Topics

دنیا کی ابتدا


          چونکہ مجھے دنیا کی مکمل تاریخ نہیں لکھنی بلکہ صرف اپنی زندگی کے حالات شائع کرنا ہیں۔ اس واسطے میں باقی تمام واقعات چھوڑ کرصرف اپنی قوم کا ذکر لکھوں گا اور اس سے میرے حسب نسب کے متعلق بھی معلومات ہو سکے گی۔ سب سے پہلے یہ معلوم کیجئے کہ میں فرشتہ نہیں بلکہ قوم اجنہ میں سے ہوں۔ میرے جد امجد دنیا کے سب سے پہلے جن ہیں جن کو تخلیق کائنات کی ابتدا میں پیدا کیا گیا تھا اور جو مجھ سے کم و بیش ایک لاکھ چوالیس ہزار سال قبل پیدا ہوئے تھے۔ ان کا نام طارانوس تھا اور لقب جان تھا مگر عام طور سے ابوالجن کہلاتے تھے۔ بعض دنیاوی مورخوں نے میرے جد امجد طارہ نوس کا نام سوما لکھا ہے لیکن جہاں تک میری معلومات کام کرتی ہے ان کا نام طارہ نوس تھا۔ ممکن ہے کہ کسی مناسبت سے وہ کچھ عرصہ کے لئے سوما کے نام سے بھی مشہور ہوئے ہوں لیکن ہمارے خاندانی معاملات میں ان کا نام طارق نوس ہی لیا جاتا تھا۔ سنا ہے کہ تاریخی کتابوں میں انسان ضعیف البیان نے طارہ نوس کا نام مارج بھی لکھا ہے۔ بہرحال ان سب اختلافات کو بالائے طاق رکھئے۔ ان کا نام طارہ نوس ماننا چاہئے۔

          جس طرح آج حضرت انسان اپنی نسل حضرت ابو البشر آدم علیہ السلام سے ملاتے ہیں بالکل یہی کیفیت قوم اجنہ کی بھی ہے۔ ان کا سلسلہ توالد تناسل ابوالجن طارہ نوس(جان) سے ملتا ہے اور جس طرح عورت اور مرد انسانوں میں پیدا ہوئے ہیں اسی طرح قوم اجنہ میں بھی رواج تھا اور اب بھی ہے۔

          میرے جد امجد طارہ نوس کو پیدا ہوئے کافی عرصہ گزر گیا تھا وہ اپنی قوم اور اپنی جنسیت کے لحاظ سے تنہا زندگی بسر کرتے تھے کہ یکایک غیر محسوس طور پر انہیں قوم جنہ میں سے ایک عورت نظر آئی۔اول تو انہیں بہت تعجب ہوا لیکن بعد میں وہ اس عورت سے مانوس ہو گئے۔ رفتہ رفتہ اس یک جانی نے ان کو شوہر اور بیوی کے رشتہ میں منسلک کر دیا۔ اس زمانہ میں رواجی موت کا دستور نہ تھا۔ یعنی کوئی مخلوق بلاوجہ نہ مرتی تھی چنانچہ اس کا یہ اثر ہوا کہ تھوڑے ہی زمانہ میں طارہ نوس کی اولاد تمام روئے زمین پر پھیل گئی۔ مرتا کوئی نہ تھا پیدا ہزاروں ہوتے تھے۔ اس سود در سود کے قصے نے اچھا خاصا عالم آباد کر دیا۔ آج کل کی زبان میں جس چیز کو مردم شماری کہ جاتا ہے وہ طارہ نوس کے زمانہ میں رائج نہ تھی۔ اگر ہوتی تو شاید آج کی دنیا سے پچاس ہزار گنا زیادہ نفوس اس دنیا میں آباد نظر آتے۔ مگر اس وقت کوئی شمار کرنے والا نہ تھا اور نہ شمار کرنے کی کوئی ضرورت تھی۔ تمام روئے زمین پر میرے جد امجد طارہ نوس جان کی حکومت تھی۔

          ساری دنیا عیش و عشرت کی زندگی گزار رہی تھی کہ ناگاہ پروردگار عالم نے ابوالجن پر ایک شریعت نازل فرمائی جسے ابوالجن اور ان کی تمام اولاد نے اپنے لئے قابل عمل ٹھہرایا۔

          اس آسمانی شریعت پر عمل ہوئے طارہ نوس اور اس کی تمام اولاد نے آج کل کے حساب سے تقریباً چھتیس ہزار سال گزار دیئے اور سوائے چند مفسد جنوں کے کسی کی طرف سے کوئی ایسی حرکت سرزد نہ ہوئی جو شریعت آسمانی کے خلاف ہوتی یا اس قوم کی تباہی کا سبب بنتی لیکن اس کا کیا علاج کہ سرشت میں ’’نار‘‘ تھی۔ یہ کب چین سے بیٹھنے دیتی، آخر کار یہ ’’ناریت‘‘ رنگ لائی اور مخلوق شریعت حقہ سے پھرنے لگی۔ بڑی تیز رفتاری کے ساتھ تباہی کی طرف دوڑنے لگی۔ آخر تابجے ایک وقت وہ آگیا کہ عالم میں ہر طرف گناہ  ہی گناہ تھا۔ سیاہ کاریاں پورے طور پر غالب آ گئیں۔ مخلوق اپنی زبان سے تباہی اور بربادی کو پکارنے لگی۔

          حالات نے پلٹا کھایا اور آخر کار وہی ہوا جس کا خطرہ تھا۔ قہر خداوندی نازل ہوا اور تمام سیاہ کاروں کو ہمیشہ کی نیند سلا دیا گیا۔

           کیا لکھوں شرم آتی ہے لکھتے ہوئے کہ خود طارہ نوس بھی اس تباہی سے نہ بچ سکے۔ ان پر پوری طرح پنجہ عصیاں اپنا قبضہ جما چکا تھا چنانچہ اس تباہی میں وہ بھی اپنے ساتھیوں کے ساتھ عالم فنا میں پہنچا دیئے گئے۔

          اب تمام عالم میں سناٹا تھا وہ چہل پہل نہ تھی وہ گنجان آبادی نہ تھی ، کہیں کہیں چند نیک عمل ہستیاں سربسجود تھیں ان کی ہدایت و رہنمائی کے لئے پروردگار عالم نے پھر کسی رہبر کی ضرورت محسوس کی اور آخر کار اسی قوم میں سے ایک فرد کو جن کا نام چلپانیس تھا بحکم خداوندی بجائے طارہ نوس کے سربر آرائے سلطنت کر دیا گیا اور سابقہ شریعت کو ترمیم و تنسیخ کے ساتھ ان کے حوالے کر دی گئی یہ بھی آخر اپنے باپ کے بیٹے تھے۔ باپ سے دور کیسے جاتے ہر چند کہ اپنی قوم میں سب سے زیادہ نیک اور سب سے زیادہ عابد و زاہد مشہور ہو گئے لیکن صرف اسی وقت تک جب تک کہ اپنی فطرت سے مقابلہ کر سکنے کی ان میں طاقت تھی۔ آخر کار خواہشات کے سامنے سر تسلیم خم کر بیٹھے۔ عبادت اور ریاضت نے اپنی توہین گوارا نہ کی۔ آہستہ آہستہ اس نے کنارہ کشی شروع کر دی اور تھوڑا ہی زمانہ گزرنے کے بعد دیکھنے والوں نے دیکھا کے طارہ نوس کے جانشین ہزہولی نس چلپانیس وہی بزرگ ہیں جو حصول پیغمبری سے پہلے تھے اور اپنی قوم میں کسی قدر عبادت و ریاضت کے باعث ممتاز نظر آتے تھے۔ اب وہ انہماک عبادت تھا نہ وہ مشغلہ ہدایت۔ سب اپنے اپنے راستے پر تھے بظاہر کوئی کسی کا راہبر نہ تھا اور سب سب کے راہبر ایک دوسرے کے عمل سے کوئی متاثر نہ ہوتا تھا۔ چلپانیس کی پیغمبری برائے نام رہ گئی تھی خود انہیں یاد نہیں رہا تھا کہ وہ پیغمبر ہیں یا قومی باگ ڈور ان کے ہاتھ میں دی گئی ہے۔

          زمانہ نے ایک اور پلٹا کھایا اور حالات کہیں سے کہیں پہنچ گئے، رہی سہی عبادتیں اور نیکیاں بھی یہ حال دیکھ کر اپنی عزت و آبرو کی حفاظت میں مصروف ہو گئیں اور مخلوق سے کنارہ کشی اختیار کر لی۔ مقدس چلپانیس یہ سب کچھ دیکھ رہے تھے مگر اس طرح کہ گویا نہیں دیکھ رہے تھے۔ گناہ کا دیوتا ان کے سامنے رقص کر رہا تھا اور وہ دیکھ دیکھ کر مسکرا رہے تھے ساری قوم ظلمت کی چادر میں سما گئی تھی مگر ان کی سیاہ کار آنکھیں قومی وجود کا اب بھی احساس کر سکتی تھیں۔

          ستاری کی شان آگے بڑھی اور اس نے چلپانیس کو مخاطب کر کے کہا، چلپانیس! تم دامن شریعت کو تار تار کر چکے ہو آئو پھر تمہیں ویسا ہی کر دیں تم راستہ بھول گئے ہو اور آئو پھر تمہیں راہ پر لگا دیں۔

          چلپانیس پھر جھک گئے قدرت نے پھر انہیں ویسا ہی کر دیا۔ ساری قوم پھر اعتدال پر آئی لیکن ناری فطرت مسلسل اپنا کام کر رہی تھی۔ قدرت نے با بار فرمائش کی متعدد بار ہدایتیں کیں مگر نار بحرحال نار تھی۔ آخر کار اس نے قوی عقل و ہوش کا گھر پھونک ڈالا۔ تمام قوم کو خانماں برباد کر کے چھوڑا اور ان کے ساتھ بھی وہی کچھ ہوا جو ان سے پہلے سرکشوں کے ساتھ ہوا تھا۔ ابھی چلپانیس کی حکومت اور پیغمبری کو پورے چھتیس ہزار سال بھی میسر نہ آئے تھے کہ وہ انجام کو پہنچا دیئے گئے اور اپنے ہمراہ تمام ایسے ہم عصروں جو ان کے ساتھ بدکاری میں مصروف ہو گئے تھے، گم نامی اور بربادی کی دنیا میں لے گئے اور اس طرح دنیا کا یہ دوسرا دور ہزار لیٹ ہائینس چلپانیس کے ہاتھوں تاریخ کی گم نامیوں میں کھو گیا اور بعد کی آنے والی نسلیں ڈھونڈتی رہ گئیں کہ ان کے دادا چلپانیس نے ان کے لئے کیا چھوڑا۔

          اب دنیا پھر خالی تھی چند رہے سہے عبادت گزار کہیں کہیں نظر آ رہے تھے مگر قہر خداوندی سے لرزاں اور اپنے نامعلوم انجام کے منتظر۔ قدرت نے پھر ایک ضرورت محسوس کی ہر طرف دیکھا۔ ایک مقدس صورت بزرگ اپنی قوم کی کھوئی ہوئی عظمت ڈھونڈتے پھر رہے تھے کہ قدرت کی نگاہ انتخاب میں آ گئے، کیا ڈھونڈ رہے تھے اور کیا مل گیا۔

          ان بزرگ کا نام بلیقا تھا ان کی اولاد کے متعلق بعض روایتوں سے پتہ چلا ہے کہ بہت ہی بد افعال تھی اور یہ اسی غم میں دن رات رویا کرتے تھے۔ ضرورت سے زیادہ عبادت کرتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ میری عبادت سے خوش ہو کر پروردگار میری اولاد کے گناہ معاف کر دے گا۔ ان کے بیٹے اور بیٹیوں کی تعداد اتنی زیادہ تھی کہ خود انہیں ان کی صحیح تعداد کا حال معلوم نہ تھا، نہ سب کے نام یاد رکھ سکتے تھے۔ سنا ہے کہ ایک بار انہوں نے اپنی اولاد کو ایک جگہ جمع کر کے شمار کرنے کی کوشش کی۔ لیکن شمارہ کے بعد معلوم ہوا کہ ان کے کئی بیٹے تداد میں نہ آئے سکے کیونکہ وہ اس وقت موجود نہ تھے اور ماں باپ کا خیال نہ تھا کہ حاضرین کے علاوہ ان کے کوئی اور بھی اولاد ہے لیکن جب سامنے آئے تو ماں باپ کو یاد آ گیا کہ وہ بھی ان ہی کے بچے ہیں۔ جس وقت قدرت کی انتخابی نگاہیں بلیقا پر پڑیں ان کی عمر دو ہزار سال سے کچھ زیادہ تھی اور خدمت قوم کا جذبہ ان کے دل میں شباب کی منزلیں طے کر رہا تھا۔ اس نئی توقیر سے ان کا دل باغ باغ ہو گیا۔ قدرت نے انہیں ان کی قوم کا پیغمبر بھی بنایا اور بادشاہ بھی۔ اس اعزاز کے بعد ان کی ریاضت میں غیر معمولی اضافہ ہو گیا۔ روایات سے پتہ چلتا ہے کہ بلیقا ن ے جانفشانی اور ایمانداری کے ساتھ اپنے عہدہ کے فرائض انجام دیئے اور ایسی عابدانہ زندگی کا نمونہ پیش کیا کہ ان کی قو م سرتاپا عبادت بن گئی۔

          تقریباً چھتیس ہزار سال تک یہی کیفیت رہی دنیا کے ذرہ ذرہ پر بلیقا کی حکومت تھی۔ ہر طرف شریعت آسمانی کا ڈنکہ بج رہا تھا لیکن وائے بدنصیبی کہ ناری ذہنیت پھر بیدار ہو گئی اور حالات دیکھ کر بھڑک اٹھی اسے کب گوارا تھا کہ خاردار دنیا میں نیکیوں کی حکومت ہو۔ اس کے خیال میں شاید نیک اعمال کا وجود اس فانی دنیا کے لئے موزوں نہیں تھا چنانچہ دیکھتے دیکھتے ہوا کا رخ پھر گیا۔ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائوں کے نرم نرم جھونکے آندھیاں بن کر سنسنانے لگے۔ حالات بے قابو ہوئے اور ظلمات کی طرف کا پرچم لہرانے لگا ہر طرف اندھیرا ہی اندھیرا ہو گیا یا دوسرے لفظوں میں یوں کہو کہ سیاہ کاروں کی قوت باصرہ منہ موڑ بیٹھی اور انہیں ہر طرف تاریکی ہی تاریکی کا احساس ہونے لگا۔

          اندھے کو اندھیرے میں دور کی سوجھتی ہے۔ ساری قوم سیاہ کاروں کی موجد بن گئی اور وہ وہ گناہ کاریاں تراشی گئیں کہ زمین اور آسمان لرز گئے۔

          انجام کار قدرت نے نار کو نار میں شامل کر کے فیصلہ کیا اور سرکشان شریعت کو اتمام حجت کے بعد فنا کی گود میں پہنچا دیا۔

          دنیا اب پھر خالی تھی سالار کارواں کی ضرورت نے قدرت کو پھر متوجہ کیا اور باقی ماندہ افراد میں سے ہاموس جنی کے نام پروانہ پیغمبری جاری ہوا۔ یہ بزرگ اپنی قوم میں مقا بلتہ نیک طینت اور ممتاز تھے۔ حکومت اور پیغمبری کے بعد ان کے مراتب میں اور بھی اضافہ ہو گیا۔ ساتھ ہی قدرت کی طرف سے مختلف ہدایتوں کے علاوہ یہ نوٹس بھی ملا کہ اگر تم نے پچھلے جیسوں کی بغاوت کی اور شریعت آسمانی کی توہین کے مرتکب ہوئے تو تمہیں ان سب سے زیادہ سخت سزا دی جائے گی اور وہ ایسی سزا ہو گی کہ اگر تم آج اسے معلوم کر لو تو خوف و دہشت کے مارے تمہارے کلیجے کے ٹکڑے اڑ جائیں۔

          ہاموس نے خلوص قلب سے وعدہ کیا کہ میں شریعت کی پوری طرح حفاظت کروں گا اور کوشش کروں گا کہ میں اور میری قوم پوری طرح قواعد آسمانی کی پابند ہو کر رہے۔

          وعدہ کرنے والا ناری تھا اور وعدہ بھی ناری تھا کب تک رہتا رفتہ رفتہ ناری فطرت رنگ جمانے لگی اور اپنے اسلاف کی طرح پورے چھتیس ہزار سال گزرنے کے بعد آخر کار اسی مرکز پر آ گئی جہاں سے عالم فنا کا راستہ بالکل سیدھا اور تباہی کا زینہ قریب تر ہے اور جہاں پہنچ کر پچھلی قومیں شریعت کی قید و بند سے اپنی ذات کو آزاد سمجھنے لگی تھیں۔ شروع شروع میں تو ہاموس جنی نے اپنی قوم کو بہت سمجھایا لیکن اسے کامیابی نہ ہوئی۔ یہاں تک کہ رفتہ رفتہ سیاہ کاریوں کے دیوتا کے سامنے ایک دن ہاموس بھی سربسجود نظر آیا، پھر کیا تھا سیاں بھئے کوتوال اب ڈر کا ہے کا۔ جب پیغمبر اور راہبر ہی گناہوں کا پجاری بن جائے تو اس کی قوم کیسے بچ سکتی ہے، وہ جو ایک روک تھی ہاموس کی غداری سے جاتی رہی۔ کچھ افراد ایسے بھی تھے جو عرصہ تک گناہوں کی دنیا سے اپنا دامن بچاتے رہے لیکن راہبر کو مصروف گناہ دیکھ کر ان کا جی بھی للچایا اور انہوں نے بھی اپنا تقدس کا لبادہ سیاہ کاری کی بھٹی میں پھونک دیا۔

          ان سے پہلے جو تین دور گذرے ان میں بھی یہ ہولناک سیاہ کاریاں نہ تھیں، کہیں کہیں زاہد و تقویٰ کے دم توڑتے نظر آ ہی جاتے تھے لیکن اس چوتھے دور میں تو ذرہ ذرہ انجام سے بے خبر ہو کر شریعت کی دھجیاں اڑا رہا تھا۔

          قدرت نے پہلے ہی دن فیصلہ سنا دیا تھا کہ اگر تم نے اپنے اسلاف کی طرح غداری کی تو تمہیں ان سے لرزہ خیز سزا دی جائے گی چنانچہ باری تعالیٰ نے فرشتوں کی ایک فوج کو حکم دیا کہ وہ زمین پر جائے اور ہاموس کی قوم کو انتہائی سختیوں کے ساتھ تباہ کر دے اور ایسا قتل عام ہو کہ شریعت سے غداری کرنے والوں کے لئے ہمیشہ کے واسطے ایک مثال بن جائے۔

          ملائکہ کی فوج مقابلہ کے لئے زمین پر آئی اور ادائے فرض میں مصروف ہو گئی۔ قوم جنات نے بھی بہادری سے انکا مقابلہ کیا لیکن فرشتے بہرحال فرشتے تھے، آخر کار غالب آ گئے۔ قتل عام سے جو چند افراد بچ سکے وہ ادھر ادھر جزیروں میں بھاگ گئے اوربے شمار چھوٹی عمر کے بچے فرشتوں کی حراست میں آ گئے ان ہی کم سن قیدیوں میں اپنی کم عمری کے سبب میں بھی تھا۔ ہر چند کہ میں نے بھاگنے کی کوشش کی لیکن گرفتار کرنے والے زیادہ طاقت ور تھے اور میں ان کے چنگل سے نہ بچ سکا۔

          میں بچپن میں بے حد حسین تھا۔ میری ذہانت اور قابلیت سے میرے والدین کو بہت کچھ امیدیں وابستہ تھیں۔ میرے خاندان کے بہت سے لوگ میرے ماں باپ سے محض اسی وجہ سے عداوت رکھتے تھے کہ اتنا حسین و جمیل اور ایسا ذہین بیٹا ان کو کیوں نہ ملا۔ بہرحال اس قید کے بعد بھی میری ذہانت اور حسن بے کار نہیں گئے۔ مجھے دیکھ کر فرشتوں کو رحم آ گیا اور انہوں نے آپس میں مشورہ کر کے پروردگار عالم سے التجا کی کہ اگر اجازت ہو تو اس کم سن بچے کو ہم آسمان پر لے آئیں، یہ بہت ذہین ہے اور ہمارا خیال ہے کہ اس کی اصلاح ہو سکتی ہے۔ فرشتوں نے کہا:

          پروردگار! تو عالم الغیوب ہے آئندہ کے بھید تو ہی جان سکتا ہے لیکن بظاہر یہ لڑکا اگر اچھی تعلیم ملے تو ہمارے خیال میں ٹھیک ہو جائے گا۔

          قدرت کو تو منظور ہی کچھ اور تھا۔ حکم ہوا اچھا اس بچے کو آسمان پر لے آئو اور باقی بچوں کو وہیں دنیا میں چھوڑ دو چنانچہ حکم باری تعالیٰ کے ماتحت فرشتے مجھے آسمان پر لے گئے۔

Topics


Shaitan Ki Sawaneh Umri

حضور قلندر بابا اولیاء

آج تک کسی جن یا فرشتہ نے اپنی سوانح عمری شائع نہیں کی۔ کیوں نہیں کی۔ یہ ایک راز ہے اور رکھا گیا ہے۔ دنیا میں رہنے والے کم سمجھ انسان اسے نہیں جانتے اور نہیں جان سکتے۔ خاک کی بنی ہوئی عقل کیا خاک سمجھے گی کہ یہ نوری اور ناری دنیا آج تک اپنی اپنی سوانح حیات لکھنے سے کیوں گریز کرتی ہیں۔ یہ موٹی عقل کے پتلے شاید یہ سمجھتے ہیں کہ جنوں اور فرشتوں کو لکھنا پڑھنا نہیں آتا یا انہیں لکھنے پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے لیکن یاد رہے کہ ہم نے مٹی کے پتلوں سے پہلے کھانا سیکھا ہے، پہلے بولنا سیکھا ہے۔ اگر کسی کو یہ غرور ہے کہ دنیا کا بے بضاعت انسان کسی معمولی سے معمولی فرشتے کا بھی مقابلہ کر سکتا ہے تو یہ انسان کی لکھو کھا حماقتوں میں سے ایک اہم حماقت اور نادانی ہے۔