Topics

اللہ میاں کا پروگرام


          دراصل اللہ میاں کا پروگرام آدم ؑ کا عالم وجود میں لانے کا اس وقت ہی ظاہر ہو گیا تھا۔ جب ہاموس جنی کے زمانہ میں پروردگار نے ملائکہ کی فوج ہاموس جنی اور اس کی قوم کو نیست و نابود کرنے کے لئے بھیجی تھی۔ بات یہ تھی کہ جب ملائکہ کی فوج باغیوں کا خاتمہ کر چکی اور اطمینان نصیب ہوا تو پروردگار نے فرشتوں سے خطاب فرمایا تھا۔

          ’’انی جاعل فی الارض خلیفہ‘‘

          یعنی میں زمین میں ایک خلیفہ پیدا کرنے والا ہوں۔

          فرشتے چونکہ زمین کے باشندوں کی قتل و غارت گری دیکھ چکے تھے اور انہیں معلوم تھا کہ زمین کے رہنے والے مفسد ہوتے ہیں۔ اور قتل و خون ریزی کا باعث بنتے ہیں۔ لہٰذا انہوں نے پرورگار سے عرض کی۔

          ’’اتجعل فیہا من یفسد و یسفک الدماء و نحن نسبح بحمدک و نقدس لک‘‘

          ترجمہ: کیا پیدا کرے گا تو زمین پر اس قوم کو جو طرح طرح کے فساد برپا کریں گے۔ اور ان سے خون ریزیاں ہوں گی۔ اور ہم تیری تسبیح کرتے ہیں۔ حمد کرتے ہیں۔ تقدیس کرتے ہیں۔

          گویا فرشتوں کا یہ مطلب تھا کہ اگر تیرا منشا اس کے پیدا کرنے سے یہ ہے کہ تیری تسبیح و تقدیس کی جائے تو وہ ہم کر ہی رہے ہیں۔ پھر کیا ضرورت ہے کہ زمین پر فساد اور خون ریزی کرنے والے کو پیدا کیا جائے۔

          فرشتوں کا جواب سن کر اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ ’’انی اعلم مالا تعلمون‘‘ یعنی اس معاملہ میں جو کچھ میں جانتا ہوں تم نہیں جانتے۔ خالق کائنات کا یہ جواب فرشتوں نے سنا اور عاجزانہ لہجہ میں کہا:

          ’’سبحانک لا علم النا انک انت العلیم الحکیم‘‘

          پروردگار تیری ذات پاک ہے جو کچھ تو نے ہمیں علم دیا ہے اس سے زائد کچھ نہیں جانتے۔ تو سب کچھ جاننے والا اور حکمت والا ہے۔ اتنا کہہ کر سب فرشتے عفو تقصیر کے لئے سجدہ میں گر گئے۔

          بارگاہ خداوندی سے ارشاد ہوا۔

          اے فرشتو! تم نے اس کے فساد اور خون ریزی پر غور کر لیا۔ لیکن اس کی نیکیوں پر خیال نہیں کیا۔ اس کے گناہ کا تصور تو کر لیا لیکن میری مغفرت کو بھول گئے۔ اس کی خون ریزی دیکھنے کے بعد تمہیں اس کی اشک ریزی بھی تو دیکھنی چاہئے تھی۔ تم نے اپنی معصومیت پر غور کیا۔ لیکن اس کی وہ محبت نہ دیکھ سکے جو اسے اپنے خالق کے ساتھ ہو گی۔ دراصل تم اپنی دوستی میرے ساتھ دیکھ سکتے ہو۔ لیکن میری دوستی جو اس کے ساتھ ہو گی وہ تو تمہارے خواب و خیال میں بھی نہیں آ سکتی۔

          جب آدم کے قالب میں روح ڈال دی گئی تو جمیع ملائکہ کو حکم دیا گیا کہ اسے سجدہ کریں۔ کیونکہ یہ ہمارا خلیفہ ہے۔ تو سب سے پہلے جبرئیل نے سجدہ کیا۔ اس کے بعد میکائیل سجود ہوئے۔ اور ان کے بعد اسرافیل سجدہ میں گر گئے۔ اسرافیل کے بعد عزرائیل نے اپنے خالق کے حکم کی تعمیل کی۔ ان چاروں کے بعد تمام ملائکہ سماوات نے آدم ؑ کو سجدہ کیا۔ یہ سجدہ ایک سو سال تک قائم رہا۔ پورے سو سال کے بعد فرشتوں نے سجدہ سے سر اٹھایا۔

          میں نے چونکہ سجدہ نہیں کیا تھا۔ اس واسطے خاموش کھڑا رہا۔ بھلا غور تو کیجئے کہ آدم کے پتلہ کو مٹی سے بنا کر مجھے حکم دیتے ہیں کہ اسے سجدہ کرو۔ کہاں آگ اور کہاں مٹی۔ بات تو جب تھی کہ آدم ؑ سے کہتے کہ اس پیشوائے اعظم کو سجدہ کر۔ الٹا مجھے ہی ذلیل کر دیا۔ بھلا ایسا کون ہے جو یہ کہہ دے گا کہ مٹی کو آگ پر فوقیت ہے۔ لیکن خدا جانے اس وقت ان کے جی میں کیا آئی کہ مجھے نکو بنا دیا اور ساری دنیا میں بدنام کر دیا۔

          مجھ سے پوچھا۔ کیوں ابلیس!(یہ میرا نیا نام رکھا گیا تھا) تو سجدہ کیوں نہیں کرتا۔ میں نے عرض کی۔ اے عزت و عظمت دینے والے! میں آدم ؑ کو کیونکر سجدہ کے قابل سمجھوں تو نے مجھے نار سے بنایا ہے اور اسے خاک سے تخلیق کیا ہے۔ یہ کہتے کہتے میں نے دیکھا کہ میرا چہرہ اور تمام جسم تبدیل ہونے لگا۔ پروردگار نے میرا یہ جواب سنتے ہی لباس خاص اور خلعت پیشوائی مجھ سے چھین لیا اوراس کی جگہ پیرہن رسوائی میرے بدن پر چڑھا دیا گیا۔ تمام نعمتوں اور الطاف ربانی سے مجھے محروم کر دیا گیا۔ قربت اور حضوری خاص بھی میرے ہاتھ سے جاتی رہی۔ وہ حسن صورت جو تمام ملائکہ سے زیادہ مجھے عطا ہوا تھا کافور ہو گیا۔ اور ایسی ہیبت ناک شکل بن گئی کہ خدا کی پناہ! بس میرا ہی جی جانتا ہے۔ (اس کتاب کے شروع میں میری اس زمانہ کی تصویر دیکھ لیجئے)۔

          فرشتوں نے میری یہ گت بنتی دیکھی۔ تو دوبار سجدہ شکر و اطاعت ادا کیا۔ یہ آج کل مسلمانوں میں دو سجدوں کا رواج ہے۔ یہ اسی دوسرے سجدے کی یادگار میں ہے۔ جو فرشتوں نے دوبارہ ادا کیا تھا۔

          دیکھا آپ نے حضرت انسان تو ایک طرف مجھے برا بھلا کہتا ہے، طرح طرح کی گالیاں دیتا ہے، کوستا ہے اور دوسری طرف میرے شاگرد فرشتوں کے عمل سے سبق لیتا ہے۔ اب آپ خود ہی فیصلہ کیجئے کہ جو شخص میرے شاگرد کو اپنا استاد سمجھتا ہو۔ اسے میری ذات سے کیا رشتہ ہو گا اور ذرا اس کے بعد یہ بھی خود ہی دیکھ لیجئے کہ مجھے کیا سمجھنا چاہئے تھا اور کیا سمجھا جاتا ہوں۔ خیر مجھے اس کی کوئی شکایت نہیں۔ جب پروردگار نے ہی مجھے ٹھکرا دیا تو اس کے بندوں سے کیوں شکایت کروں۔ وہ تو منہ دیکھے کے ہوتے ہیں۔ اگر آج اللہ میاں مجھ سے خوش ہوتے تو یہی انسان میرا بندہ بے دام ہوتا۔

 

Topics


Shaitan Ki Sawaneh Umri

حضور قلندر بابا اولیاء

آج تک کسی جن یا فرشتہ نے اپنی سوانح عمری شائع نہیں کی۔ کیوں نہیں کی۔ یہ ایک راز ہے اور رکھا گیا ہے۔ دنیا میں رہنے والے کم سمجھ انسان اسے نہیں جانتے اور نہیں جان سکتے۔ خاک کی بنی ہوئی عقل کیا خاک سمجھے گی کہ یہ نوری اور ناری دنیا آج تک اپنی اپنی سوانح حیات لکھنے سے کیوں گریز کرتی ہیں۔ یہ موٹی عقل کے پتلے شاید یہ سمجھتے ہیں کہ جنوں اور فرشتوں کو لکھنا پڑھنا نہیں آتا یا انہیں لکھنے پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے لیکن یاد رہے کہ ہم نے مٹی کے پتلوں سے پہلے کھانا سیکھا ہے، پہلے بولنا سیکھا ہے۔ اگر کسی کو یہ غرور ہے کہ دنیا کا بے بضاعت انسان کسی معمولی سے معمولی فرشتے کا بھی مقابلہ کر سکتا ہے تو یہ انسان کی لکھو کھا حماقتوں میں سے ایک اہم حماقت اور نادانی ہے۔