Topics
سب
سے پہلے میں نے دیکھا کہ جناب آدم ؑ بصدر رنج و یاس جنت الفردوس سے برآمد ہوئے۔
ان کے چہرے پر کھیلتے ہوئے جذبات سے اندازہ ہوتا تھا کہ وہ دل ہی دل میں یہ مصرعہ
پڑھ رہے ہیں
خوش
رہو اہل وطن ہم تو سفر کرتے ہیں
ایک
دفعہ پیچھے مڑ کر انہوں نے جنت پر نگاہ ڈالی تو خدا جانے کس غصب کی نگاہ تھی کہ در
و دیوار لرزنے لگے۔ میں بھی اس زلزلہ سے گھبرا گیا۔ مگر بعد میں مجھے یاد آیا کہ
حسرت بھری نظر تو پہاڑوں کو لرزہ براندام کر سکتی ہے۔
جی
چاہا کہ آگے بڑھ کر آدم ؑ سے علیک سلیک کروں اور پوچھوں۔ کہیئے حضرت کہاں تشریف
لے چلے۔ یہ آج اداسی کیسی ہے۔ کیا کچھ کھو گیا ہے؟ مگر میں نے سوچا عقلمند دشمن
وہ ہے جو خود کو ظاہر نہ کرے اور کامیاب ہو جائے تا کہ دوبارہ بھی بغیر مزاحمت کے
انتقام کا موقع مل سکے۔
آدم
کے پیچھے پیچھے میرا شکار جارہا تھا۔ جیسے شکاری کا بھرپور وار کھائے ہوئے ہو۔ یہ
میرا آلہ کار حوا صاحبہ تھیں۔ جنہوں نے میرے مخلصانہ مشورہ پر عمل کر کے عذاب سے
بچنے والی ترکیب کی تھی۔ بیچاری نہایت خاموش اور اداس جا رہی تھی۔ پشیمانی کے
آنسو قدم قدم پر گر رہے تھے اور ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے جی ہی جی میں چراکارے
کند عاقل کہ بازآید پشیمانی کا سبق پڑھتی جا رہی ہیں۔
ان
کے پیچھے میرا معزز دوست طائوس تھا اس کی کیفیت ایسی تھی جیسے آج کل کوئی شخص کسی
عدالت میں جھوٹی گواہی دے رہا ہو اور مجسٹریٹ پر اس کے جھوٹ کا راز معہ ثبوت کے
کھل جائے اور اس غریب گواہ کے گلے میں دفعہ ۱۹۳ کا پھندہ پڑ جائے اور
بیچارہ جیل کی طرف یہ کہتا ہوا چل دے کہ ہم آئے تھے اس لئے کہ نماز بخشوائیں گے
وہاں روزے اور گلے پڑ گئے۔
طائوس
کے بعد مسٹر حیہ تھے جن کا منہ میں نے بطور رتھ کے استعمال کیا تھا۔ بیچارے نیچی
گردن کئے ہوئے خراماں خراماں عدالت کی طرف جا رہے تھے۔ ایک ایسے مجرم کی طرح جس کی
مقدمہ کی تاریخ آخری ہو اور اسے سزا کا حکم سننے کا پورا یقین ہو۔ ایسا معلوم
ہوتا تھا۔ بیچارے اپنی روانگی سے پہلے ضرور کوئی وصیت نامہ لکھ کر آئے ہیں۔
ان
حضرات کے پیچھے پیچھے انجیر اور عود کے درخت تھے۔ ایسے چہرے بنائے ہوئے گویا
ناکردہ گناہ ہیں۔ اور غلط فہمی کے باعث پولیس نے انہیں گرفتار کر لیا ہے۔ راستہ
میں ہر شخص پر اپنی نگاہوں سے معصومی کا اظہار کرتے ہوئے چل رہے تھے۔
حضور قلندر بابا اولیاء
آج تک کسی جن یا فرشتہ نے اپنی سوانح
عمری شائع نہیں کی۔ کیوں نہیں کی۔ یہ ایک راز ہے اور رکھا گیا ہے۔ دنیا میں رہنے
والے کم سمجھ انسان اسے نہیں جانتے اور نہیں جان سکتے۔ خاک کی بنی ہوئی عقل کیا
خاک سمجھے گی کہ یہ نوری اور ناری دنیا آج تک اپنی اپنی سوانح حیات لکھنے سے کیوں
گریز کرتی ہیں۔ یہ موٹی عقل کے پتلے شاید یہ سمجھتے ہیں کہ جنوں اور فرشتوں کو لکھنا
پڑھنا نہیں آتا یا انہیں لکھنے پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے لیکن یاد رہے کہ ہم نے مٹی
کے پتلوں سے پہلے کھانا سیکھا ہے، پہلے بولنا سیکھا ہے۔ اگر کسی کو یہ غرور ہے کہ
دنیا کا بے بضاعت انسان کسی معمولی سے معمولی فرشتے کا بھی مقابلہ کر سکتا ہے تو
یہ انسان کی لکھو کھا حماقتوں میں سے ایک اہم حماقت اور نادانی ہے۔