Topics
میں
اس شش و پنج میں مبتلا تھا کہ آسمان سے حضرت آدم کا پتلہ تیار ہونے کی خبر ملی۔
مجھے بتایا گیا کہ ایسا عجیب و غریب قالب تیار کرنے کا پروردگار نے حکم دیا ہے جس
کی بناوٹ میں عجیب و غریب چیزیں کام میں لائی جائیں گی۔ مخبر نے کہا کہ جیسا پتلہ
تیار ہونے والا ہے نہ ہم نے سنا، نہ دیکھا۔ اس کا سر مکہ کی خاک سے تیار ہو گا اور
گردن بیت المقدس کی مٹی سے بنے گی۔ سینہ زمینِ عدن سے اور پشت شکم ہندوستان کی
سرزمین سے۔ ہاتھ مشرق کی خاک سے اور پیر مغرب کی زمین سے تیار ہونگے اور باقی گوشت
پوست اور خون وغیرہ جہان کی مجموعی خاک سے بنیں گے۔
یہ
بھی معلوم ہوا کہ اس پتلہ میں مٹی علاوہ آگ، پانی اور ہوا کو بھی شامل کیا جائے گا
اور اس طرح یہ عجیب و غریب پتلہ خود صانع مطلق اپنے ہاتھ سے تیار کرے گا۔ اس کے
بعد یہ معلوم نہ ہو سکا کہ تیاری کے بعد اس پتلہ سے کیا کام لیا جائے گا۔
سی
آئی ڈی کی یہ اطلاع میرے لئے بہت تشویش انگریز تھی۔ معاً مجھے خیال آیا کہ جس
بندہ کے لئے لوح محفوظ پر پیشین گوئی کی تھی، ہو نہ ہو، یہ وہی حضرت ہیں۔ پروردگار
اسی پتلہ کو اپنی نعمتوں سے مالا مال کرے گا لیکن مجھے یاد آیا کہ پروردگار کی
پیشین گوئی میں تو یہ بات ہے کہ پہلے اس کو زمین سے آسمان پر پہنچا دیں گے۔
یہ
پتلہ تو آسمان پر ہی تیار ہو رہا ہے پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ پیشین گوئی اس کے
لئے ہو۔ اس خیال نے مجھے پریشان کر دیا۔ البتہ اگر یہ پتلہ زمین پر تیار ہوتا تو
یقیناً شبہ کی کوئی گنجائش ہی نہیں تھی۔
میں
نے مخبر سے پوچھا کہ اس پتلہ میں یہ جگہ جگہ کی مٹی کیوں شامل کی گئی۔ کیا ایک ہی
جگہ خاک کا اتنا ذخیرہ نہیں مل سکا۔ جو اس کے لئے کافی ہوتا۔ مخبر نے کہا کہ مختلف
ممالک کی مٹی سے تیار کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اس پتلہ کی نسل مختلف اور مختلف خصائل
کی بنے گی اور اس ترکیب عمل کا نتیجہ ایک یہ بھی ہو گا کہ نسل آدم مختلف شکلوں اور
مختلف ہستیوں میں نمودار ہو سکے گی۔
میں
نے پوچھا کیا آدم کا پتلہ اس لئے تیار ہو رہا ہے کہ اس سے نسل چلائی جائے گی۔
جواب ملا کہ باطن کا حال تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے لیکن حالات اور مختلف افوائیں
یہی بتاتی ہیں کہ اس پتلے کی کسی نہ کسی وقت نسل چلے گی۔
ان
عجیب و غریب اطلاعوں نے مجھے اور بھی پریشان کر دیا۔ طرح طرح کی بدگمانیاں اور برے
برے خیال ہر وقت ستانے لگے۔ اسی اثناء میں میرے محکمہ سی آئی ڈی نے مجھے اطلاع دی
کہ پروردگار نے آدم کا پتلہ تیار کر کے زمین پر بھیج دیا ہے اور فلاں فلاں جگہ
رکھا ہوا ہے۔
فرشتے
یہ سن کر جوق در جوق وہاں جانے لگے۔ پتلہ کا تحیر خیز حسن، صفائی، طینت و ہیت اور
ترکیب ظاہری و باطنی اعضاء کی عجیب و غریب ساخت کو دیکھ دیکھ کر تمام فرشتے انگشت
بدنداں تھے اورصائع حقیقی کی حمد و ثناء کرتے تھے۔
میں
بھی پتلہ کے پاس گیا۔ درحقیقت اس کے متعلق جو کچھ اطلاع ملی تھی۔ وہ سب باتیں اس
پتلہ میں موجود تھیں۔ عجیب و غریب اعضاء کی ساخت اور اس کا حسن واقعی بے نظیر تھا۔
مجھے دیکھتے ہی وہاں جتنے فرشتے تماشہ دیکھنے جمع ہوئے تھے کہنے لگے کہ اے بادشاہ
عالم! یہی وہ پتلہ ہے جس کی اطلاع ہمیں ملی تھی۔ میں نے کہا ذرا ٹھہرو میں اسے
اندر سے دیکھنا چاہتا ہوں تا کہ معلوم ہو سکے کہ خداوند قدوس نے اس کے اندر کس قسم
کی مشینری رکھی ہے۔ یہ کہتے ہوئے اول تو میں نے اس پتلہ کو اپنی انگلیوں سے اس طرح
بجایا جیسے آ ج کل کے زمانہ میں تربوز کا خریدار تربوز خریدتے وقت پکا اور کچا
دیکھنے کیلئے انگلیوں کی پشت سے تربوز پر چوٹ مارتا ہے۔
میری
اس حرکت سے پتلے میں ایک آواز پیدا ہوئی۔ بہت ہی عجیب و غریب آواز، غالباً یہ
آواز خالق کائنات کے حضور میں فریاد کے طور پر تھی۔ مگر میں نے اس کی کچھ پرواہ
نہ کی اور اپنی مخصوص طاقتوں کے ذریعہ پتلہ کے اندر داخل ہو گیا۔ تاکہ اس کا
اندرونی مطالعہ کر سکوں۔ باطن کی سیر کرتے ہوئے مجھے بے شمار باتیں معلوم ہوئیں۔
منجملہ ان کے اس پتلہ کی صاف باطنی سطحی نور، ہر قسم کی صلاحیت اور قابلیت میرے
لئے قابل تعجب تھی۔ میں نے اس اپنی طویل عمر میں جو کچھ دیکھا تھا، وہ سب اس مٹی
کے پتلے میں موجود تھا۔ چنانچہ میں رگ رگ کی سیر کرتا ہوا دل کے قریب پہنچا مگر وہ
کچھ اس طرح بند کیا گیا تھا کہ میں نہ اسے کھول سکا اور نہ اس کے اندر کے حالات
معلوم ہو سکے۔ خالق نے اسے سربمہر کر دیا تھا۔
میں
نے سمجھ لیا کہ یقیناً اس پر اسرار ڈبیہ میں کوئی خاص چیز بند کی گئی ہے جسے مجھ
سے پوشیدہ رکھنے کا انتظام کیا گیا ہے۔ چنانچہ میں پتلہ سے باہر آیا اور اپنے
ساتھیوں سے تمام ماجرا بیان کر دیا کہ اس پتلہ کے صدر مقام پر ایک خزانہ پوشیدہ
کیا گیا ہے۔ جس میں کوئی ایسا راز ہے جو ہمارے لئے باعث نقصان ہو گا۔ میں نے ہر
چند اسے دیکھنے کی کوشش کی لیکن کامیابی نہ ہو سکی۔ اس واسطے ہم سب کو اپنے بچائو
کی فکر کرنی چاہئے۔ فرشتوں نے میری بات سنی اور مسکرا کر خاموش ہو گئے۔
حضور قلندر بابا اولیاء
آج تک کسی جن یا فرشتہ نے اپنی سوانح
عمری شائع نہیں کی۔ کیوں نہیں کی۔ یہ ایک راز ہے اور رکھا گیا ہے۔ دنیا میں رہنے
والے کم سمجھ انسان اسے نہیں جانتے اور نہیں جان سکتے۔ خاک کی بنی ہوئی عقل کیا
خاک سمجھے گی کہ یہ نوری اور ناری دنیا آج تک اپنی اپنی سوانح حیات لکھنے سے کیوں
گریز کرتی ہیں۔ یہ موٹی عقل کے پتلے شاید یہ سمجھتے ہیں کہ جنوں اور فرشتوں کو لکھنا
پڑھنا نہیں آتا یا انہیں لکھنے پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے لیکن یاد رہے کہ ہم نے مٹی
کے پتلوں سے پہلے کھانا سیکھا ہے، پہلے بولنا سیکھا ہے۔ اگر کسی کو یہ غرور ہے کہ
دنیا کا بے بضاعت انسان کسی معمولی سے معمولی فرشتے کا بھی مقابلہ کر سکتا ہے تو
یہ انسان کی لکھو کھا حماقتوں میں سے ایک اہم حماقت اور نادانی ہے۔