Topics

بی بی حوا سے ملاقات


          جنت کے چپہ چپہ سے واقف تھا اور یہ بھی سن چکا تھا کہ آدم ؑ کی دلبستگی کے لئے خالق کائنات نے ایک عورت کو بھی تخلیق کیا ہے۔ اور اسے آدم ؑ کے ساتھ ہی رکھا گیا ہے۔ چنانچہ میں سیدھا حوا کے پاس پہنچا اور ان کے سامنے کھڑے ہو کر زار زار رونے لگا۔ اول تو وہ حیرت سے مجھے دیکھتی رہیں اور اس کے بعد پوچھا۔ اے شخص تو کون ہے اور کیوں روتا ہے۔ یہ سن کر میں چیخیں مار مار کر رونے لگا۔ اکثر ساکنان فردوس میرے چاروں طرف جمع ہو گئے۔ حوا کو اور بھی کچھ وحشت ہوئی۔ میرے قریب آ کر بولیں۔ اے اجنبی کچھ بتا تو کہ تیرے رونے کا باعث کیا ہے۔ میں نے آنسو پونچھتے ہوئے کہا۔ اے مورد الطاف ربانی۔ کیا کہوں کہ مجھے اس وقت کیوں رونا آ گیا۔ میں پروردگار کا ایک مقرب فرشتہ ہوں۔ اور مجھے تمام گزشتہ اور آئندہ حالات کی خبر رہتی ہے۔ آج اتفاق سے جنت کی سیر کو چلا آیا۔ یہاں سیر کرتا پھر رہا تھا کہ یکایک تم پر نظر پڑی اور میری آنکھوں کے سامنے وہی ہولناک سماں بندھ گیا۔ جو تم پر اور تمہارے شوہر آدم ؑ پر گزرنے والا ہے۔ اے حوا! یہ خیال آتے ہی میرا رواں رواں تھرا اٹھا اور میں ضبط نہ کر سکا۔ تم کیا جانو حوا کہ تم پر کیا وقت آنے والا ہے۔ کاش مجھے اس کی اجازت ہوتی اور میں تمہیں بتا سکتا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے مقدر میں کیا کیا لکھا ہے۔ حوا! اگر تمہیں کسی طرح یہ علم ہو جائے کہ تمہارا مستقبل کتنا تاریک ہے تو کوئی کیا جان سکتا ہے کہ تمہارا کیا حشر ہو۔ محض خبر سن کر تمہارا کلیجہ شق ہو جائے۔

          اے حوا! یہ زیادہ بہتر تھا کہ تم پیدا ہی نہ ہوتیں۔ تمہارے مقدر میں وہ ہولناک سزا درج کی گئی ہے جو خالق عالم نے آج تک کسی مخلوق کے لئے تجویز نہیں کی۔

          حوا یہ سن کر گھبرا گئیں اور انہوں نے کہا۔ اے اجنبی تو ہمارا سچا ہمدرد ہے۔ اور جب تو ہمارے مستقبل کی بات جانتا ہے تو کم از کم ان تدابیر سے ضرور واقف ہو گا کہ ہم کیوں کر اس عذاب سے نجات پا سکتے ہیں۔ کوئی ایسی ترکیب بتا کہ ہمارا خالق اپنا یہ ارادہ بدل دے۔ کیا ایسی کوئی صورت ہو سکتی ہے کہ ہم اس عذاب سے محفوظ رہ سکیں۔

          ’’ہاں ہو سکتی ہے۔‘‘ میں نے فلسفیانہ انداز میں جواب دیا۔ مگر ایک شرط پر، حوا نے نہایت اشتیاق کے لہجے میں کہا۔ وہ کیا۔ میں نے حاضرین پر ایک نگاہ غلط انداز ڈالتے ہوئے کہا۔ اے حوا! تم اب عبادت کو بڑھائو اور دن رات نہایت خلوص سے پروردگار کے حضور میں دعائے مغفرت مانگو۔ میں بھی واپسی پر تمہاری سفارش کروں گا۔ عجب نہیں کہ غفور الرحیم تمہاری دعا اور میری سفارش پر نظر کرم فرما دے اور تم عذاب سے بری کر دی جائو۔ حوا نے کہا۔ اے ہمدرد اگر میری عبادت اور ریاضت پر پروردگار عالم کے حضور میں کوئی سفارش مغفرت کر سکتی ہے تو میں آج ہی سے اپنے وقت کا ایک ایک لمحہ اس کی حمد و ثناء میں بسر کروں گی۔

          میں نے ادھر ادھر دیکھ کر کہا۔ اے حوا! بڑی مشکل یہ ہے کہ تم عبادت کے طریقوں سے پوری طرح واقف نہیں ہو۔ آئو میں تمہیں ایک دو باتیں حمد و ثنا کے متعلق سمجھا دوں تا کہ ان پر عمل کر کے پروردگار کو خوش کر سکو۔ یہ کہتا ہوا میں بی بی حوا کو ایک علیحدہ جگہ لے گیا۔ جہاں ہم دونوں کی باتیں سننے والا کوئی نہ تھا۔ یہاں پہنچ کر میں نے کہا کہ اب تک میں جو کچھ کہہ رہا تھا۔ وہ اس واسطے کہ ہمارے تمہارے چاروں طرف ساکنان فردوس جمع تھے۔ اس واسطے مجھے صرف عبادت ہی کا ذکر کرنا پڑا۔ ورنہ حقیقت یہ ہے کہ تمہارے عذاب سے بچنے کا صرف ایک ہی راستہ ہے۔

          بی بی حوا بولی۔ وہ کیا ۔ اے اجنبی! مجھے جلدی بتائو۔

          میں نے کہا۔ اگر تم اخفائے راز کا وعدہ کرو اور کسی کو یہ نہ بتائو کہ وہ ترکیب میں نے تمہیں سمجھائی تھی۔ تو میں تمہیں بتا سکتا ہوں ورنہ نہیں۔ حوا نے کہا۔ تم اطمینان رکھو کہ یہ راز کسی پر ظاہر نہ ہو۔ یہ جواب سن کر میں نے کہا۔ تم جانتی ہو کہ جنت میں کوئی ایسا درخت بھی ہے جس کے قریب جانے کی تم کو اور آدم کو ممانعت کی گئی ہے۔

          ’’ہاں ہے‘‘ حوا نے کہا ایک ایسا درخت ہے۔  جس کے لئے پروردگار کی طرف سے حکم امتناعی صادر ہو چکا ہے۔ لاتقرب ہذا الشجرۃ۔

          میں نے مسکرا کر پوچھا۔ جانتی ہو۔ کیوں ممانعت ہے؟

          نہیں یہ تو میں نہیں جانتی۔

          یہی تمہاری بھول ہے۔ حوا۔ تمہارے شوہر کو یہ سوال کرنا چاہئے تھا کہ اس پیڑ میں آخر کیا ایسا کیا راز ہے کہ جنت کا کونہ کونہ تو مباح قرار دیا جائے اور ایک حقیر پیڑ کے لئے ایسی سخت پابندیاں لگا دی جائیں کہ ہاتھ لگانا اور کھانا تو کجا اس کے قریب ہو کر گزرنا بھی ممنوع ہو جائے۔

          ہاں ہے تو تعجب کی بات، اے ہمدرد۔ مگر ہم نے آج تک اس بات پر غور ہی نہیں کیا تھا۔

          میں نے وقت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پوچھا۔ جانتی ہو کہ اس پیڑ کے قریب نہ جانے دینا کیا معنی رکھتا ہے۔

          نہیں میں نہیں جانتی۔

          ہاں جان بھی کیسے سکتی ہو۔ حوا۔ یہی تو تمہارا مستقبل پکار رہا ہے کہ تم اس پیڑ کو نہیں جان سکتیں۔

          حوا نے حیران لہجے میں پوچھا۔ کیا یہی پیڑ ہماری تباہی کا باعث ہے۔

          میں نے کہا۔ ہاں اس پیڑ میں دونوں باتیں ہیں۔ برباد بھی کر سکتا ہے اور آباد بھی کر سکتا ہے۔

          وہ کیسے؟

          وہ کیسے۔ یہ پوچھتی ہو۔ مگر ہاں میں ضرور بتائوں گا۔ حوا۔ تم بہت بھولی مخلوق ہو تمہیں بتانا ہی پڑے گا۔ تمہیں تباہی اور بربادی سے بچانا ہم سب کا فرض ہونا چاہئے۔ یہ اہلیان فردوس کتنے خود غرض ہیں۔ حوا۔ تم نے دیکھا۔ کہ یہ لوگ تمہیں کتنا بے خبر رکھنا چاہتے ہیں۔ آج تک تمہیں اس پیڑ کا حال نہیں بتایا۔

          حوا نے کہا۔ کیا یہ لوگ بھی اس پیڑ کے بارے میں جانتے ہیں۔

          ہاں جانتے کیوں نہیں۔ حوا یہ سب کچھ جانتے ہیں۔ لیکن تم ان کو نہیں جانتیں۔ یہ تمہاری بربادی کے منتظر ہیں۔ خلد میں تمہارا قیام یہ گوارا نہیں کرتے۔ انہوں نے بارہا تمہاری شکایتیں پروردگار کے پاس بھیجی ہیں۔ مگر حوا تم جانتی ہو۔ کہ جب مجھ جیسا فرشتہ بارگاہ خداوندی میں موجود ہو تو ان کی شکایتیں کیسے بااثر اور نتیجہ خیز ہو سکتی ہیں۔ میں نے بالا بالا ہی ان معاملات کو رفع دفع کر دیا ہے۔ ورنہ کون کہہ سکتا ہے کہ تم ایسے اطمینان کے ساتھ جنت میں رہ سکتیں۔

          تو کیا یہ سب لوگ ہمارے دشمن ہیں؟

          میں نے تجربہ کار انداز سے گردن کو ہلاتے ہوئے کہا۔ دشمن! یہ تو ایسے خوفناک دشمن ہیں کہ خدا محفوظ رکھے۔ ان کا کاٹا ہوا تو پانی نہیں مانگتا۔ ایسا مل کر مارتے ہیں کہ بس بلبلاتے ہی بن پڑتی ہے۔

          پھر تو مجھے کوئی ترکیب بتائو۔ میں تمہارا احسان ہمیشہ یاد رکھوں گی۔

          ’ترکیب‘ میں نے یہ لفظ دہراتے ہوئے کہا کہ ترکیب تو ایسی بتا سکتا ہوں کہ تم ہمیشہ کے لئے عذاب سے محفوظ ہو جائو اور میں یہ بھی جانتا ہوں کہ اس احسان کو ہمیشہ یاد رکھو گی۔ اور مجھے دعائے خیر سے یاد کیا کرو گی۔ مگر حوا۔ سچ بات یہ ہے کہ مجھے راز فاش ہونے کا ڈر ہے۔ اگر کہیں کسی کو خبر ہو گئی کہ میں نے تمہیں عذاب سے بچنے کا ذریعہ بتا دیا ہے۔ تو تمہارا کچھ نہ بگڑے گا۔ تم عذاب سے ہمیشہ کے لئے محفوظ ہو جائو گی۔ البتہ میرا کہیں ٹھکانہ نہ رہے گا۔

          یہ سن کر حوا نے مجھے کامل اطمینان دلایا اور کہا۔ ہم وعدہ کرتے ہیں کہ اس بات کی خبر کسی کو نہ ہو گی۔

          تب میں نے آہستہ سے ان کے کان میں کہا کہ یہ درخت تمہارے عذاب و ثواب ہی کے لئے بنایا گیا ہے۔ اگر کسی وقت خدا کو یہ ضرورت محسوس ہوئی کہ وہ تم پر سے عذاب ہٹا دے یا معاف کر دے۔ تو وہ تمہیں حکم دے گا کہ اس پیڑ کے دو چار پھل کھا لو۔ بس ان پھلوں کا کھانا تمہارے لئے امرت بن جائے گا اور سارا عذاب ملتوی کر دیا جائے گا۔ یہی سبب ہے کہ پروردگار نے تمام ضروریات پر غور کرتے ہوئے یہ درخت بھی پیدا کیا ہے۔ تا کہ اگر ضرورت پڑے تو وقت پر کام آ سکے۔

                                        غیر ضروری نوٹ:

ناظرین یہاں یہ بھی نوٹ کر لیں کہ موجودہ زمانہ میں دستاویزات کے اختتام پر ایک فقرہ لکھا جاتا ہے کہ یہ ’’دستاویز لکھ دی تا کہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آوے‘‘ یہ اسی تقلید کا نتیجہ ہے دراصل موجودہ صدی کے لوگ دستاویز میں جب یہ فقرہ لکھتے ہیں یا لکھواتے ہیں تو انہیں وہی حال یاد آ جاتا ہو گا کہ پروردگار نے بھی ایک درخت لگایا تھا۔ تا کہ موجود رہے اور بوقت ضرورت کام آئے۔

          تو حوا! میرے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اس درخت کے پھل کھانے نہ کھانے پر تم دونوں کے مستقبل کا انحصار ہے۔ اور پروردگار نے چونکہ تمہارے لئے ایک فیصلہ کر رکھا ہے۔ اسی واسطے اس درخت کے قریب جانے کی ممانعت کر دی ہے۔ اگر تم نے یہ پھل کھا لیا تو پھر وہ فیصلہ جو تمہارے لئے ہو چکا ہے قابل عمل نہ سمجھا جائے گا۔ اور تم عذاب سے بری ہو جائو گی۔

          حوا نے کہا۔ ’’کیوں ہمارے اجنبی ہمدرد۔ اگر وہ پھل ہم دونوں کھالیں تو پھر عذاب سے محفوظ ہو جائیں گے نا؟‘‘

          میں نے جواب دیا۔ ہاں۔ پھر تم دونوں پر عذاب نہیں آئے گا لیکن دیکھو پھر سمجھائے دیتا ہوں کہ آج اور آج کے بعد اس سلسلہ میں کبھی میرا نام نہ آنے پائے۔

          یہاں قبل اس کے کہ میں بعد کے حالات لکھوں۔ ناظرین کو ایک خاص بات یاد دلا دوں کہ وہ گیہوں کا معاملہ جو جنت میں ہوا اور جس کے باعث آج موجودہ دنیا نظر آ رہی ہے۔ زیادہ تر عورت کے ذمہ ہی رہا۔ یعنی سننے والے زیادہ یہی کہتے ہیں کہ آدم عورت کے باعث جنت سے نکالے گئے۔ نہ عورت انہیں ورغلاتی، نہ وہ پھل کھاتے اور نہ جنت سے نکلتے۔ میں ممنون ہوں۔ اماں حوا کا جنہوں نے زندگی بھر اپنا وعدہ یاد رکھا۔ اور سوائے اپنے شوہر کے کبھی کسی سے نہیں کہا کہ نیاز مند نے انہیں پھل کھانے کا مشورہ دیا تھا۔ حالانکہ پھل کھانے کے بعد بیچاری طرح طرح کی تکالیف میں پھنس گئیں۔ اور ہزاروں مصیبتیں سہیں اور ان کی اولاد آج تک وہ خمیازہ بھگت رہی ہے۔ مگر واہ رے وعدہ وفائی کہ اس بیچاری نے مرتے دم تک میرا نام نہیں لیا۔ ہمیشہ اپنی غلطی پر نادم ہوتی رہیں۔

          اگر آج حوا زندہ ہوتیں تو میں ان کے قدموں میں سر رکھ دیتا اور کہتا کہ گو میں تمہارے خاوند کی بدولت راندۂ درگاہ ہوا ہوں لیکن تم نے میرے ساتھ وہ سلوک کیا ہے کہ قیامت تک میری گردن تمہارے احسان سے نہیں اٹھ سکتی۔

          آج حوا زندہ نہیں ہیں لیکن ان کا احسان زندہ ہے اور میں اس کے عوض یہ عہد کر چکا ہوں کہ ان کی بیٹیوں پر زیادہ اثر انداز نہ ہوں۔ اور یہی وجہ ہے کہ دنیا والے عورت کو مرد کے مقابلہ میں زیادہ مذہب پرست بتاتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ جب میں پوری قوت عورت ذات پر صرف نہیں کرتا۔ تو وہ مرد کے مقابلہ میں اپنے آپ ہی مذہب پرست نظر آئے گی۔

          ہاں! تو میں عرض کر رہا تھا کہ حوا کو پھل کھانے کا نیک مشورہ دے کر اور اخفائے راز کا مسئلہ طے کر کے میں جنت سے واپس چلا آیا اور اس کے بعد کچھ ایسے اتفاقات پیش آئے کہ آج تک وہاں جانا نہیں ہو سکا۔ لیکن بعض معتبر ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ میرا جنت کا آخری سفر کامیاب رہا۔

 

 

 

Topics


Shaitan Ki Sawaneh Umri

حضور قلندر بابا اولیاء

آج تک کسی جن یا فرشتہ نے اپنی سوانح عمری شائع نہیں کی۔ کیوں نہیں کی۔ یہ ایک راز ہے اور رکھا گیا ہے۔ دنیا میں رہنے والے کم سمجھ انسان اسے نہیں جانتے اور نہیں جان سکتے۔ خاک کی بنی ہوئی عقل کیا خاک سمجھے گی کہ یہ نوری اور ناری دنیا آج تک اپنی اپنی سوانح حیات لکھنے سے کیوں گریز کرتی ہیں۔ یہ موٹی عقل کے پتلے شاید یہ سمجھتے ہیں کہ جنوں اور فرشتوں کو لکھنا پڑھنا نہیں آتا یا انہیں لکھنے پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے لیکن یاد رہے کہ ہم نے مٹی کے پتلوں سے پہلے کھانا سیکھا ہے، پہلے بولنا سیکھا ہے۔ اگر کسی کو یہ غرور ہے کہ دنیا کا بے بضاعت انسان کسی معمولی سے معمولی فرشتے کا بھی مقابلہ کر سکتا ہے تو یہ انسان کی لکھو کھا حماقتوں میں سے ایک اہم حماقت اور نادانی ہے۔