Topics
مذہب
آتش پرستی کی کامیاب ایجاد کے بعد مختلف اسکیموں پر عمل کرتا رہا۔ کئی معرکہ کی
کامیابیاں میسر آئیں۔ جن میں سب سے زیادہ مفید اور خاص کامیابی مجھے وہ ہوئی جو
ادریس علیہ السلام کے زمانہ پیغمبری کے بعد میسر آئی اور جس کی یادگار آج تک
قائم ہے۔
حضرت
ادریس کے آسمان پر جانے اور وہاں سکونت اختیار کرنے سے پہلے دنیا میں ان کا ایک
بہت ہی گہرا دوست تھا جسے ادریس علیہ السلام سے بے حد محبت تھی اور اسی محبت کے
ساتھ عقیدت کا جذبہ بھی حد کمال کو پہنچ چکا تھا اس کا خیال تھا ادریس کے پردہ میں
خدا بول رہا ہے اگر ایک آدھ گھنٹہ کے لئے بھی ادریس بھی کہیں ادھر ادھر ہو جاتے
تھے تو وہ فراق کی شدت سے بے تاب ہو جاتا تھا۔ باوجود حضرت ادریس کی نصیحتوں کے وہ
ہمیشہ یہی کہتا تھا کہ میرے لئے تو سب کچھ ادریس ہیں اس جنون کی مثال اکثر آج کل
بھی مل جاتی ہے اور بعض گمراہ مسلمان آج بھی یہ شعر پڑھتے نظر آتے ہیں:
اللہ کے پلہ میں وحدت کے سوا کیا ہے
جو کچھ مجھے لینا ہے لے لونگا محمد سے
یہی
کیفیت اس شخص کی تھی اور حضرت ادریس ؑ کی محبت میں خدا کو بھولے جا رہا تھا۔ اسی
اثناء میں حضرت ادریس ؑ مستقل سکونت کے لئے یکایک آسمان پر جانا پڑا۔ تو وہ
بیچارہ بے تاب ہو گیا اور اس کے چلے جانے
کے بعد دن رات آہ و زاری کے سوا اس کا کوئی کام نہ تھا۔
میں
نے اس موقع کو غنیمت جانا اور ایک سنجیدہ آدمی کی صورت بن کر اس شخص کے پاس
پہنچا۔ اول تو اس سے سارا ماجرا سنا اور اس کے نہایت مدبرانہ انداز میں اس سے کہا۔
یہ بھی کوئی مشکل کام ہے جس کے لئے روتے ہو اگر تمہیں اپنے درد کا علاج ہی کرنا ہے
تو میں بتا دونگا اس شخص نے بڑی خوشامد کے ساتھ مجھ سے وہ ترکیب پوچھی۔
میں
نے کہا۔ پہلے یہ بتائو کہ تم ادریس ؑ کی زیارت ہی کرنا چاہتے ہو یا یہ بھی ضروری
ہے کہ وہ پچکار پچکار کر تمہارے سر پر ہاتھ بھی پھیریں۔ اس نے کہا کہ میں صرف یہ
چاہتا ہوں کہ ہر وقت انہیں دیکھتا رہوں چاہے وہ مجھ سے بات نہ کریں۔ مجھے اس کی
پرواہ نہیں۔ البتہ ان کی نورانی صورت ہر وقت میری آنکھوں کے سامنے رہے۔ بس یہی
میرے لئے سب کچھ ہے اس سے زیادہ کچھ نہیں چاہتا۔ یہ سن کر میں نے کہا۔ اس کی تو
ایک ترکیب ہو سکتی ہے۔
وہ
کیا۔ اس شخص نے نہایت حیرت سے دریافت کیا۔
میں
نے کہا اگر تم اجازت دو تو میں ادریس ؑ کی شکل سے بالکل مشابہ ایک شبیہ بنائے دیتا
ہوں جس میں سرمو فرق نہ ہو گا۔ بالکل یہ معلوم ہو گا جیسے ادریس ؑ بیٹھے ہیں۔ اس
شبیہ کو ہر وقت اپنے سامنے رکھنا۔ تمہارے قلب کو سکون رہے گا۔ بلکہ اگر تمہارا
عقیدہ کامل ہو گا تو اس شبیہ میں دوبارہ حضرت ادریس ؑ آ جائیں گے اور تم سے ہر
وقت باتیں کیا کریں گے۔
فراق
کا مارا ہوا دوست اپنے محبوب کی زیارت کے شوق میں ہر قربانی کے لئے تیار ہو گیا۔
اس نے کہا۔ اے اجنبی! میں تمہارا بہت ممنون ہونگا اگر تم میرا یہ کام کر دو گے۔
اندھے
کو کیا چاہئے دو آنکھیں۔ میں نے نہایت ہوشیاری کے ساتھ پتھر کی ایک ایسی شبیہ
تیار کر دی۔ جس پر پوری طرح حضرت ادریس ؑ کا دھوکا ہوتا تھا۔ جس وقت وہ شبیہ
جسمان( حضرت ادریس ؑ کے دوست) نے دیکھی تو
پھڑک اٹھا اور بے تابانہ کھڑے ہو کر اسے چومنے لگا۔ کبھی آنکھوں سے لگایا، کبھی
اپنی پیشانی اس کے پیروں پر رکھ دی۔ بڑی دیر تک اس کا جوش محبت کام کرتا رہا۔ ادھر
میری تدبیر اپنا کام کر رہی تھی۔ ادھر بت پرستی کی ابتدا اپنی حسین پیدائش پر الگ
کھڑی مسکرا رہی تھی۔ یکایک دونوں قریب ہو گئیں۔ اس کے بعد ایک دوسرے سے بغل گیر ہوئیں
اور دیکھتے دیکھتے بت پرستی کی ابتدا کرنے والے سب سے پہلے بت پرست کے وجود میں
اندھی عقیدت کا جوش بن کر سما گئیں یہ میرا وہ شاندار کارنامہ تھا جو بت پرستی کی
صورت میں آج تک موجود ہے۔
حضور قلندر بابا اولیاء
آج تک کسی جن یا فرشتہ نے اپنی سوانح
عمری شائع نہیں کی۔ کیوں نہیں کی۔ یہ ایک راز ہے اور رکھا گیا ہے۔ دنیا میں رہنے
والے کم سمجھ انسان اسے نہیں جانتے اور نہیں جان سکتے۔ خاک کی بنی ہوئی عقل کیا
خاک سمجھے گی کہ یہ نوری اور ناری دنیا آج تک اپنی اپنی سوانح حیات لکھنے سے کیوں
گریز کرتی ہیں۔ یہ موٹی عقل کے پتلے شاید یہ سمجھتے ہیں کہ جنوں اور فرشتوں کو لکھنا
پڑھنا نہیں آتا یا انہیں لکھنے پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے لیکن یاد رہے کہ ہم نے مٹی
کے پتلوں سے پہلے کھانا سیکھا ہے، پہلے بولنا سیکھا ہے۔ اگر کسی کو یہ غرور ہے کہ
دنیا کا بے بضاعت انسان کسی معمولی سے معمولی فرشتے کا بھی مقابلہ کر سکتا ہے تو
یہ انسان کی لکھو کھا حماقتوں میں سے ایک اہم حماقت اور نادانی ہے۔