Topics

ہجرت حبشہ


اسلام کے ابتدائی دور میں دوہستیاں ایسی ہیں جنہوں نے اسلام کے لئے مالی لحاظ سے بہت قربانی دی ہے۔ ان میں سے ایک حضرت خدیجہؓ   اور دوسرے حضرت ابوبکر صدیق  ؓہیں۔ اسلام سے پہلے یہ دونو ں افراد مکہ کے مال دار لوگوں میں شمار ہوتے تھے۔ لیکن جب یہ دونوں اس دنیا سے رخصت ہوئے تو بالکل خالی ہاتھ تھے کیونکہ انہوں نے اپنی ساری دولت اسلام کی راہ میں خرچ کردی تھی۔

حضرت عمر ؓ بن خطاب جب مسلمان ہوئے تو اپنے خاندان کو دعوت دی اور قبیلہ ”بنی عدی“ کے بہت سے افراد مسلمان ہوگئے۔ قریش نے مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ ہو تے ہوئے دیکھا تو انہیں تشویش ہوئی۔ وہ جانتے تھے کہ حضرت حمزہؓ اور حضرت عمر ؓبن خطاب سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی حمایت کرتے ہیں لہٰذا وہ مسلمانوں کو علیٰ الاعلان تکلیف نہیں پہنچا سکتے تھے۔مشرکین نے یہ فیصلہ کیا کہ مسلمانوں کا سوشل بائیکاٹ کیا جائے اور ان پر عرصہئ حیات تنگ کردیا جائے۔ کفار نے یہ پابندی لگادی کہ مسلمانوں سے نہ کوئی چیز خریدی جائے اورنہ ہی انہیں کوئی چیز بیچی جائے۔اس پابندی نے مسلمانوں کی زندگی کو مفلوج کردیا۔ کچھ لوگ جونئے نئے مسلمان ہوئے تھے وہ ان مسائل او ر مشکلات کا مقابلہ نہیں کرسکے۔

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فیصلہ کیا کہ خود مکہ میں قیام کریں اور مسلمانوں کو حبشہ کی طرف روانہ کردیں۔ حبشہ کا حکمران کسی مذہب کے ماننے والوں کو ایذا نہیں پہنچاتا تھاوہاں مذہب کی مکمل آزادی تھی۔

 جن لوگوں نے پہلی مرتبہ مکہ سے حبشہ کی جانب ہجرت کی ان کی تفصیل یہ ہے:

۱۔ حضرت جعفرؓ بن ابی طالب اور           ۲۔  آپ ؓ کی زوجہ حضرت اسماءؓ۔

۳۔ عثمان ؓبن عفان (حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے داماد)     اور  ۴۔  آپ ؓ  کی زوجہ حضرت رقیہ ؓ  بنت رسول علیہ  الصلوٰۃوالسلام

۵۔  حضرت ابو حذیفہؓ بن عتبہ  اور            ۶۔  آپؓ کی زوجہ حضرت سہلہؓ بنت سہیل

۷۔  حضرت عامرؓ بن ربیعہ اور                                 ۸۔  آپؓ  کی زوجہ حضرت لیلیٰ  ؓ

۹۔حضرت   ابوسلمہؓ  بن عبدلاسد  اور         ۰۱۔  آپؓ کی زوجہ ام سلمہؓ بنتِ امیہ              

(یہ وہی امِ سلمہؓ ہیں جو ابوسلمہؓ کی وفات کے بعد حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے عقد میں آئیں)۔

۱۱۔  حضرت زبیرؓ بن العوام                     ۲۱۔  حضرت عبداللہؓ بن مسعود

۳۱۔ حضرت عبدالرحمنؓ بن عوف         ۴۱۔   حضرت سہیلؓ بن بیضا

۵۱۔ حضرت مصعبؓ بن عمیر                                ۶۱۔  حضرت عثمانؓ بن مظعون

یہ لوگ چھوٹی چھوٹی جماعت میں مکہ سے نکل کر سمندر کے کنارے پہنچے اور کشتی پر سوار ہوکر حبشہ کی طرف روانہ ہوگئے۔ مسلمانوں کا یہ پہلا قافلہ تھا جو حبشہ کی طرف روانہ ہوا۔ جب مسلمان حبشہ کے دارالخلافہ پہنچے تو حضرت جعفر  ؓکی زوجہ حضرت اسماءؓنے آمد کے پہلے دن ایک لڑکے کو جنم دیا۔ اسی دن حبشہ کے حکمران کے گھربھی لڑکے کی ولادت ہوئی۔ حضرت اسماءؓ نے رضاکارانہ طور پر بادشاہ کے لڑکے کو دودھ پلانے کی تجویز پیش کی جو منظور ہوگئی۔ اس طرح عربوں کے رواج کے مطابق حضرت جعفرؓ بن ابی طالب کا بیٹا اور حبشہ کے بادشاہ کا فرزند آپس میں رضاعی بھائی بن گئے۔

ہجرت کرنے والے مسلمانوں کی پہلی جماعت کے بعددوسرے مسلمان گروہ بھی مکہ سے حبشہ کی طرف روانہ ہوگئے اور مجموعی طور پر ایک سونو(۹۰۱)مسلمان حبشہ میں جمع ہوگئے۔ یہ سب لوگ کشتی کے ذریعے حبشہ پہنچے تھے۔

قریش کی سفارت

 قریش کو جب یہ معلوم ہواکہ مسلمان حبشہ کی طرف چلے گئے ہیں لہٰذا انھوں نے دوافراد ابو عمرو بن العاص اور عمارہ بن ولید کو منتخب کیا کہ وہ حبشہ جائیں اور بادشاہ سے کہیں کہ وہ مسلمانوں کو ان کے حوالے کردے۔

نجاشی بادشاہ کادربار

کفار کے ایلچیوں نے بادشاہ کے دربار میں پہنچ کر کہا

اے حبشہ کے بادشاہ! جن لوگوں کو تونے پناہ دی ہے انہوں نے اپنے آباؤ اجدادکے دین کو چھوڑدیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کا دین جھوٹاہے اور وہ باطل کی پیروی کرتے ہیں۔

حبشہ کے بادشاہ نے مسلمانوں کو دربار میں بلایا اور کہا

یہ دو افراد مکہ سے آئے ہیں اور کہتے ہیں کہ تم لوگ خطاکار ہو لہٰذا تم سب کو مکہ واپس بھیج دیا جائے۔ ان لوگوں کا کہنا ہے کہ تمہارے اہلِ خاندان تمہاری واپسی کے منتظر ہیں۔ تم لو گ اپنی صفائی میں کیا کہنا چاہتے ہو؟

حضرت جعفرؓ بن ابی طالب کا بیان

حضرت جعفرؓ بن ابی طالب نے کہا

اے بادشاہ! ہم بُت پرست تھے، بُرے کام کرنے سے ہم شرمندہ نہیں ہوتے تھے۔ ہم کمزوروں اور تنگ دستوں پر ظلم کرتے تھے۔ ہم اندھیروں میں بھٹک رہے تھے کہ ہمارے درمیان ایک پیغمبر محمد بن عبداللہ(علیہ الصلوٰۃوالسلام) پیدا ہو ئے اور انہوں نے ہمیں خدائے وحدہ لاشریک کا راستہ دکھایا اور ہمیں یہ درس دیا کہ ہم پتھروں کی بنی ہوئی مورتیوں کی پوجا نہ کریں۔ برے کاموں سے توبہ کرلیں اور مسکینوں پر ظلم و ستم نہ کریں۔ ہم لوگ ان پر ایمان لے آئے۔

اے بادشاہ! یہ لوگ پتھر اور لکڑی کے بنے ہوئے بتوں کو خدا کہتے ہیں اور ان کی پوجا کرتے ہیں، معاشرے کے ناتواں لوگوں پرظلم کرتے ہیں۔ یہ لوگ ہمارے پیغمبرعلیہ الصلوٰۃوالسلام کو ایذا پہنچانے، پتھر مارنے اور دشنام دینے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے۔

صورت حال واضح ہونے کے بعد حبشہ کے بادشاہ نے حکم دیاکہ عمرو بن العاص اور عمارہ بن ولید کے لائے ہوئے تحائف واپس کردیئے جائیں اس طرح قریش کے نمائندے نامراد واپس لوٹ گئے۔

نجاشی بادشاہ اور اسلام

نجاشی نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تعلیمات کے بارے میں مزید دریافت کیا۔ حضرت جعفر ؓ نے حبشہ کے بادشاہ اور اس کے دربار میں حاضر دوسرے لوگوں کے سامنے سورہئ مریم کی آیات تلاوت کیں، نجاشی یہ کلام سن کر بے اختیار رو پڑا اور اس کے دربار میں موجود دوسرے لوگ بھی رونے لگے۔ نجاشی نے کہا:

تمہارے پیغمبر (علیہ الصلوٰۃوالسلام) ایک عظیم اور سچے انسان ہیں۔ تم لوگ جب تک چاہو میرے ملک میں آزادی سے رہو، کوئی تمہیں اس ملک سے نہیں نکالے گا۔

Topics


Baran E Rehmat

خواجہ شمس الدین عظیمی

جملہ حقوق نوع انسانی کے لئے محفوظ ہیں
اس کتاب کا کوئی بھی حصہ یا پوری کتاب 
ہر علم دوست انسان چھاپ سکتا ہے۔


نام کتاب : باران رحمت صلی اللہ علیہ وسلم 
سن اشاعت: 27جنوری 2012
پبلشر: سیرت چیئر
شعبہ علوم اسلامیہ
بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان