپنے دوست کو ساتھ لے آیا۔ اس کے دوست
کا نام حیہ تھا۔ جسے آج کل اردو زبان میں سانپ اور انگریزی میں Snakeاور ہندی زبان میں ناگ
دیوتا کہتے ہیں۔ اس نے آتے ہی طرح طرح کے سوال شروع کر دیئے اور کچھ میرے نئے
ہمدرد طائوس نے۔ آخر کار حیہ نے کہا۔ آئو میرے منہ میں بیٹھ جائو۔ تا کہ جنت کی
سیر کرا دوں۔ میں نہایت اطمینان کے ساتھ اس کے حسین منہ میں ایسے بیٹھ گیا جیسے اب
سے پچاس برس پہلے ہمارے ملک کے رئیس ’رتھ‘‘ میں سوار ہوا کرتے تھے۔
حیہ
نہایت حسین تھا اوراس کے اس زمانہ میں چار پیر تھے جسم سے نور برستا تھا اور دور
دور تک اس کی شعاعیں جاتی تھیں۔ اپنے منہ میں رکھ کر مجھے لے چلا۔ راستہ میں ہمارے
پرانے دوست مسٹر رضوان کو کچھ شبہ ہو گیا اور انہوں نے اسے روکنا چاہا۔ تو فوراً
ہی بارگاہ عالم الغیب سے حکم صادر ہوا۔
اے
رضوان! حیہ کو اندر جانے دو۔ اس کا روکنا مناسب نہیں۔
کیونکہ
یہ ایک راز ہے اور ہم اسے خوب سمجھتے ہیں۔
رضوان
خاں اپنا سا منہ لے کر رہ گئے اور یار لوگ دندناتے ہوئے خلد بریں میں جا پہنچے۔ جی
تو چاہا۔ اس حرکت پر حیہ کے منہ سے نکل کر رضوان کا منہ چڑھا دوں اور کہوں۔ روک نہ
لیا۔ بڑے ٹھیکیدار جنت کے۔ دیکھ جانے والے یوں جاتے ہیں۔
مگر
میں نے سوچا کہ اگر اس وقت میں رضوان کا منہ چڑایا تو واپسی پر بڑی خبر لے گا اور
مجھے انتقام کی پیاس بجھا کر اسی کے سامنے سے واپس جانا ہے۔ چنانچہ اس دور اندیشی
کے تحت میں خاموش بیٹھا رہا۔ حیہ نے جنت میں لے جا کر مجھے اُگل دیا۔ اور کہا۔ لو
اب تم سیر کر سکتے ہو۔ مگر یاد رکھنا۔ آداب جنت کے خلاف کوئی کام نہ کر بیٹھنا۔
میں نے کہا۔ حیہ دوست! تم اگر مجھ سے واقف ہوتے تو شاید تمہیں یہ کہنے کی ضرورت ہی
محسوس نہ ہوتی۔ میں یہاں کے آداب سے بخوبی واقف ہوں۔ اور انشاء اللہ تمہیں کسی
قسم کی شکایت نہ ہونے دوں گا۔ بلکہ یہاں سے جانے کے بعد تم دیکھو گے کہ پروردگار
تمہیں بھی وہی عظمت و شان عطا کر دے گا۔ جو آج مجھے میسر ہے۔
حضور قلندر بابا اولیاء
آج تک کسی جن یا فرشتہ نے اپنی سوانح
عمری شائع نہیں کی۔ کیوں نہیں کی۔ یہ ایک راز ہے اور رکھا گیا ہے۔ دنیا میں رہنے
والے کم سمجھ انسان اسے نہیں جانتے اور نہیں جان سکتے۔ خاک کی بنی ہوئی عقل کیا
خاک سمجھے گی کہ یہ نوری اور ناری دنیا آج تک اپنی اپنی سوانح حیات لکھنے سے کیوں
گریز کرتی ہیں۔ یہ موٹی عقل کے پتلے شاید یہ سمجھتے ہیں کہ جنوں اور فرشتوں کو لکھنا
پڑھنا نہیں آتا یا انہیں لکھنے پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے لیکن یاد رہے کہ ہم نے مٹی
کے پتلوں سے پہلے کھانا سیکھا ہے، پہلے بولنا سیکھا ہے۔ اگر کسی کو یہ غرور ہے کہ
دنیا کا بے بضاعت انسان کسی معمولی سے معمولی فرشتے کا بھی مقابلہ کر سکتا ہے تو
یہ انسان کی لکھو کھا حماقتوں میں سے ایک اہم حماقت اور نادانی ہے۔