Topics

طوفانِ نوح


          سب سے پہلے تو میں اس غلط فہمی کو دور کرتا ہوں جو بعض لوگوں کو طوفان نوح کے سلسلہ میں میرے متعلق پیدا ہو گئی۔ اس کا مجھے اعتراف ہے کہ حضرت نوح ؑ کے زمانہ میں میرا مشن ضرورت سے زیادہ کامیاب ہو گیا تھا اور حضرت نوح ؑ کی شریعت پر میرے قوائد غالب آ گئے تھے۔ اور اس کا بھی مجھے اعتراف ہے کہ طوفان آیا ہی اس لئے کہ میرا مشن بہت ترقی کر گیا تھا اور لوگ خدا کے مذہب کو چھوڑ کر میرے مشن کی طرف زیادہ رجوع ہو گئے تھے۔ اس سلسلہ میں بعض لوگوں کا یہ خیال ہے کہ جب سوائے کشتی نوح کے سب کچھ غرق کر دیا گیا تو شیطان کیسے بچ گیا تھا۔ وہ بھی اس کے ساتھ فنا ہو جانا چاہئے تھا لیکن اعتراض کرنے والوں کو یہ خیال نہیں رہا کہ وعداللہ حقا اللہ کا وعدہ سچ ہوتا ہے۔ اس نے مجھ سے وعدہ کیا ہے کہ یوم الوقت المعلوم تک مجھے فنا نہ کیا جائے گا۔ اس واسطے کوئی نہ کوئی سبیل میرے بچانے کی ضرور کی ہو گی۔ رہا یہ اعتراض کہ کشتی نوح کے علاوہ سب کچھ غارت کر دیا گیا تھا اور کشتی میں جو کچھ محفوظ رکھا گیا وہ اللہ اور ان کے پیغمبر حضرت نوح ؑ نے کشتی میں سوار کر لیا۔

          میں مانتا ہوں کہ کوئی پیغمبر مجھے زندہ رکھنے پر آمادہ نہیں ہو سکتا۔ لیکن ایک خاص واقعہ جو میرے محفوظ رہنے کا باعث ہوا۔ اسے سننے کے بعد امید ہے کہ معترضین اپنا اعتراض اعتراف میں تبدیل کر لیں گے۔

          بات یہ تھی کہ جب طوفان آیا اور ہر طرف پانی ہی پانی ہو گیا تو حضرت نوح ؑ نے بحکم خداوندی ایک کشتی تیار کی اور اس پر خدا کی بنائی ہوئی تمام چیزیں رکھ لیں اور حضرت نوح ؑ کو اپنا دراز گوش(گدھا) بہت عزیز تھا وہ اسے ہر وقت اپنے ساتھ رکھتے تھے۔ میں جانتا تھا کہ نوح ؑ اس دراز گوش کو غرقاب نہ ہونے دیں گے اور کسی نہ کسی طرح ضرور اسے بھی کشتی میں سوار کر لیں گے۔ اس واسطے میں نے بھی اپنے لئے ایک خاص ترکیب ڈھونڈ نکالی۔ کیونکہ بڑی مشکل یہ تھی کہ اس کشتی میں حضرت نوح ؑ کی اجازت کے بغیر کوئی سوار نہ ہو سکتا تھا۔ یا جسے وہ حکم دیتے تھے وہ سوار ہو جاتا تھا۔ اس کے علاوہ ظاہر ہے کہ مجھے وہ کیسے اجازت دے دیتے۔ اس واسطے جب آخر میں ان کا دراز گوش کشتی پر چڑھنے لگا۔ تو میں نے چپکے سے جا کر اس کی پچھلی ٹانگیں پکڑ لیں۔ وہ بے چارہ اگلی دونوں ٹانگیں کشتی پر رکھ چکا تھا۔ اب دیکھنے والے صرف یہ دیکھ رہے تھے کہ دراز گوش بار بار کشتی پر چڑھنے کی کوشش کر رہا ہے۔ لیکن اس کی پچھلی ٹانگیں نہیں اٹھتیں۔ حضرت نوح ؑ نے اول تو اسے بہت للکارا۔ بہت ناراض ہوئے۔ بار بار اسے کہتے تھے کہ ’’چڑھ کیوں نہیں آتا۔‘‘ مگر بیچارہ دراض گوش کیا جواب دے سکتا تھا۔ یہاں تک کہ حضرت نوح ؑ کو غصہ آ گیا اور انہوںنے جنجھلا کر کہا ’’ادخل دان کان معک الشیطان‘‘ جس کا مطلب تھا کہ اگر تیرے ساتھ شیطان بھی ہو تو پرواہ نہ کر کشتی میں بیٹھ جا۔ یہ فقرہ سنتے ہی دراز گوش نے ایک جست کی اور کشتی میں سوار ہو گیا۔ کیونکہ اب کی مرتبہ میں نے اسے ڈھیلا چھوڑ دیا تھا۔ ڈھیلا چھوڑنے کی وجہ یہ تھی کہ حضرت نوح ؑ نے نادانستہ طور پر مجھے کشتی میں سوار ہونے کی اجازت دے دی تھی چنانچہ نامعلوم طور پر میں کشتی میں ایک طرف بیٹھ گیا۔ جب کشتی کے روانہ ہونے کا وقت آیا اور نوح ؑ نے اپنی کشتی کا جائزہ لیا تو نیاز مند بھی ایک گوشہ میں بیٹھا ہوا تھا۔ مجھے دیکھتے ہی حضرت نوح ؑ کو غصہ آ گیا۔ فرمانے لگے۔ تو یہاں کیوں آیا۔ جب اس کشتی میں میری اجازت کے بغیر کوئی سوار ہی نہیں ہو سکتا۔ میں نے نہایت لاپرواہی کا چہرہ بنا کر عرض کی۔ جناب والا۔ آپ پیغمبر ہیں جھوٹ بولنے کی کوشش نہ کیجئے ۔ یہ نیاز مند آپ کی اجازت سے حاضر ہوا ہے اور انشاء اللہ مرتے دم تک آپ کے ساتھ رہے گا۔

          حضرت نوح ؑ کو اور بھی غصہ آیا۔ فرمانے لگے۔ میں نے تجھے کب اجازی دی؟

          میں نے سنجیدہ لہجہ میں کہا۔ ’’ادخل و ان کان معک الشیطان۔‘‘ کیوں یاد آ گئے آپ کو بھی؟ اب فرمائیے۔ میں آپ کی اجازت سے آیا ہوں یا نہیں۔ اجی حضرت یہ نیاز مند تو آپ جیسے بزرگوں کا ضرورت سے زیادہ احترام کرتا ہے۔ اگر آپ اجازت نہ دیتے تو میری کیا مجال تھی کہ آپ کی کشتی میں سوار ہو جاتا۔ آپ نے اپنے دراز گوش سے کہا تھا کہ کشتی میں داخل ہو جا۔ خواہ تیرے ساتھ شیطان ہی کیوں نہ ہو۔ میں مانتا ہوں کہ آپ نے یہ فقرہ غصہ میں ادا کیا تھا لیکن جناب مجھے یہ بتا دیجئے کہ جو حکم غصہ میں دیا جائے کیا وہ حکم قابل عمل نہیں ہوتا۔ اگر ہوتا ہے تو سمجھ لیجئے کہ میں نے یا آپ کے دراز گوش نے کوئی گناہ نہیں کیا۔ میں اس کے پچھلے پیر پکڑے ہوئے تھا۔ جب آپ کا یہ حکم سنا تو اس کے ساتھ میں بھی کشتی میں سوار ہو گیا۔

          حضرت نوح ؑ کو میری تقریر سے غصہ آ گیا۔ فرمانے لگے۔ نکل یہاں سے مردود! میں نے ذرا مسکرا کر کہا۔ جناب اب یہ کام آپ کے بس کا نہیں ہے۔ اب تو آپ یہیں بیٹھا رہنے دیجئے۔ مگر حضرت نوح ؑ نہ مانے اور مجھے زبردستی کشتی سے اتارنے لگے کہ فوراً ہی وحی نازل ہوئی۔

          ’’اے نوح! اس کو کشتی سے نہ نکالو۔ کیونکہ اس معاملہ میں ہماری بہت سی حکمتیں پوشیدہ ہیں جن کو تم نہیں جانتے۔‘‘

          یہ سن کر حضرت نوح ؑ دم بخود رہ گئے اور کشتی ہم سب کو لئے ہوئے پانی پر تیرنے لگی۔ اس طرح بہت دن بیت گئے۔

Topics


Shaitan Ki Sawaneh Umri

حضور قلندر بابا اولیاء

آج تک کسی جن یا فرشتہ نے اپنی سوانح عمری شائع نہیں کی۔ کیوں نہیں کی۔ یہ ایک راز ہے اور رکھا گیا ہے۔ دنیا میں رہنے والے کم سمجھ انسان اسے نہیں جانتے اور نہیں جان سکتے۔ خاک کی بنی ہوئی عقل کیا خاک سمجھے گی کہ یہ نوری اور ناری دنیا آج تک اپنی اپنی سوانح حیات لکھنے سے کیوں گریز کرتی ہیں۔ یہ موٹی عقل کے پتلے شاید یہ سمجھتے ہیں کہ جنوں اور فرشتوں کو لکھنا پڑھنا نہیں آتا یا انہیں لکھنے پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے لیکن یاد رہے کہ ہم نے مٹی کے پتلوں سے پہلے کھانا سیکھا ہے، پہلے بولنا سیکھا ہے۔ اگر کسی کو یہ غرور ہے کہ دنیا کا بے بضاعت انسان کسی معمولی سے معمولی فرشتے کا بھی مقابلہ کر سکتا ہے تو یہ انسان کی لکھو کھا حماقتوں میں سے ایک اہم حماقت اور نادانی ہے۔