Topics

خدا کا وائسرائے


          اس جنگ عظیم کے بعد دنیا سے گناہوں کا نام و نشان ہی جاتا رہا جس طرف نگاہ جاتی تھی۔ رکوع و سجود کا منظر سامنے آ جاتا تھا۔ مجھے اپنی عظیم الشان کامیابی سے بے حد مسرت ہوئی اور میں حسب دستور بچے کھچے افراد کے درس و تدریس میں مصروف ہو گیا۔ اب مجھے ان لوگوں کو تعلیم دینے میں کوئی دقت نہیں تھی اور ذاتی طور پر نہایت آسانی کے ساتھ پیغمبری کرنے لگا۔ بادشاہ حقیقی کو میری خدمات پسند آئیں اور اس نے مجھے اپنا وائسرائے بنا لیا۔ اور وائسرائے بنانے کے بعد تمام کائنات میرے ماتحت کر دی۔ روئے زمین کا چپہ چپہ میری حکومت میں آگیا اور ہفت افلاک کی باگ ڈور بھی میرے ہاتھ میں دے دی گئی۔ جنت اور دوزخ بھی میرے زیر اثر آ گئے۔

          اب میرے فرائض بہت کچھ بڑھ گئے تھے لیکن چونکہ دنیا سے گناہوں کا رواج تقریباً ختم ہو چکا تھا۔ اس واسطے مجھے بیشتر وقت حمد و ثنا کے لئے بھی مل جاتا تھا۔ میری عبادت کی جگہ بھی اس زمانہ میں مخصوص نہیں رہی تھی جس طرح ہندوستان کا وائسرائے موسم گرما میں شملہ، موسم سرما میں دہلی اور موسم خزاں میں ریاستوں وغیرہ کا دورہ کرتا تھا یا جہاں ضرورت سمجھتا تھا چلا جاتا تھا۔ بالکل یہی کیفیت میری تھی جب جی چاہتا زمین پر مصلیٰ بچھا کر عبادت الٰہی کرتا اور جب جی چاہتا آسمان پر پہنچ جاتا۔ نہ یہاں کوئی دقت اور نہ وہاں کوئی تکلیف۔ البتہ ’’موسم خزاں‘‘ کا اس زمانہ میں رواج نہیں تھا۔ اس واسطے کوئی نئی سر زمین اس موسم کے لئے بنی تھی۔

          میری شہنشاہی پورے عروج پر تھی۔ وائسرائے کی طرح مجھ پر مجبوریاں اور پابندیاں حکمران نہیں تھیں۔ میں باوجود شہنشاہ حقیقی کی نیابت کے بالکل آزاد تھا۔ آپ یقین کیجئے کہ باوجود اتنی عظمت و سطوت کے میں نے کسی کو نہیں ستایا۔ امن و امان کے دیوتا کو کبھی ناراض نہیں کیا۔ میں خدمت ملک و قوم کے لئے وائسرائے بنایا گیا تھا۔ میرا مقصد اور میری زندگی کا مشن صرف یہی تھا کہ میری خدمت سے عوام کا بھلا ہو۔ آج کل کے بادشاہوں کی طرح مجھ میں ملک گیری ، زرپرستی اور چاہ طنی کا مادہ نہیں تھا۔ آج کل کے بادشاہوں کی طرح غریب اور کمزور پر لالچی نگاہیں ڈالنے کا میں عادی نہ تھا اور نہ مجھ میں ذاتی وجاہت پر مغرور ہونے اور دوسرے کو حقیر سمجھنے کی صلاحیت تھی۔ میرے نزدیک سب برابر تھے کیونکہ میرے خیال میں حکومت اور بادشاہی اس لئے ہوتی تھی کہ قوم اور وطن کی خدمت کی جائے نہ اس لئے کہ طاقت کے گھمنڈ میں صاحب اپنی قوم کی پرورش کا خیال بھی صفحہ دل سے ہمیشہ کے لئے محو کر دے۔

          آج کل جس چیز کا نام انسانی دنیا نے بادشاہی رکھا ہوا ہے وہ اتنی مضحکہ خیز اور ذلیل چیز ہے کہ میں نے اپنی تمام عمر میں اتنا ناپاک عہدہ نہ اپنی قوم میں پایا اور نہ اب سے پہلے انسانی نسلوں میں دیکھا۔ خدا کی پناہ آج کل کا انسان ذاتی وجاہت اور عیش و آرام کے لئے حکومت کرتا ہے۔ اسے رعایا کی تکلیف آرام پر غور کرنے کا موقع ہی نہیں ملتا۔ بلکہ وہ یہ سوچ لیتا ہے کہ رعایا کی ضرورتوں پر غور کرنا میرا کام نہیں دوسرے ملازمین رعایا کو دیکھ بھال لیں گے۔

          کتنا افسوسناک اور خودغرضانہ خیال ہے۔ حکومت کا تخت اور حکومت کے مخصوص اختیارات تو اپنے ہاتھ میں مضبوط پکڑے اور یہ سمجھ کر بیٹھ رہے کہ رعایا کے حالات پر ماتحت افسران غور کر لیں گے۔ خزانہ کی چابیاں تو اپنی جیب میں رکھے اور سوچ لے کہ یہ خزانچی اپنا کام جاری رکھے گا۔ اپنے کان پھوڑ کر بیٹھ جائے اس انتظار میں کہ رعایا کی فریاد کوئی اور سن لے گا۔ یہ ہے انسانی دنیا کا بادشاہ اور پھر لطف یہ کہ ان جیسے حالات کے باوجود بھی حضرت انسان اپنے کو اشرف المخلوقات سمجھنے کی غلط فہمی میں مبتلا ہیں۔ اگر خود غرضی اور عیش پرستی اور وطن اور قوم سے لاپرواہی کا نام شرف ہے تو ایسے شرف کو دور سے سلام۔ یہ حضرت انسان ہی کو مبارک رہے۔

          

Topics


Shaitan Ki Sawaneh Umri

حضور قلندر بابا اولیاء

آج تک کسی جن یا فرشتہ نے اپنی سوانح عمری شائع نہیں کی۔ کیوں نہیں کی۔ یہ ایک راز ہے اور رکھا گیا ہے۔ دنیا میں رہنے والے کم سمجھ انسان اسے نہیں جانتے اور نہیں جان سکتے۔ خاک کی بنی ہوئی عقل کیا خاک سمجھے گی کہ یہ نوری اور ناری دنیا آج تک اپنی اپنی سوانح حیات لکھنے سے کیوں گریز کرتی ہیں۔ یہ موٹی عقل کے پتلے شاید یہ سمجھتے ہیں کہ جنوں اور فرشتوں کو لکھنا پڑھنا نہیں آتا یا انہیں لکھنے پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے لیکن یاد رہے کہ ہم نے مٹی کے پتلوں سے پہلے کھانا سیکھا ہے، پہلے بولنا سیکھا ہے۔ اگر کسی کو یہ غرور ہے کہ دنیا کا بے بضاعت انسان کسی معمولی سے معمولی فرشتے کا بھی مقابلہ کر سکتا ہے تو یہ انسان کی لکھو کھا حماقتوں میں سے ایک اہم حماقت اور نادانی ہے۔