Topics
حیّہ
بیچارہ بھی بے سر و سامان ہی خلد سے نکال دیا گیا تھا البتہ اس کے منہ میں بجائے
انوار کے زہر ہلاہل جو بھر دیا گیا تھا وہ اس کے کام آگیا اور صرف یہی ایک ذریعہ
انتقام لینے کا اس کے پاس تھا۔ اب اس زہر سے وہ جو کام لے سکتا تھا، لیتا ہے لیکن
جہاں یہ زہر بھی ناکارہ ہو ثابت ہوجائے گا اس جگہ سانپ بے چارہ اپنی بے بسی پر بل
کھاتا نظر آتا ہے۔
بہشت
سے نکالی ہوئی دوسری مخلوق کی طرح حیّہ اور اس کی اولاد بھی آدم ؑ اور آدم زاد
کی زبان سمجھتی ہے۔ چنانچہ آج کل بھی عام طور پر لوگوں کو کہتے سنا ہے کہ سانپ
انسان کی گفتگو سمجھ لیتا ہے۔
پرانی
عورتیں اس راز کو خوب سمجھتی ہیں جب ان کے گھر میں سانپ نظر آئے اور وہ امداد کے
لئے اپنے مردوں کو آواز دیں تو یہ نہیں کہتیں کہ سانپ نکلا ہے بلکہ اس کی طرف
اشارہ کرتے ہوئے یا اس کا نام ’’رسی‘‘ لیتی ہیں یا لمبا کیڑا۔ کیونکہ ان کا عقیدہ
ہے کہ اگر سانپ کا ذکر سانپ کے سامنے صاف لفظوں میں کیا جائے تو وہ سمجھ جاتا ہے
اور پھر مار نہیں کھاتا۔
بہت
عرصہ ہوا آدم کی اولاد نے اپنی نسل میں حیّہ کی اولاد سے مخالفت ’’انتقام‘‘ کے
جذبہ کو مستقل قائم رکھنے کی ایک صورت نکالی تھی اور وہ نہایت ہی کارگر رہی مثلاً
یہ کہ ہر مہینہ یا ہر سال ایک دن ایسا مقرر کیا جاتا تھا کہ کنبہ قبیلہ کے لوگ ایک
جگہ جمع ہو کر ’’سانپ‘‘ کی برائیاں اور نسل آدم سے اس کی مخالفت کے واقعات بیان
کیا کرتے تھے تا کہ ان کی اولاد اور آئندہ آنے والی نسلوں کے ذہن میں بھی حیّہ
سے انتقام لینے کا پورا جذبہ قائم رہے چنانچہ آپ نے دیکھا ہو گا کہ آج کل بھی
اولاد آدم میں وہی دستور چلا آ رہا ہے۔
اگر
کسی نے ایک مرتبہ سانپ کا ذکر چھیڑ دیا تو پھر گھنٹوں اسی کا ذکر رہتا ہے۔ طرح طرح
کے واقعات سنائے جاتے ہیں۔ سب حاضرین نہایت شوق کے ساتھ سنتے ہیں اور آخر کار ان
کے دماغوں میں یہ خیال پوری طرح گھر کر گیا ہے کہ سانپ ہمارا سب سے بڑا دشمن ہے
لہٰذا اسے جہاں دیکھو ہلاک کر دو۔
حضور قلندر بابا اولیاء
آج تک کسی جن یا فرشتہ نے اپنی سوانح
عمری شائع نہیں کی۔ کیوں نہیں کی۔ یہ ایک راز ہے اور رکھا گیا ہے۔ دنیا میں رہنے
والے کم سمجھ انسان اسے نہیں جانتے اور نہیں جان سکتے۔ خاک کی بنی ہوئی عقل کیا
خاک سمجھے گی کہ یہ نوری اور ناری دنیا آج تک اپنی اپنی سوانح حیات لکھنے سے کیوں
گریز کرتی ہیں۔ یہ موٹی عقل کے پتلے شاید یہ سمجھتے ہیں کہ جنوں اور فرشتوں کو لکھنا
پڑھنا نہیں آتا یا انہیں لکھنے پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے لیکن یاد رہے کہ ہم نے مٹی
کے پتلوں سے پہلے کھانا سیکھا ہے، پہلے بولنا سیکھا ہے۔ اگر کسی کو یہ غرور ہے کہ
دنیا کا بے بضاعت انسان کسی معمولی سے معمولی فرشتے کا بھی مقابلہ کر سکتا ہے تو
یہ انسان کی لکھو کھا حماقتوں میں سے ایک اہم حماقت اور نادانی ہے۔