Topics
قبل
اس کے کہ میں آئندہ کے واقعات لکھوں، یہ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اپنی سابقہ عمر
اور حسب و نسب کے متعلق بھی مختصراً عرض کر دیا جائے۔
میری
پیدائش دنیا کی ابتدا سے ایک لاکھ چوالیس ہزار سال بعد میں ظہور میں آئی ہے۔ سب
سے پہلے میرے جد امجد ابوالجن طارہ نوس جان پیدا کئے گئے تھے جو چھتیس ہزار سال تک
ساری دنیا پر حکومت اور پیغمبری کرتے رہے اور آخر کار شریعت آسمانی کی سرکشی کے
باعث بنا ہوئے۔
اس
کے بعد دنیا کا ایک دوسرا دور شروع ہو ا اور چلپانیس سریر آرائے سلطنت ہوئے۔
انہوں نے بھی بہت شان دار طریقے سے چھتیس ہزار سال گزار دیئے، حق کی شریعت کو بھول
گئے۔ اور اسی باعث انہیں اپنی ہستی کو بھی بھولنا پڑا۔ تیسرا دور بلیقا کا تھا یہ
حضرت بھی اسی مدت میں عروج و زوال کی منزلیں طے کر گئے۔ چوتھی بار میرے جد امجد ہاموس
جنی کی تھی انہوں نے بھی چھتیس ہزار برس تک شریعت آسمانی کا جھنڈا بلند رکھا اور
انجام کار اپنے اسلاف کے مقلد بن کر گناہ کے دیوتا کی رگ رگ میں سما گئے۔ میرے
والد صاحب قبلہ بھی ان ہی حضرت کی اولاد میں تھے اور محترمہ والدہ کو بھی یہی شرف
حاصل تھا۔ اور خدا غارت کرے اس شرف کو مجھے بھی یہی لپٹ گیا اور آخر کار اپنے
دادا جان کے عذاب میں مجھ جیسے بے گناہ اور کم سن پوتے کو بھی اسیر ہونا پڑا۔ خیر
یہ تو دل کے پھپھولے ہیں ہمیشہ پھوٹتے ہی رہیں گے۔ پھوٹنے دیجئے۔ ہاں تو یہ سنیئے
کہ میں کون ہوں اور میرے باپ دادا کون تھے؟
جس طرح آج کل کے مختلف انسانوں کی شکلیں مختلف ہوتی ہیں ٹھیک
اسی طرح اس وقت میں بھی ہوتا تھا فرق صرف یہ ہے کہ آج کل شکلوں کا اختلاف بہت
معمولی ہوتا ہے بہرصورت چہرہ انسانی ہی رہتا ہے مگر ہمارے زمانہ میں بات ہی کچھ
اور تھی۔ مثلاً ایک مرد کا چہرہ اگر گھوڑے کا سا ہے تو دوسرے کا بلی کا سا ہو سکتا
ہے اور یہ تعجب کی بات نہیں سمجھی جاتی تھی ہر فرد کا جسم تقریباً ایک سا ہی ہوتا
تھا جس طرح آج کل انسانی جسم موٹا، پتلا، بھدا، نازک وغیرہ شکلوں کا ہوتا ہے ایسا
ہی اس وقت بھی دستور تھا۔ صرف چہرہ کی ساخت نمایاں اختلاف رکھتی تھی اور یہی پہچان
کا ذریعہ تھا
حضور قلندر بابا اولیاء
آج تک کسی جن یا فرشتہ نے اپنی سوانح
عمری شائع نہیں کی۔ کیوں نہیں کی۔ یہ ایک راز ہے اور رکھا گیا ہے۔ دنیا میں رہنے
والے کم سمجھ انسان اسے نہیں جانتے اور نہیں جان سکتے۔ خاک کی بنی ہوئی عقل کیا
خاک سمجھے گی کہ یہ نوری اور ناری دنیا آج تک اپنی اپنی سوانح حیات لکھنے سے کیوں
گریز کرتی ہیں۔ یہ موٹی عقل کے پتلے شاید یہ سمجھتے ہیں کہ جنوں اور فرشتوں کو لکھنا
پڑھنا نہیں آتا یا انہیں لکھنے پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے لیکن یاد رہے کہ ہم نے مٹی
کے پتلوں سے پہلے کھانا سیکھا ہے، پہلے بولنا سیکھا ہے۔ اگر کسی کو یہ غرور ہے کہ
دنیا کا بے بضاعت انسان کسی معمولی سے معمولی فرشتے کا بھی مقابلہ کر سکتا ہے تو
یہ انسان کی لکھو کھا حماقتوں میں سے ایک اہم حماقت اور نادانی ہے۔