Topics
جب
میں نے دیکھا کہ کسی صورت معافی ممکن نہیں ہے۔ اور اب سابقہ عظمت واپس نہیں مل
سکتی تو میں نے بارگاہ خداوندی میں پیغام بھیجا کہ:
پروردگار
عالم! میں نے تیری عبادت و ریاضت میں ہزار ہا سال گزارے ہیں۔ تو نے مجھے دنیا میں
سب سے زیادہ عظمت دی تھی اور میں نے تیری ہی تعلیم کے موافق اس کی قدر کی اور تیری
عبادتوں میں ذرہ برابر فرق نہ آنے دیا:
تو
نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ ہم عبادت اور نیکیوں کا اجر ضرور دیں گے۔ لہٰذا میں
چاہتا ہوں کہ میری آخرت کا فیصلہ آج ہی سنا دے اور اگر میں نے زندگی اچھی طرح
گزاری ہے یا تیری بنائی ہوئی شریعت پر تیری پسند کے مطابق کام کیا ہے تو اس کا اجر
مجھے دنیا ہی میں دے دے۔
بارگاہ
رحمت سے ارشاد ہوا۔ بول کیا چاہتا ہے؟
پہلی
خواہش
میں
نے عرض کی۔ میری پہلی خواہش تو یہ ہے کہ مجھے اس وقت تک کے لئے موت سے مہلت دے ۔جب
تک کہ تیری آخری دنیا کے افراد قبروں سے اٹھائے جائیں۔
حکم
ہوا:
فانک
من المنظر ین الٰی یو م الوقت المعلوم
یعنی
مجھے بتایا گیا کہ موت سے اس دن تک کے لئے مجھے مہلت دی گئی جس کی میں نے خواہش کی
تھی۔
دوسری خواہش
میں
نے یہ بتائی کہ دنیا کے ہر فرد کو گمراہ کرنے کی قدرت پائوں۔ ارشاد ہوا کہ یہ بھی
منظور ہے۔ تو ان سب کو گمراہ کر سکے گا جو تیرے فریب میں آنے کی خامی رکھتے ہوں
گے اور جن کے لئے میں نے جہنم کو منتظر رہنے کا حکم دیا ہے۔
تیسری خواہش
میری
اولاد بہت ہی زیادہ ہو۔ تا کہ میرا مشن کامیاب ہو سکے اور میں اپنا کام اطمینان سے
کرتا رہوں۔ یہ خواہش بھی منظو رہو گئی۔
چوتھی
خواہش
یہ
تھی کہ جس شکل میں اور جس حلیہ میں چاہوں اپنا وجود تبدیل کر لوں۔ حکم ہوا تو جس
شکل میں چاہے اپنی ذات کو تبدیل کر سکے گا لیکن میرے ایک محبوب بندہ کا روپ اختیار
نہیں کر سکتا۔ جسے میں آخر زمانہ میں پیدا کرنے والا ہوں۔
دنیا
جہاں کی شہنشاہیت دینے کے بعد صرف یہ چار خواہشیں پوری کرا لیں۔ لیکن میں جانتا
ہوں کہ اگر ان کو سیدھی طرح استعمال کروں تو پہلی زندگی سے بہتر زندگی گزار سکتا
ہوں۔ لیکن چونکہ آدم ؑ میری تباہی و بربادی اور ذلت و رسوائی کا باعث ہوا تھا۔ اس
واسطے انتقام کی آگ میرے سینہ میں بھڑک رہی تھی۔ جس کے باعث میرے دل و دماغ میرے
قابو میں نہیں تھے۔ ہر وقت یہ سوچتا رہتا تھا کہ آدم ؑ سے کس طرح بدلہ لوں وہ جنت
میں ہے اور میں جنت میں داخل نہیں ہو سکتا۔ البتہ اگر سامنے آ جائے تو ذرا سی دیر
میں بتا دوں کہ میرا نام اب عزازیل نہیں بلکہ ابلیس ہے۔
حضور قلندر بابا اولیاء
آج تک کسی جن یا فرشتہ نے اپنی سوانح
عمری شائع نہیں کی۔ کیوں نہیں کی۔ یہ ایک راز ہے اور رکھا گیا ہے۔ دنیا میں رہنے
والے کم سمجھ انسان اسے نہیں جانتے اور نہیں جان سکتے۔ خاک کی بنی ہوئی عقل کیا
خاک سمجھے گی کہ یہ نوری اور ناری دنیا آج تک اپنی اپنی سوانح حیات لکھنے سے کیوں
گریز کرتی ہیں۔ یہ موٹی عقل کے پتلے شاید یہ سمجھتے ہیں کہ جنوں اور فرشتوں کو لکھنا
پڑھنا نہیں آتا یا انہیں لکھنے پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے لیکن یاد رہے کہ ہم نے مٹی
کے پتلوں سے پہلے کھانا سیکھا ہے، پہلے بولنا سیکھا ہے۔ اگر کسی کو یہ غرور ہے کہ
دنیا کا بے بضاعت انسان کسی معمولی سے معمولی فرشتے کا بھی مقابلہ کر سکتا ہے تو
یہ انسان کی لکھو کھا حماقتوں میں سے ایک اہم حماقت اور نادانی ہے۔